زری پالیسی برائے جولائی اگست 2013ء

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 21جون کو جولائی اور اگست کے لیے نئی زری پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ فروری اور اپریل میں جاری کی جانے والی زری پالیسی میں ڈسکائونٹ ریٹ 9.5فیصد پر برقرار رکھا گیا تھا۔ لیکن اس دفعہ SBPنے ڈسکائونٹ ریٹ میں 0.5فیصد کمی کرکے 9فیصد مقرر کیا ہے ۔ SBPنے اپنے پالیسی بیان میں بیرونی وسائل کی آمد میں کمی اور بلند مالیاتی خسارے کو معیشت کے لیے بڑے چیلنج قرار دیا ہے ۔ان عوامل میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں ہوئی۔ SBPنے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ بیرونی وسائل کی آمد میں کمی اور بینکاری نظام سے بھاری حکومتی قرض زری پالیسی کے لیے بڑے خطرات ہیں۔ اس کے علاوہ لوڈشیڈنگ اور سکیورٹی خطرات بھی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تاہم SBPنے زری پالیسی پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا جائزہ لیا ہے، جس کے نتیجے میں پالیسی ریٹ میں کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ SBPنے پالیسی ریٹ میں کمی کی بڑی وجہ ملک میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو قرار دیا ہے۔ مئی کے الیکشن کے بعد ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوا ہے اور معاشی حالات کے سازگار ہونے کے بارے میں مثبت تبدیلی آئی ہے ۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے ،اس سے آنے والے دنوں میں معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہوں گے۔ دیگر وجوہ میں افراط زر میں کمی کا رجحان ،سرمایہ کاروں کا سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی پر اعتماد کے علاوہ بینکوں کے لائحہ عمل میں تبدیلی اور حکومتی سیکیورٹیز کی نیلامی میں حصہ لینا شامل ہیں۔ SBPکا خیال ہے کہ سیاسی استحکام پیدا ہونے سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ پالیسی ریٹ میں کمی سے پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کی فراہمی میں اضافہ ہوگا ۔اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور معاشی ترقی کی رفتار تیز ہوگی ۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی کارکردگی بہتر ہوگی اور برآمدات کا حجم بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ اس سال پرائیویٹ سیکٹر نے پچھلے سال کی نسبت بینکوں سے زیادہ قرض لیا ہے ،کیونکہ اس سال کمرشل بینکوں نے نان بینک پرائیویٹ فنانس کمپنیوں میں کم سرمایہ کاری کی ہے۔ پالیسی ریٹ میں موجودہ کمی سے یہ رجحان جاری رہے گا۔ حالیہ مہینوں میں کمرشل بینکوں نے اپنی پالیسیوں کو پالیسی ریٹ میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ پالیسی ریٹ اور بینکوں کی شرح سود میں مماثلت پائی جاتی ہے ،جس کی وجہ سے جب پالیسی ریٹ میں تبدیلی ہوتی ہے ،کمرشل بینک بھی شرح سود تبدیل کردیتے ہیں ، جس کی وجہ سے SBPکو یقین ہے کہ پالیسی ریٹ میں 0.5فیصد کمی کے بعد بینک بھی شرح سود میں0.5فیصد کمی کردیں گے۔ اس سے پہلے جب SBPپالیسی ریٹ میں چھوٹی کمی کرتا تھا تو بینک ایسی کمی کو نظرانداز کردیتے تھے اور اپنی شرح سود برقرار رکھتے تھے ۔اس سال پالیسی ریٹ کو ریڈور متعارف ہونے کے بعد اس صورت حال میں بہتری آئی ہے۔ پالیسی ریٹ میں کمی کی سب سے بڑی وجہ افراط زر کی موجودہ صورت حال ہے ۔اس سال کے لیے افراط زر کا ہدف 9.5فیصد تھا لیکن افراط زر ہدف سے کم ازکم 2پوائنٹ کم یعنی 0.5فیصد رہے گا ،تاہم آنے والے دنوں میں قیمتوں کی سطح میں بلند شرح سے اضافہ ہوسکتا ہے، کیونکہ جی ایس ٹی (جنرل سیلز ٹیکس) میں ایک فیصد اضافہ کردیا گیا ہے اور ٹیکسوں کے ڈھانچے میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، ان سے بھی افراط زر کو ہوا ملے گی۔ اس کے علاوہ بجلی کے ٹیرف میں بھی بڑا اضافہ کیا جارہا ہے لہٰذا اس بات کا خدشہ ہے کہ افراط زر 2013-14ء کے ہدف یعنی 8فیصد سے تجاوز کرجائے گا۔ تاہم اس وقت افراط زر کم ہے، جس کی وجہ سے پالیسی ریٹ میں کمی کا جواز پیدا ہوا۔ تاہم SBPنے خبردار کیا ہے کہ ادائیگیوں کے توازن کی موجودہ صورت حال اور مالیاتی کھاتے کے ساختمانی عدم توازن کے بارے میں چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ اس سال جاری ادائیگیوں کا خسارہ ایک فیصدکے قریب رہے گا۔ اس سال کے پہلے گیارہ مہینوں میں 143ملین ڈالر کا سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوچکا ہے۔ اور IMFکو قرض کی خدمت کے سلسلے میں ادا کی جانے والی قسطوں سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو بڑھتا جائے گا ۔اس سب کے باوجود SBPکو امید ہے کہ کاروبار دوست نئی حکومت کے آنے سے کاروباری ماحول سازگار ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں بڑا اضافہ ہوگا اور بیرون ملک سے وسائل کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اس سال مالیاتی خسارہ 8.8فیصد رہنے کا امکان ہے اور حکومت نے اگلے سال کے لیے مالیاتی خسارے کا ہدف 6.3فیصد مقرر کیا ہے۔ مالیاتی ابتلاکی بڑی وجہ بینکاری نظام سے بھاری حکومتی قرض ہے جو مئی کے مہینے تک 1230ارب روپے ہوچکا تھا ۔ جس میں SBPسے لیا جانے والا 413ارب روپے کا قرض بھی شامل ہے، اس سے پرائیویٹ سیکٹر کو قرض کی فراہمی متاثر ہورہی ہے۔ اگر حکومت قلیل مدتی شرح سود کو قابو میں رکھنے میں سنجیدہ نہ ہوتو پالیسی ریٹ کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پالیسی ریٹ میں جو تبدیلیاں کی گئیں ان سے افراط زر، ادائیگیوں کے توازن اور زرمبادلہ کے ذخائر پر بہت کم اثر پڑا۔ پاکستان کی معیشت کی موجودہ زبوں حالی کی وجہ تیزی سے بڑھتا ہوا پبلک قرض ہے۔ پبلک قرض میں پچھلے پانچ سالوں میں بڑی تیز رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ کل پبلک قرض اوسطاً 21.5فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھا جو 2008ء میں 6.1ٹریلین روپے تھا،مارچ 2013ء تک بڑھ کر 13.6ٹریلین ہوچکا تھا۔ ملکی قرض زیادہ تیز رفتار یعنی 24.1فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھا۔ ملکی قرض زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ اس پر بلند شرح سود لاگو ہے، اس لیے پالیسی ریٹ میں کمی حکومت کی ترجیح بن گئی تاکہ ملکی قرض کی خدمت پر کم خرچ ہو۔ پالیسی ریٹ میں 0.5فیصد کمی سے حکومت کو ملکی قرضوں کی خدمت پر 5ارب روپے کم خرچ کرنا پڑیں گے۔ کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ پالیسی ریٹ میں 1.5 فیصد تک کمی کا جواز تھا، لیکن SBPکو خدشہ تھا کہ اس سے ڈالر ائزیشن کا رجحان بڑھے گا اور اس لیے بھی کہ نئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا نہ کی جائیں جس نے IMFسے نیا قرض حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ جب معیشت مشکلات میں گھری ہوئی ہو تو مرکزی بینک اپنی پالیسی میں تبدیلی کرسکتے ہیں۔ اگر حکومت اپنے وعدے کے مطابق بجٹ خسارے میں کمی لاسکے اور اس رخنے کو پورا کرنے کے لیے بینکاری نظام سے قرض پر انحصار نہ کرے اور وسائل کے متبادل ذرائع حاصل کرسکے تو معیشت کے اکثر مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے اور مارکیٹ میں نقدیت کی مقدار بڑھائے بغیر پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کی فراہمی کا انتظام ہوسکتا ہے ۔اس سے نہ صرف معیشت کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ افراط زر کو بھی قابلِ برادشت حدود میں رکھاجاسکتا ہے۔ پیداوار میں اضافے سے برآمدات بڑھیں گی اور بیرونی سیکٹر پر دبائو کم ہوجائے گا۔ لہٰذا بیرونی ادائیگیوں سے متعلق خطرات کی نسبت افراط زر میں کمی اور پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کی فراہمی کو زیادہ ترجیح دینی چاہیے۔ SBPکو چاہیے کہ وہ حکومت اور مارکیٹ کو مثبت پیغام دے کہ اگر حکومت مالیاتی خسارہ کم کرنے اور IMFسے نیا قرض حاصل کرنے میں سنجیدہ ہے تو SBPحکومت کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ دنیا کے اکثر مرکزی بینک معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لیے پالیسی ریٹ میں کمی کررہے ہیں۔پاکستان میں ایسی پالیسی کی کہیں زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بہت بلند ہے جس کی وجہ سے ہمارے انسانی وسائل ضائع ہورہے ہیں اور معاشرے میں بے چینی پیدا ہورہی ہے۔ اگر افراط زر میں کمی کا رجحان جاری رہتا ہے تو پالیسی ریٹ میں مزید کمی کی جاسکتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں