قرض کا بحران

مالیاتی خسارے اور پبلک قرض میں براہ راست نسبت پائی جاتی ہے۔ جب مالیاتی خسارہ پیدا ہوتا ہے تو قرض لینا پڑتا ہے اور اس رخنے کو پورا کرنے کے لیے اندرونی یا بیرونی ذرائع پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اگر مالیاتی خسارہ اندرونی ذرائع سے پورا کیا جائے تو نئے کرنسی نوٹ جاری کیے جاتے ہیں یا بینکاری نظام سے قرض لیا جاتا ہے۔ جس سے افراط زر کو ہوا ملتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کی فراہمی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری میں کمی ہوتی ہے اور معاشی ترقی کی شرح نمو پست رہتی ہے اس کے برعکس اگر مالیاتی خسارہ بیرونی ذرائع سے پورا کیا جائے تو کلیاتی معاشی مظاہر کو مستحکم کرنے میں تو مدد ملتی ہے لیکن بیرونی قرض کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ ماضی میں لیے گئے قرضوں کے جمع ہوتے رہنے سے قرضوں کی خدمت یعنی سود اور اصل زر کی قسطوں کی ادائیگی کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ چکی ہے‘ صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ ہمیں قرضوں اور سود کی ادائیگی کی خاطر مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ جس سے پبلک قرض میں متواتر اضافہ ہورہا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں معیشت کو بڑے مالیاتی خسارے کا سامنا رہا ہے اور اس رخنے کو پورا کرنے کے لیے حکومت اندرونی اور بیرونی ذرائع سے دھڑا دھڑ قرض لیتی رہی ہے اور پبلک قرض خطرناک رفتار سے بڑھتا رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا کل قرض 13ٹریلین روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس میں اندرونی قرض 7.8 ٹریلین اور بیرونی قرض 60 ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ اس سال قرض کی خدمت پر 1.2ٹریلین روپے خرچ ہونگے جو کُل ریونیو کا 60فیصد ہے۔ پبلک قرض میں اضافے کی وجہ سے اس سال مالیاتی ضرورتوں میں 31فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جون 2008ء میں کُل قرض 6.1ٹریلین تھا۔ پچھلے پانچ سالوں میں تقریباً 7 ٹریلین کا اضافہ ہوا اور قلیل مدتی قرض 4.5 ٹریلین ہوچکا ہے جو ہمارے اندرونی قرض کا 53فیصد ہے۔ قلیل مدتی قرض کی وجہ سے حکومت کا کمرشل بینکوں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ اگر حکومت نے احتیاط سے کام نہ لیا اور مالیاتی خسارے پر قابو نہ پایا تو پاکستان قرض کے منحوس چکر میں پھنس کر رہ جائے گا۔ آئی ایم ایف نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں بڑھتے ہوئے قرض کے تباہ کن اثرات سے خبردار کیا ہے دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی آئی ایم ایف کے مالیاتی آسودگی کے سرٹیفکیٹ (Letter of comfort) کے بغیر قرض دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک بھی حکومت سے اصرار کررہے ہیں کہ مالیاتی شعبے میں نئے وسائل کی حرکت پذیری کے لیے ا صلاحات کا آغاز کیا جائے تاکہ معیشت کو پٹڑی پر چڑھایا جا سکے۔ ملک قرض کے بھیانک جال میں پھنس چکا ہے لیکن حکومت نے مزید وسائل کی حرکت پذیری کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔ بلکہ حکومتی کنٹرول میں چلنے والے کرپٹ اور نااہل اداروں کے نقصانات پورا کرنے کے لیے بینکاری نظام سے اندھا دھند قرض لیے جارہے ہیں جس سے پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کی فراہمی متاثر ہورہی ہے اور ان کی ترقی کے امکانات دھندلا دئیے ہیں۔ بیرونی وسائل کی آمد خشک ہونے کی وجہ سے مالیاتی خسارے کے رخنے کو پورا کرنے کا واحد ذریعہ کمرشل بینک بن چکے ہیں۔ حکومتی کنٹرول میں چلنے والے اداروں کی ری سٹرکچرنگ کے لیے ابھی تک کوئی اقدام نہیں کیے گئے۔ جس کی وجہ سے وہ بدستور نقصان میں چل رہے ہیں اور مالیاتی خسارے میں اضافے کا باعث ہیں۔ سرکلر قرض میں بدستور اضافہ ہورہا ہے۔ سٹیٹ بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاور کمپنیوں اور حکومتی کنٹرول میں چلنے والی دیگر ایجنسیوں کے سرکلر قرض کی ادائیگی کی وجہ سے پبلک قرض میں اربوں روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر موجودہ روش جاری رہی تو ہم قرض کے جال سے کبھی بھی نہیں نکل سکیں گے۔ اس سال کے اختتام تک ہمارا بیرونی قرض 65ارب ڈالر ہوجائیگا۔ حکومت بڑھتے ہوئے مالیاتی رخنے کو پورا کرنے کے لیے بینکاری نظام سے بھاری قرض لینے پر انحصار کررہی ہے۔ اس سے روپے کی قدر کم ہورہی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر پگھل رہے ہیں اور معیشت کی نائو بھنور میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ معاشی حکمرانی کی سب سے بڑی کمزوری بھاری بھرکم حکومتی مشینری اور حکومتی کنٹرول میں چلنے والے اداروں پر بلا روک ٹوک فضول خرچی جاری رکھنا ہے۔ ملک کے طاقتور طبقوں اور اہل ثروت افراد سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکامی کی وجہ سے غربا کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور ان کی معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ ملک میں وسائل کی کمی نہیں بلکہ اصل مسئلے کی جڑ سیاسی قیادت اور بیوروکریسی کی بدانتظامی ہے جس کی وجہ سے ہم معیشت کی استعداد کے مطابق ٹیکس ریونیو اکٹھا نہیں کر پا رہے۔ اس سے ہمارے معاشرے کا معاشی اور سماجی شیرازہ بکھر رہا ہے۔ ملک کی موجودہ ابتر صورتحال کی ایک بڑی وجہ امیر اور غریب کے درمیان خلیج کا وسیع ہونا ہے جو بتدریج بڑھ رہی ہے۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کی تعداد دس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ایک ایسے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں سول و خاکی بیورو کریسی سیاستدان، کاروباری افراد اور اشرافیہ کے دیگر طبقے نہایت آسودگی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہیں وہ تمام آسائشیں میسر ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے عام لوگوں کو بھی میسر نہیں۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے لیکن اشرافیہ کو لوٹ کھسوٹ کی آزادی ہے اور محروم طبقات انسانی معیار سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی فلاح و بہبود کی کسی کو فکر نہیں۔ یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ متعدد حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر مشکل اور غیرمقبول فیصلے نہ کیے گئے تو 2015ء تک ہمارا بیرونی قرض 75ارب ڈالر اور ملکی قرض 12ٹریلین سے بھی تجاوز کر جائے گا۔ اگر ٹیکس چوروں اور قومی دولت لوٹنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی نہ کی گئی اور سیاسی مصلحتیں کارفرما رہیں تو ملک مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ جائیگا۔ حکمرانوں اور بیوروکریسی کی شرمناک حد تک فضول خرچی مجرمانہ فعل ہے، کیونکہ آدھی سے زیادہ آبادی کو غذائی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگر معیشت کی صلاحیت کے مطابق ٹیکس اکٹھا کیا جائے تو 6ٹریلین ریونیو آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں ٹیکس ریونیو کا ہدف 2.38ٹریلین مقرر کیا گیا تھا۔ اب اسے گھٹا کر 2.1 ٹریلین کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی کرپشن کی وجہ سے سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز اور کسٹم ڈیوٹی سے حاصل ہونے والا ریونیو بھی معیشت کی استعداد کے 25فیصد سے زیادہ نہیں۔ 2011-12 میں ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی مد میں 804.8 ارب فیڈرل ایکسائز کی مد میں 122.5 ارب اور کسٹم ڈیوٹی سے صرف 218.9 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا‘ کُل ملا کر 1148.2 ارب روپے بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں حاصل کیے‘ اگر ٹیکس چوری اور کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو بالواسطہ ٹیکسوں سے کم از کم 3.5 ٹریلین کا ریونیو حاصل ہوسکتا ہے۔ جب تک ملک کے طاقتور طبقوں کو اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے کا پابند نہیں بنایا جاتا ہم قرض کے جال سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے قرض میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ پبلک قرض کو قابل برداشت حدود میں رکھنے کے لیے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ بجٹ خسارے کو 4فیصد سے کم کیا جاسکے۔ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے اشیائے تعیش کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی اور غیر رسمی معاشی سرگرمیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات میں بھی معتدبہ کمی کرنی چاہیے۔ ٹیکس پالیسی کو صنعتی ترقی کے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پروگریسو ٹیکسیشن کی دولت کی تقسیم کو غیر منصفانہ بنیادوں پر استوار کیا جائے یعنی امرا سے بلند شرح سے ٹیکس حاصل کرکے غربا کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ سرِ دست ہم غریب افراد ٹیکس کرکے امراء کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں