جمہوریت اور ٹیکسوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ جدید فلاحی ریاست کا تصور ہی پارلیمنٹ کے اس بنیادی استحقاق سے پروان چڑھتا ہے کہ وہ ایک منصفانہ ٹیکس نظام وضع کر یگی اور ٹیکسوں سے جو وسائل دستیاب ہونگے انہیں عوام کی فلاح و بہبود اور سماجی خدمات مہیا کرنے پر صرف کر یگی۔ ٹیکس منصفانہ معاشرے کے قیام میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہی حقیقی جمہوریت کا ثمر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں امیروں پر بلند شرح سے ٹیکس نافذ کیے جاتے ہیں تاکہ محروم طبقات کو سماجی خدمات مہیا کی جاسکیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں انتہائی جابرانہ ٹیکس نظام نافذ ہے۔ جس میں غربا پر دھڑا دھڑ بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے اور اشرافیہ کے طاقتور طبقوں کو ٹیکس چُھوٹوں، رعائتوں اور ری بیٹس (Rebates) سے نوازا جاتا ہے۔ اس صورت حال کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ٹیکسوں سے جو تھوڑی بہت رقم اکٹھی کی جاتی ہے۔ اسے حکمران طبقہ اپنی ذاتی آسائشوں اور عیش و عشرت پر اڑا دیتا ہے جبکہ غریب عوام جو رقوم ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں اس کے عوض انہیں کوئی بھی سہولت مہیا نہیں کی جاتی۔ ہمارے غیر منصفانہ ٹیکس نظام نے معاشرے کے تاروپید اور تانے بانے بکھیر کر رکھ دیئے ہیں۔ دیگر عوامل کے علاوہ ہمارا ٹیکس نظام ملک کی ابتر معاشی، سماجی اور سیاسی صورتحال کا بڑی حد تک ذمہ دار ہے اور اس کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان پائی جانے والی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ غربت کی شرح بڑھ کر 51فیصد ہوچکی ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 100ملین سے تجاوز کر چکی ہے اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ حکمران طبقہ نہایت بے شرمی سے اپنی ذاتی سکیورٹی اور آسودگی پر اربوں روپے ضائع کررہا ہے۔ پاکستان میں حکمرانی کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ غرباء کے بنیادی حقوق تلف کئے جاتے ہیں۔ معاشی اور سماجی انصاف کا فقدان ہے۔ غذائی اشیا کی گرانی کی وجہ سے محروم طبقات کی قوت خرید میں بڑی کمی واقع ہوچکی ہے اور حکومت انہیں ریلیف دینے کی بجائے بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کیے جارہی ہے جس سے ان کے معاشی مسائل مزید سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ غربا کی بدتر صورت حال کی وجہ ریونیو یا وسائل کی کمی نہیں بلکہ حکمران طبقوں اور ان کی کاسہ لیس بیورو کریسی کی فضول خرچی اور بے جا اسراف ہے۔ ہمارے ملک میں سوشل ڈیمو کریسی قائم نہ ہونے کی بڑی وجہ ہمارے حکمران اور اشرافیہ ہیں جو ملکی وسائل پر قابض ہیں لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مستحکم جمہوریت اور جوابدہ حکومت کا قیام ایسے ملک میں ممکن نہیں جہاں اعلیٰ‘ سول و فوجی افسران اور اہل ثروت لوگ ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوں۔ سول اور خالی بیورو کریسی کے اعلیٰ ترین عہدیدار امتیازی قواعد کے ذریعے کروڑوں کے پلاٹ کوڑوں کے مول حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کے پاس آمدنی اور دولت کے انبار ہیں لیکن اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ ہمارے منتخب نمائندے اپنے اثاثوں اور جائیدادوں کے جو گوشوارے الیکشن کمیشن میں جمع کراتے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ کتنے سنگ دل ہیں اور ٹیکس ادا کرنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے بچ نکلنے کے لئے کیسے کیسے حربے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ٹیکس افسران بھی ان سے کسی قسم کی بازپرس نہیں کرتے۔ اپنے اثاثے چھپانے یا گھٹا کر بیان کرنے والے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی ہوئی دولت اور ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کی جمع کرائی ہوئی آمدنی سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں وہ بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ قوانین بنانے اوران پر عملدرآمد کروانے کے لئے منتخب کیے جاتے ہیں۔ وہ خود قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں اور ٹیکس قوانین کو پامال کرتے ہیں۔ غیر حاضر لینڈ لارڈز اپنی ذاتی کوشش اور محنت کے بغیر کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ وہ بے زمین کاشتکاروں کی خون پسینے کی کمائی پر پھلتے پھولتے ہیں۔ ان کی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں۔ اسی طرح بڑے بڑے گدی نشین اور پیر اپنے غریب مریدوں سے لاکھوں کے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ وہ بھی ٹیکس ادا کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں لیکن تنخواہ پر کام کرنے والے تمام ملازمین اپنی تھوڑی سی آمدنی سے بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنے آجر سے قرض لیں تو اس پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ حد تو ہے کہ کسی بیوہ کی سیونگ بینک میںجمع کرائی گئی رقم سے دو لاکھ سالانہ کی آمدنی ہوتی ہے (جو ٹیکس کی زد میں آنیوالی آمدنی سے کم ہے) تو اس پر بھی اسے 20ہزار ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ عوام کو روزمرہ ضروریات کی ہر شے پر سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے لیکن اہل ثروت اور اشرافیہ ہر قسم کے ٹیکس ادا کرنے سے بچ نکلتے ہیں۔ عوام کو بلامعاوضہ سماجی خدمات مہیا کرنا درکنار حکومت تو اپنے بنیادی فرض یعنی عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری میں بھی بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ ٹیکسوں سے جو ریونیو اکٹھا ہوتا ہے اس کا بڑا حصہ قرضوں کی واپسی، ڈیفنس اور حکمرانوں کی سکیورٹی اور بیرونی دوروں پر خرچ ہوجاتا ہے۔ روزہ مرہ کے حکومتی معاملات چلانے کے سلسلے میں جو اخراجات ہوتے ہیں۔ انہیں پورا کرنے کیلئے حکومت بینکاری نظام سے بھاری مقدار میں قرض لیتی ہے۔ ہمارے حکمران عوام کی طرح زندگی بسر کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور وہ تمام فوائد اور مراعات چھوڑنے کو تیار نہیں جو ٹیکس ادا کرنے والے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کرتے ہیں اور عوام پر عائد یا بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں غربا پر ٹیکسوں کا بوجھ 32فیصد بڑھا ہے جبکہ امیروں پر 19فیصد کم ہوا ہے۔ موجودہ بے جا غیر منطقی، غیر معقول اور غیر منصفانہ ٹیکس نظام کی وجہ سے غربا کا جینا دوبھر ہوتا جارہا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا معیشت اور عوام کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیے بغیر ان کا نفاذ نہایت قابل افسوس ہے اور ریونیو میں اضافے کے نام پر معاشرے کا معاشی اور سماجی تانا بانا تباہ کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے۔ معیشت کی استعداد کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنے میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے قرض کا بوجھ شرمناک حد تک بڑھ چکا ہے اور 13 کھرب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے اور مالیاتی خسارے آسیب کی طرح ہمارا پیچھا کررہے ہیں۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ ملک کی اشرافیہ نہ صرف اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کرتی بلکہ غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی سے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی بسر کررہی ہے۔ سول و فوجی بیورو کریسی، بے ضمیر فیوڈل، صنعتکار اور سیاستدان ملک کے تمام وسائل سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جو بے زمین کاشتکار اور صنعتی مزدوروں کی خون پسینے کی کمائی سے وجود میں آتے ہیں۔ غیر حاضر لینڈ لارڈز جن میں فوجی جرنیل بھی شامل ہیں بے شمار دولت کے مالک ہیں لیکن ذاتی ٹیکسوں کی مزاحمت کرتے ہیں، ٹیکس کے دائرہ کار کی قدرے تنگی یا وسائل کی کمی ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ موجودہ استحصالی بے ہودہ اور غیرمنصفانہ ٹیکس نظام ہے جس کی وجہ سے سول، ملٹری بیورو کریسی کرپٹ اور نااہل سیاستدان اور حریص کاروباری حضرات ملک کے 90فیصد وسائل پر قابض ہیں لیکن حکومتی ریونیو میں ان کا حصہ صرف 5فیصد ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن کے پاس زیادہ آمدنی اور دولت ہو ان پر بلند شرح سے ٹیکس نافذ کیا جائے لیکن طاقتور افراد اور طبقوں پر ٹیکس عائد کرنے کے لیے درکار سیاسی عزم کا فقدان ہے۔ پاکستان میں پچھلی دو دہائیوں میں تمام پالیسیوں کا محور امیروں پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنے اور بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے پر رہا ہے۔ 1980ء کی دہائی سے آج تک طاقتور طبقوں اور امیروں کو ٹیکس چھوٹ میں اربوں کا فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ 1977ء کے فنانس ایکٹ میں زرعی آمدنی کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا تھا۔ جیسے ضیاالحق کی فوجی حکومت نے ختم کردیا۔ ملک کو خود کفالت سے ہمکنار کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم معیشت کی حقیقی ٹیکس استعداد سے فائدہ اٹھائیں۔ آمدنی اور دولت میں پائی جانے والی عدم مساوات کم کریں۔ اس مقصد کے لیے امیروں پر بلند شرح سے ٹیکس نافذ کریں اور بالواسطہ ٹیکس میں بتدریج کمی کریں۔