سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی لہر

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سٹاک مارکیٹ کسی بھی ملک کی معیشت کی آئینہ دار ہوتی ہے یا عکاسی کرتی ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے بلکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہماری معیشت کی نائو طوفانوں میں گھری ہوئی ہے اور ہچکولے کھا رہی ہے۔ تمام کلیاتی معاشی مظاہر دگرگوں ہیں۔ مالیاتی خسارہ 8فیصد سے تجاوز کررہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر پگھل کر خطرناک حد تک گر چکے ہیں۔ روپے کی قدر بتدریج کم ہورہی ہے۔ کُل ملکی قرض محفوظ حدوں سے تجاوز کر کے جی ڈی پی کا 64فیصد ہوچکا ہے۔ بیرونی قرض 60ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔ انرجی کے بحران نے انڈسٹریل سیکٹر کی کارکردگی مفلوج کر رکھی ہے اور حکومتی کنٹرول میں چلنے والے اداروں کے نقصانات 400 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں اور وہ اپنے واجبات ادا نہیں کر پا رہے۔ معیشت کی زبوں حالی کے باوجود پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی لہر جاری ہے اور سٹاک مارکیٹ 100انڈیکس تمام نفسیاتی حدوں کو عبور کرتا جارہا ہے۔ 29مئی کو 21500 کی نفسیاتی حد کو بھی عبور کر گیا۔ سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ 2007-8ء میں کراچی سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی تھی اور کئی ہفتوں تک سرمایہ کاروں کو شیئرز بیچنے کا بھی موقع نہ مل سکا کیونکہ مارکیٹ کا آغاز ہی لوئر سرکٹ بریکر پر ہوتا تھا اور ٹریڈنگ ہوتی ہی نہیں تھی۔ اس کریش کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ کے چھوٹے بڑے اکثر پلیئرز پٹ گئے اور بعض نے تو اپنی جائیدادیں بیج کر نقصانات کی ادائیگی کی۔ اس عرصے میں شیئرز کی قیمتیں بہت گر گئیں اور ہماری اکثر کمپنیوں کے شیئرز 2 سے 5 E /(Price- Earning Ratio) P پر ٹریڈ ہونے لگے جبکہ ابھرتی ہوئی (Emerging market) سٹاک مارکیٹوں میں 10 سے 20 E/P تک ٹریڈنگ ہورہی تھی اس لیے کراچی سٹاک مارکیٹ ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے بہت ہی پرکشش ہوگئی۔ پاکستانی سرمایہ کاروں کو سٹاک مارکیٹ Melt Down کے صدمے سے باہر آنے میں کافی وقت لگا چونکہ مارکیٹ بہت پرکشش ہوگئی تھی۔ اس لیے انہوں نے رفتہ رفتہ سٹاک مارکیٹ میں سرگرمی کا آغاز کیا لیکن موجودہ تیزی کی لہر کا آغاز اس وقت ہوا جب سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی کرنا شروع کی اوراسے 13 فیصد سے گھٹا کر 9.5 فیصد مقرر کردیا۔ اس سے کارپوریٹ سکیٹر کی کاروباری لاگت میں بڑی کمی ہوئی کیونکہ فنانشل چارجز کاروباری لاگت کا بڑا حصہ ہوتے ہیں۔ ڈسکائونٹ ریٹ کم ہونے سے شرح سود بھی کم ہوگئی اور کارپوریٹ سیکٹر کو قرضہ جات پر سود کی مد میں جو بھاری رقم ادا کرنی پڑتی تھی وہ بتدریج کم ہوتی گئی۔ اس سے کمپنیوں کے سہ ماہی اورسالانہ اکائونٹس اور منافع جات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ کئی کمپنیوں کے فنانشل چارجز تو آدھے رہ گئے۔ اس سے بینکوں کو بھی فائدہ ہوا کیونکہ ان کے منجمد قرضہ جات کی وصولی شروع ہوگئی۔ ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی سے ٹیکسٹائل سیکٹر کے شیئرز پر بالخصوص مثبت اثرات مرتب ہوئے کیونکہ یہ سب سے زیادہ مقروض سیکٹر تھا۔ پچھلے چند سالوں سے ملک انرجی کے شدید بحران میں مبتلا ہے اور پرائیویٹ سرمایہ کاری نہیں ہورہی جس کی وجہ سے نئے کارخانے نہیں لگ رہے اور نہ ہی موجودہ یونٹس کو وسعت دی جاسکتی ہے لیکن اس عرصے میں ہماری آبادی 2.2فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھتی رہی ہے۔ اس لیے موجودہ کمپنیوں کے مال کی کھپت اور قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے‘ جس سے ان کے منافع میں بڑھوتری آئی ہے۔ اس وجہ سے بہت سی بلیو چپ کمپنیوں نے بھاری منافع کمایا اور اپنے شیئر ہولڈرز کو پہلے سے کہیں زیادہ ڈیویڈنڈ اور بونس شیئرز تقسیم کیے۔ بہت سی انرجی سیکٹر کی قیمتیں ڈالر سے منسلک ہیں‘ اس لیے ان کے منافع میں بھاری اضافہ ہوا۔ فوڈ، فارماسیوٹیکل اور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں روپے کی قدر میں کمی کے اثرات صارفین کو منتقل کر دیتی ہیں۔ اس لیے ان کی کارکردگی بھی بہتر رہی ہے۔ فرٹیلائزر اور سیمنٹ کے شیئرز بھی بہت پرکشش ہیں کیونکہ اس وقت ڈسکائونٹ پر ٹریڈ ہورہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے اس سے مکانیت کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے اور سیمنٹ کی طلب میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ جب انڈیا کو پسندیدہ تجارتی ملک کا درجہ دے دیا جائیگا تو پاکستان انڈیا کو سیمنٹ برآمد کر سکے گا کیونکہ انڈیا میں سیمنٹ کی سپلائی طلب سے کم ہے۔ 2010ء میں سٹاک مارکیٹ پر 10فیصد گین ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ ہوا تھا‘ لیکن بروکروں کے احتجاج کی وجہ سے اسے معطل رکھا گیا تھا۔ 2012ء میں اس قانون میں تبدیلی کی گئی اور سرمایہ کاروں کو یہ آپشن دیا گیا کہ اگر وہ سٹاک مارکیٹ سے شیئرز خرید کر 3ماہ تک اپنے پاس رکھیں گے اور جون 2014ء کو ٹیکس ریٹرن فائل کریں گے تو ان سے ان کی آمدنی کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔ اس کے بعد مارکیٹ میں بھاری سرمایہ کاری کا آغاز ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ الیکشن سے پہلے کئی مارکیٹ پنڈت مارکیٹ میں تیزی کی نئی لہر کی پیش گوئی کررہے تھے اور توقع کررہے تھے کہ مارکیٹ 100انڈیکس 21000 کی سطح عبور کر جائے گی کیونکہ الیکشن کا انعقاد اور اقتدار کی پرامن منتقلی سے کاروبار دوست حکومت ،عنان حکومت سنبھالے گی جس سے ملک میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی اور انرجی کے بحران کی شدت بھی کم ہوجائے گی۔ اگرچہ مارکیٹ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی لیکن بیرونی سرمایہ کاروں نے تیزی کی لہر کو جاری رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ نیشنل کلیرنگ کمپنی کے اعداد و شمار کے مطابق یکم اپریل سے 22 مئی تک بیرونی سرمایہ کاروں نے 212.44 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ پچھلے سال اسی عرصے میں صرف 54 ملین کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ کراچی سٹاک مارکیٹ کی کل کیپٹلائزیشن 5.15 ٹریلین روپے ہے اور بیرونی سرمایہ کاری اس کی 7.75 فیصد ہوگئی ہے جبکہ 2008ء میں صرف 1.6 فیصد تھی۔ مارکیٹ میں کام کرنے والے اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ سٹاک مارکیٹ کے ذریعے پاکستان کا کالا دھن سفید ہورہا ہے اور یہ 30جون تک بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر سٹاک مارکیٹ میں آتا رہے گا ۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں کالا دھن سفید کرنے کی غرض سے سٹاک مارکیٹ اور دیگر ذرائع سے کم از کم 100 ارب ڈالر پاکستان میں منتقل ہوئے ہیں؛ تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں منی لانڈرنگ کے ذریعے کتنی چوری کی گئی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2012ء سے 22 مئی تک 703.56 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جبکہ پچھلے سال اسی عرصے میں 413.12 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ اکثر بیرونی سرمایہ کاروں کا تعلق یو اے ای، یو کے، یو ایس اے، کینیڈا، آسٹریلیا، بہاماز، کیمین، آئیلینڈ، سنگاپور، ہانگ کانگ، لگثمبرگ اور ماریشس سے ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ جو سرمایہ بہاماز‘ کیمین‘ آئیلینڈ اور ماریشس سے آتا ہے‘ وہ ’حوالہ‘ کے ذریعے دبئی بھیجا جاتا ہے جہاں سے ان ممالک کو روانہ کردیا جاتا ہے اور وہاں سے بینکنگ ذرائع سے پاکستان آتا ہے تو کالا دھن براہ راست سفید ہوجاتا ہے۔ ایسے سرمایہ کار، آف شور کمپنیاں قائم کرتے ہیں جو پاکستان کی سٹاک مارکیٹ سے شیئرز خریدنے کے علاوہ یوکے، یو ایس اے اور ہانگ کانگ کی مارکیٹوں سے بھی شیئرز خریدتے ہیں۔ پاکستانی کمپنیوں کے شیئرز خریدنا سرمایہ کاروں کی معاشی فہم و فہراست کا ثبوت ہے کیونکہ ہماری سٹاک مارکیٹ بہت پرکشش ہے‘ جہاں 2012ء میں اوسط ریٹرن 49.2 فیصد رہا ہے اور جنوری سے 22 مئی تک سرمایہ پر اوسط ریٹرن 27فیصد ہوگیا ہے۔ یو ایس اے میں سالانہ اوسط ریٹرن 11.6 فیصد اور انڈیا میں 2012ء کی اوسط ریٹرن 27.85 ہے۔ اس کے علاوہ سرمائے کا اپنے ملک میں ہونا زیادہ محفوظ ہے‘ اس لیے بھی کہ عالمی سازشوں سے بچا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ امریکہ نے ایرانی انقلاب کے بعد ایران کے پرائیویٹ سرمایہ کاروں کے 15ارب ڈالر منجمد کردیئے تھے اور امریکہ کسی وقت پاکستانیوں کے سرمائے کے ساتھ بھی ایسا سلوک کرسکتا ہے۔ لہٰذا پاکستانیوں کے پیسے کے لیے پاکستان ہی محفوظ ترین جگہ ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں