اکثر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ 11مئی کے الیکشن کے بعد وجود میں آنے والی نئی حکومت کو نہایت سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہوگا۔ اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ معیشت کے استحکام اور تیز رفتار معاشی ترقی کے حصول کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ ان میں سرفہرست مالیاتی عدم توازن پر قابو پانا، انرجی کے بحران اور سرکلر قرض کا حل‘ حکومتی کنٹرول میں چلنے والے اداروں سے سیاسی اثر و رسوخ کا خاتمہ کرکے ان کی کارکردگی میں بہتری لانا اور پرائیویٹ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ نئی حکومت کو کئی ایک معاشی اور سماجی مسائل ورثے میں ملیں گے۔ ملک کے کئی علاقوں میں انتہا پسندی پروان چڑھ رہی ہے جو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ عام لوگوں کی زندگیاں انحطاط پزیر ہیں جبکہ اشرافیہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی بسر کررہی ہے جب تک معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے ،ملک میں سماجی استحکام کا حصول ناممکن ہوگا۔ مستقبل میں معاشی ترقی کے لیے درکار کلیاتی مظاہر یعنی انفراسٹرکچر، بڑے پیمانے کی مینو فیکچرنگ میں سرمایہ کاری‘ قومی بچتیں اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری، ٹیکس، جی ڈی پی تناسب اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کے لیے کریڈٹ کی فراہمی روبہ زوال ہے۔ ماضی کی معاشی بد انتظامی اور کمزور حکمرانی کی وجہ سے نہ صرف معیشت زبوں حال ہے بلکہ کئی کلیدی ادارے بھی نڈھال ہوچکے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں معاشی ترقی کی اوسط شرح نمو 3 فیصدرہی ہے۔ ملک کی آبادی بلند شرح سے بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے لیبر فورس میں شامل ہونیوالے نوعمر افراد کے لیے روزگار کے مواقع فراہم نہیں کیے جاسکے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ سرمایہ کاری کی شرح 12.5فیصد ہے جو پچھلے پچاس سالوں کی کم ترین سطح ہے۔ مالیاتی خسارہ بڑھتا جارہاہے۔ 2011-12 میں مالیاتی خسارہ 6فیصد سے تجاوز کر گیا تھا۔ اس سال کا ہدف 5 فیصد تھا لیکن یہ 8فیصد سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔ مالیاتی خسارے کی بلند شرح اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پبلک قرض میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ قرض کے بوجھ نے معیشت کو چکنا چور کردیا ہے۔ اس میں مزید اضافہ ناقابل برداشت ہوگا۔ بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں پر واجب الادا سود اور دیگر ادائیگیوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔ عوام اور انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے کچھ بھی نہیں بچتا۔ انرجی کے بحران نے نہ صرف انڈسٹری اور کاروباری سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ عوام کی زندگی بھی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ انرجی کے بحران کی وجہ سے ہماری معاشی ترقی کی شرح آدھی رہ گئی ہے۔ انرجی کے بحران پر قابو پائے بغیر معاشی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ سرکاری کنٹرول میں چلنے والے اداروں کے نقصانات پر قابو پانا بھی بڑا چیلنج ہوگا۔ یہ ادارے ہر سال ٹیکس گزاروں کے تین کھرب روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ان اداروں کو ہر حکومت نے ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے طور پر استعمال کیا ہے حالانکہ حکومت کا کام براہ راست ملازمتیں مہیا کرنا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا کام سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ پرائیویٹ سیکٹر سرمایہ کاری کرکے اپنے کاروبار کو توسیع دے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے۔ نئی حکومت کے لیے بہت بڑا اور فوری چیلنج بیرونی قرض کی نادہندگی (Insolvency) کا ہوگا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک سکڑ چکے ہیں اور صرف 6.6 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ سال کے اختتام سے پہلے آئی ایم ایف کو مزید 80 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ لہٰذا نئی حکومت کے پاس بہت ہی کم مقدار میں زرمبادلہ کے ذخائر ہونگے۔ جس رفتار سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں اور روپے کی قدر میں گراوٹ آرہی ہے اس سے اعتماد کا بحران (Crisis of Confidence)پیدا ہوسکتا ہے۔ جس سے سرمایہ بیرون ملک فرار ہونا شروع ہوسکتا ہے۔ نادہندگی سے بچنے کے لیے نئی حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا کیونکہ کوئی دوست ملک بھی ہماری مدد کو نہیںآئے گا۔ آئی ایم ایف کے امدادی پیکیج سے منسلک شرائط عام طور پر کلیاتی معاشی مظاہر کے استحکام پر زور دیتی ہیں۔ یعنی افراط زر اور بجٹ خسارے میں کمی کرنا ادائیگیوں کے توازن میں بہتری لانا اور قرضوں کو کنٹرول میں رکھنا وغیرہ۔ ماضی میں کئی ممالک نے آئی ایم ایف سے امدادی پیکیج حاصل کیے جن کے نتیجے میں کئی ممالک بشمول پاکستان معیشت میں کسی حد تک استحکام لانے میں تو کامیاب رہے لیکن معاشی ترقی کی رفتار کم ہوگئی اور سماجی شعبوں کو بھی مطلوبہ مقدار میں فنڈز مہیا نہ کیے جاسکے۔ اسی طرح تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے لیے مخصوص فنڈز میںبھی کمی کرنا پڑی۔ اگرچہ افراط زر اور بجٹ خسارے میں کمی کرنا اور قرض کو کنٹرول میں رکھنا معاشی پالیسی کے اہم مقاصد ہیں لیکن معاشی اورسماجی ترقی کے اہم ترین مقصد کو نظرانداز کرنا معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ لہٰذا نئی پالیسیاں بناتے وقت کلیاتی معاشی مظاہر میںا ستحکام لانے کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کو تحریک دینے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کو بھی برابر کی اہمیت دی جانی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے نئے وسائل پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہوگی۔ ٹیکس ریونیو میں کم از کم 50 فیصد اضافہ کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی سیکٹر کو ٹیکس کے دائرہ کار سے باہر نہیں رہنے دینا چاہیے۔ ٹیکس نظام میں بھی جمہوریت نافذ کرنا ہوگی تاکہ تمام افراد اور سیکٹرز کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جاسکے اور مراعات یافتہ افراد اور اداروں سے تمام چھوٹیں اور رعایتیں واپس لی جائیں۔ ٹیکس چوری کے کلچر کا خاتمہ اور ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں پائی جانے والی کرپشن کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ اخراجات کی ترجیحات کا نئے سرے سے جائزہ لیکر غیر ترقیاتی اخراجات میں کم از کم 20فیصد کمی کرنی ہوگی۔ اس مقصد کے لیے بیورو کریسی کے حجم میں کمی کرنا ہوگا جو محکمے صوبوں کو منتقل کیے گئے ہیں ان کا سٹاف بھی صوبوں کو بھیج دینا چاہیے۔ حکومت کے تمام محکموں کو کنٹریکٹ وغیرہ دینے کے لیے 2004ء کے پبلک پروکیورمنٹ رولز پر عملدرآمد کا پابند بنایا جانا ضروری ہوگا۔ اصلاحاتی ایجنڈا اسی صورت میں کامیاب ہوسکے گا اگر ہم ملکی وسائل میں اضافہ کرسکے۔ ماضی میں حاصل کی گئی بیرونی امداد سے معاشی ترقی نہیں ہوئی بلکہ وہ غیر مقبول فیصلوں اور مشکلات کو موخر کرنے کا باعث بنی ہے۔ ویسے بھی بیرونی وسائل کی آمد سکڑ رہی ہے۔ عالمی کساد بازاری کی وجہ سے امریکہ اور یورپی ممالک کے بجٹ دبائو کا شکار ہیں اور عالمی بینکوں کا رویہ بھی سخت ہوگیا ہے۔ وہ کسی قسم کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ ڈونر ممالک کے رویے میںبھی تبدیلی آچکی ہے اور وہ برملا اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ جب تک پاکستان کی اشرافیہ اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ وہ اپنے ملک کے ٹیکس گزاروں کی آمدنی امداد میں کیوں دیں۔ لہٰذا نئی حکومت کو ایک ایسی معیشت ورثے میں ملے گی جس کے وسائل محدود ہیں۔ بیرونی وسائل کی آمد خشک ہورہی ہے اور عوام کی سماجی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے۔ نئی حکومت کا فرض ہوگا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اصلاحاتی ایجنڈا تیار کرے اور معاشی ٹیم کو آزادی سے کام کرنے کا موقع دے۔ اصلاحاتی ایجنڈے سے بالکل انحراف نہ کرے کیونکہ اصلاحات کے تسلسل سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ماضی میں کئی دفعہ اصلاحاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کا آغاز کیا گیا لیکن ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ اس لیے نہیں کہ پروگرام میں کوئی خامی تھی یا وسائل کی کمی تھی یا اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے اہل نہیں تھے بلکہ اصلاحاتی پیکیج کی ناکامی کی اصل وجہ یہ رہی ہے کہ حکومت میں کمٹمنٹ کی کمی تھی۔ سیاسی مصلحتیں بروئے کار آتی رہی ہیں جو اصلاحات حکومت کے لیے غیر مقبول یا مشکل فیصلوں کی متقاضی تھیں انہیں درمیان میں ہی چھوڑ دیا جاتا اور ہر دفعہ دوبارہ اسی مقام پر آجاتے ہیں‘ جہاں سے کئی سال پہلے اصلاحاتی پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ تاہم امید کرنی چاہیے کہ اس دفعہ جو اصلاحاتی پیکیج تیار کیا جائیگا‘ اس کا حشر پہلے جیسا نہیں ہوگا۔