آئی ایم ایف سے قرض کا حصول اور اس کے اثرات

دوسری جنگِ عظیم کے بعد نیا عالمی مالیاتی نظام تشکیل دیا گیا اور اس کو مستحکم بنیادوں پر برقرار رکھنے کے لیے جن مالیاتی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا آئی ایم ایف ان میں سے ایک ہے۔ اسے عالمی مالیاتی نظام کے استحکام کے سلسلے میں اہم کردار تفویض کیا گیا ہے۔ جب بھی کسی رکن ملک کو بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو آئی ایم ایف اس ملک کو مختصر عرصے کے لیے امداد (قرض) فراہم کرتا ہے تاکہ متعلقہ ملک ایسی پالیسیاں اختیار کرے جن کی مدد سے ادائیگیوں کے توازن میں بہتری لائی جاسکے۔ آئی ایم ایف کے معاشی ماہرین رکن ملک کو ریفارم پروگرام تیار کرنے میں ماہانہ ایڈوائس بھی دیتے ہیں۔ دراصل یہ ماہرانہ ایڈوائس نہیں بلکہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط ہوتی ہیں جن کے تحت قرض دیا جاتا ہے اور قرض لینے والا ملک ان شرائط پر عملدرآمد کا پابند ہوتا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں پاکستان کو جب بھی ادائیگیوں کے توازن میں مشکلات کا سامنا ہوا‘ مالی امداد کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا اور ہر دفعہ اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ ادائیگیوں کے توازن میں بہتری لانے کیلئے آئی ایم ایف نے جو پالیسی اصلاحات تجویز کی ہیں ان پر عملدرآمد کیا جائے گا، لیکن کچھ قرض حاصل کرنے کے بعد جونہی دم بھر کی مہلت ملتی، پالیسی اصلاحات پر عملدرآمد ترک کردیا جاتا یا معرض التوا میں ڈال دیا جاتا اور جواز یہ پیش کیا جاتا کہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت سخت ہیں۔ آئی ایم ایف پچھلے تیس برسوں میں وقفے وقفے سے پاکستان کو قرض فراہم کرتا رہا ہے لیکن اپنی ماہرانہ پالیسی اصلاحات اور اکنامک پروگراموں کے ذریعے پاکستان کو ادائیگیوں کے بحران سے نکالنے میں ناکام رہا ہے۔ حکومت نے الیکشن مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کے برعکس ایک بار پھر آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ یہ قرض (EFF) Extended Finance Facility کے تحت لیا جائے گا۔ معاہدے کے مطابق اس قرض کا دورانیہ تین سال ہوگا اور اس عرصے میں 5.3 ارب ڈالر کا قرض فراہم کیا جائے گا۔ تاہم حکومت کو امید ہے کہ آئی ایم ایف کا بورڈ اس رقم کو بڑھا کر 7.3ارب ڈالر کر دے گا۔ حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے آغاز پر 3ارب ڈالر کی رقم یکمشت ادا کردے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑنے والے دبائو کو کم کیا جاسکے۔ ماضی کے تجربات کے پیش نظر اس دفعہ آئی ایم ایف نے قرض کی ادائیگی کو پیشگی اقدامات سے مشروط کردیا ہے یعنی پہلے پالیسی ریفارمز پر عملدرآمد کا آغاز کرو پھر قرض کی قسط ادا کی جائے گی۔ تین ماہ کے بعد کارکردگی کا جائزہ لے کر اگلی قسط کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی لیے حکومت نے آئی ایم ایف کی کئی شرائط کوبجٹ میں شامل کرلیا ہے۔ دیگر شرائط پر ستمبر سے پہلے عملدرآمد کرنا ہوگا۔ تبھی قرض کی پہلی قسط جاری کی جائے گی۔ مالیاتی استحکام اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے اور آئی ایم ایف کے سٹیبلائزیشن پروگرام کی پاکستان کی مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری حاصل کرنی ہوگی۔ اس کے لیے مرکز چاروں صوبائی حکومتوں میں اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ ای ایف ایف کے آغاز سے پہلے مالیاتی خسارے میں بڑی کمی کردی جائے گی۔ اس سال کے بجٹ میں مالیاتی خسارے کا ہدف 6.3 فیصد رکھا گیا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد اس کو کم کرکے 6.00فیصد کردیا گیا ہے۔ اگر حکومت آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو چین جاپان اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک سے امداد حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اسی طرح عالمی بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامی ڈویلپمنٹ بینک بھی آئی ایم ایف کے لیٹر آف کمفرٹ کا انتظار کررہے ہیں۔ ای ایف ایف کے حصول کے بعد ان سے بھی قرض ملنے کی توقع ہے۔ اس سال حکومت نے تقریباً 11.5 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنا ہوں گی اس لیے آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر ڈونر ایجنسیوں سے بھی قرض کی ضرورت ہوگی۔ ان سے قرض اس وقت مل سکتا ہے جب آئی ایم ایف کا بورڈ ای ایف ایف کی منظوری دے دے گا۔ لیکن اگر خیبر پختونخوا اور صوبہ سندھ اصلاحات کے ایجنڈے پر متفق نہ ہوئے تو مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری حاصل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ ٹیکس ریونیو میں 23 فیصد اضافہ اور مالیاتی خسارے میں کمی تبھی ممکن ہوگی اگر صوبے فاضل بجٹ بنائیں۔ ورنہ مشکلات درپیش ہوں گی۔ حکومت نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ ٹیکس کا دائرہ وسیع کیا جائے گا اور ٹیکس نظام کو منصفانہ بنیادوں پر استوار کرکے ٹیکس ریونیو میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس وقت کاروباری حضرات کو 249ارب روپے کی ٹیکس چھوٹیں حاصل ہیں۔ وہ واپس لے لی جائیں گی اور آئندہ کے لیے یہ سلسلہ بند کردیا جائے گا۔ انرجی کے بحران کے حل کے لیے سب سے پہلے گردشی قرض کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ انرجی کے واجبات ہر شخص ، ادارے سے وصول کیے جائیں گے اور انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ بیرونی تجارت کے سلسلے میں آزاد بازاری معیشت کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات کرنا ہوں گی اور حکومتی کنٹرول میں چلنے والے اداروں کو ری سٹرکچر کرکے پرائیویٹائز کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی جو تفصیل ابھی تک سامنے آئی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ای ایف ایف سے منسلک شرائط پہلے حاصل کیے گئے پیکیجز جیسی ہیں بلکہ ان میں کچھ اضافہ کیا گیا ہے اور یہ شرط بھی رکھی ہے کہ وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ اس پروگرام پر عملدرآمد کی ضمانت دیں۔ نئے قرض سے منسلک شرائط کی وجہ سے بجٹ میں دیے گئے اکثر اہداف پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ اس سے معاشی ترقی کو تحریک دینے والے اقدامات بالخصوص متاثر ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ترقیاتی پروگرام کے حجم میں بھی کمی کرنا پڑے۔ مالیاتی خسارے میں کمی کرنے کی وجہ سے معاشی ترقی کا 4.4 فیصد کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکے گا بلکہ آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ کے مطابق معاشی ترقی کی شرح نمو صرف 3.7 فیصد رہے گی۔ اگر 2.475 ٹریلین روپے ٹیکس ریونیو کا ہدف حاصل نہ ہوسکا تو سرمایہ کاری کے لیے 1.15 ٹریلین سرمایہ کاری کا جو ہدف رکھا گیا ہے وہ بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ڈسکائونٹ ریٹ میں اضافہ سے پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کی فراہمی متاثر ہوگی اور سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اگر سٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے مارکیٹ سے ڈالر خریدنا شروع کردیئے تو روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی اور بجلی کے ٹیرف میں اضافے سے تمام اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ حکومت نے ایسی شرائط بھی تسلیم کرلی ہیں جو ان کے منشور کی نفی کرتی ہیں۔ حکومت نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ اگلے پانچ برسوں میں معاشی ترقی کی شرح نمو 7فیصد ہوجائے گی اورسرمایہ کاری کی شرح موجودہ 12.6 فیصد سے بڑھ کر 20فیصد ہوجائے گی اور ٹیکس، جی ڈی پی تناسب کو 15فیصد تک لایا جائے گا لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ معاہدے کے نتیجے میں جن پالیسیوں پر عمل کیا جائے گا ان سے مندرجہ بالا اہداف کا حصول ناممکن نظر آتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط معاشی استحکام پر زور دیتی ہیں لیکن اس سلسلے میں جو پالیسی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں ان سے معاشی ترقی کی رفتار سست پڑنے کاخدشہ ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ مالیاتی استحکام اور معاشی ترقی کے اہداف میں توازن پیدا کرے۔ آئی ایم ایف معاشی ترقی کی بجائے مالیاتی استحکام پر زور دیتا ہے۔ جیسا کہ یورپی ممالک میں ہورہا ہے، پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح بہت پست ہے اور بے روزگاری اور دہشت گردی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اس لیے معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں