مشکل اور غیرمقبول فیصلوں کی ضرورت

نئی حکومت کو کئی ایک سلگتے ہوئے مسائل کا سامنا ہوگا جن کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ سب سے پہلا کام بجٹ کی تیاری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بجٹ کے ساتھ اپنے معاشی پالیسی فریم ورک کا بھی اعلان کرے۔ جس میں حکومت کی معاشی پالیسی کے خدوخال بیان کرنے کے علاوہ ادارہ جاتی تفصیل پر بھی روشنی ڈالی جائے۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ ملک اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو نئی معاشی پالیسیوں کے بارے میں اعتماد میں لیا جاسکے۔ نئی حکومت کو جو مسائل ورثے میں ملیں گے ان میں سرفہرست بجٹ خسارہ ،ٹیکس ریونیو کی پست مقدار، حکومتی کنٹرول میں چلنے والے بیمار ادارے ، بے روزگاری، ادارہ جاتی انحطاط ، سرمایہ کابیرون ملک فرار اور واٹر ٹیبل کی گراوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ معیشت کے طویل مدتی رجحانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری معیشت کو تاریخ کی طویل ترین سست روی کا سامنا ہے۔ پرائیویٹ سرمایہ کاری پچھلے پچاس سال کی پست ترین سطح پر ہے۔ بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں بڑی گراوٹ آچکی ہے ، رسمی معیشت سکڑ رہی ہے اور غیررسمی معیشت پھیل رہی ہے۔ انرجی سیکٹر منہدم ہوچکا ہے۔ پبلک سیکٹر میں لوٹ مارکا بازار گرم ہے اور بڑے پیمانے کی مینو فیکچرنگ کا سیکٹر بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے وسائل کی ضرورت ہوگی لہٰذا سب سے پہلے نئے وسائل کی حرکت پذیری کے لیے درکار مشکل اور غیرمقبول فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ ٹیکس جی ڈی پی تناسب کو بتدریج جی ڈی پی کے 15فیصد تک لایا جاسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے FBRاور ٹیکس نظام میں اصلاحات ناگزیر ہوں گی۔ ٹیکس کادائرہ کار بڑھانے کے لیے زرعی آمدنی اور غیررسمی معیشت کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ موجودہ ٹیکس لاز اور قواعدوضوابط کے گورکھ دھندے کا ازسر نو جائزہ لے کر انہیں آسان اور عام فہم بنانا ہوگا کیونکہ قواعد کی پیچیدگی سے ٹیکس افسران کے صوابدیدی اختیارات میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ٹیکس چوری اور کرپشن پھلتی پھولتی ہے۔ FBRجو ایس آر اوز (SROs)جاری کرتا ہے اس سے نہ صرف پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ پسندیدہ فرموں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور ٹیکس کی وصولی بھی کم ہوتی ہے۔ SROsجاری کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہیے تاکہ استثنا ء اور چھوٹیں دینے کے طریقے کو شفاف بنایا جاسکے۔ دوسرا بڑا چیلنج حکومتی کنٹرول میں چلنے والے اداروں کو کرپشن سے پاک کرنا‘ سیاسی مصلحتوں کی بجائے میرٹ پر بھرتی کرنا‘ ریسٹرکچرنگ کرکے ان کے نقصانات کم کرنا اور بالآخر پرائیویٹائز کرکے ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔ کاروبار اور انڈسٹری کی بحالی کی سرگرمیوں میں پیشرفت‘ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور ٹیکس اکٹھاکرکے قرضوں کی واپسی کادارومدار معیشت کے مختلف سیکٹرز کو بجلی اور گیس کی بلاتعطل فراہمی پر ہوگا‘ لیکن بڑھتے ہوئے سرکولر قرض کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں ہوگا۔ سرکولر قرض پر قابو پانے کے لیے پاور کمپنیوں کی ریسٹرکچرنگ کرکے انہیں کمرشل بنیادوں پر چلایا جائے اور ڈسٹریبیوشن نقصانات کی ذمہ داری پاور کمپنیوں پر ڈالی جائے۔ پاور کمپنیوں اور دیگر تمام اداروں کو اپنے واجبات فی الفور ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔ بجلی چوری میں ملوث افراد کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ اس وقت واپڈا کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کو (جن کی تعداد لاکھوں میں ہے ) مفت بجلی سپلائی کی جاتی ہے۔ اس کا کوئی جواز نہیں بلکہ اس سے ڈسٹریبیوشن نقصانات اور سرکولر قرض میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے بجلی کی مفت سپلائی فوراً بند کردینی چاہیے۔ اس وقت پاور سبسڈی سے امیر اور غریب سب فائدہ اٹھارہے ہیں۔ یہ سبسڈی صرف غریب افراد کو ملنی چاہیے۔ نادرا نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 4ملین غریب ترین خاندانوں کے کوائف تیار کیے ہوئے ہیں۔ پاور سبسڈی صرف ان 4ملین لوگوں کو ملنی چاہیے۔ اس سے پاور سبسڈی اور سرکولر قرض میں بڑی بچت ہوگی۔ 18ویں آئینی ترمیم اور NFC ایوارڈ سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔ لیکن اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا سلسلہ نامکمل ہے۔ کیونکہ حکومت سے عوام کا واسطہ مقامی سطح پر ہوتا ہے‘ اس لیے ایک متحرک اور فعال لوکل گورنمنٹ کے نظام کا قیام ناگزیر ہے۔ اس نظام کو بامقصد بنانے کے لیے صوبائی فنانس کمشن بھی قائم کیے جائیں جولوکل گورنمنٹ کے اداروں کو فنڈز الاٹ کریں۔ مرکزی حکومت کے تقسیم ہونے والے ٹیکس ریونیو (Divisible Tax Pool) کا 60فیصد ریونیو صوبوں کو منتقل ہوجاتا ہے۔ مرکزی حکومت کے پاس غیرلچکدار اخراجات یعنی قرضوں کی خدمت 1.2)ٹریلین)‘ ڈیفنس 600)ارب)‘ سبسڈیز 400)ارب ) اور ترقیاتی کاموں کے لیے بہت کم وسائل بچتے ہیں۔ اس لیے ایک مجموعی بجٹ فریم ورک تیار کیا جانا چاہیے اور نیشنل اکنامک کونسل NEC سے اس کی منظوری لی جائے جس کے تحت صوبے بھی فاضل ریونیو پیداکرنے کی ذمہ داری لیں تاکہ بجٹ خسارہ کم کیا جاسکے‘ بالخصوص پنجاب اور سندھ کو زرعی آمدنی ۔ پراپرٹی ، موٹروہیکل اور خدمات کے شعبوں سے نئے وسائل کی حرکت پذیری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ٹیکس جی ڈی پی تناسب میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے۔ کئی ممالک میں لوکل اور صوبائی سطح سے جی ڈی پی کے 5سے 10فیصد تک ٹیکس ریونیو حاصل کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ صرف جی ڈی کا 0.5فیصد ہے۔ صوبائی حکومتیں فاضل وسائل کو نئے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں۔ اسی سلسلے میں تعلیم‘ صحت‘ پینے کے صاف پانی‘ نکاسی آب کی سہولیات، سڑکوں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کو ترجیح دی جائے۔ جب بجٹ خسارہ کم ہوجائے گا تو SBPاور بینکاری نظام سے قرض میں بھی کمی آجائے گی۔ پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام PSDPاپنی افادیت کھوچکا ہے کیونکہ مالی وسائل کسی منصوبہ بندی کے تحت خرچ نہیں ہوتے اور معاشی ترقی سیاسی مصلحتوں کا کھیل بن کر رہ گیا ہے ۔ ترقیاتی فنڈز کا ایک حصہ ممبران پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران میں تقسیم کردیا جاتا ہے اور بقیہ ماندہ فنڈزکی بلاک الاٹمنٹ پریذیڈنٹ، وزیراعظم ، گورنر اور وزرائے اعلیٰ کو کردی جاتی ہے جو اپنی صوابدید کے مطابق فنڈز جاری کرتے ہیں۔ ہرسال ہزاروں منصوبے شروع کردیئے جاتے ہیں لیکن فنڈز منصوبوں کی لاگت کے دس پندرہ فیصد تک جاری کیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان منصوبوں کی تکمیل میں آٹھ دس سال لگ جاتے ہیں اوراخراجات ابتدائی تخمینوں سے دو تین گنا ہوجاتے ہیں؛ چنانچہ طریق کار کا ازسر نوجائزہ لے کرفنڈز کی الاٹمنٹ معاشی ترقی کے قومی مقاصد اور اہداف کے مطابق مختلف سیکٹر کو کی جانی چاہیے۔ ممبران پارلیمنٹ اور اعلیٰ ترین عہدیداروں کو بلاک الاٹمنٹ کا سلسلہ بند کردینا چاہیے۔ منصوبہ بندی کمشن تمام ترقیاتی منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لے کر جامع ترقیاتی پروگرام تیار کرے اور پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لے کر ہرسیکٹر کے ہر منصوبے کے لیے فنڈز الاٹ کرے۔ فوری ترجیح والے منصوبوں کو اتنے فنڈز جاری کیے جائیں کہ وہ ایک یا دوسال میں مکمل ہوجائیں۔ انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبے جاذب سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کی تکمیل کے لیے پروفیشنل اور مہارت یافتہ ورک فورس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے منصوبے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر مکمل کیے جانے چاہئیں۔ ایسے منصوبوں کی تکمیل میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ اگر ہرآنے والی حکومت اپنی پیشرو حکومت کے منصوبوں پر کام روک دے گی تو پرائیویٹ سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی اور انہیں پبلک سیکٹر کے منصوبوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ معیشت کی بحالی کے لیے معاشی ترقی کا احیا ضروری ہے۔ لیکن اگر معاشی ترقی بیرونی قرضوں سے حاصل کی جاتی ہے اور غربت کم کرنے میں مدد نہیں دیتی تو ایسی ترقی جاری نہیں رہ سکتی جیسا کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔ قرضوں سے بنائی بلٹ ٹرین، لیپ ٹاپ ، ییلوکیپ، گرین ٹریکٹر وغیرہ سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ بجٹ خسارہ اور قرض بڑھتا جائے گا لہٰذا معاشی ترقی کے حصول کے لیے ملکی وسائل میں وسعت پیدا کرنی ہوگی اور معاشی ترقی سے غربت کم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ اسی صورت میں معاشی ترقی کا عمل جاری رہ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں