فیڈریشن کا عمومی تصور یہ ہے کہ اس میں شامل تمام اکائیوں کے حقوق کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ حکومت سازی کے عمل میں تمام اکائیاں شامل ہوں گی اور کسی ایک اکائی کو غالب اکثریت حاصل نہیں ہوگی کہ وہ بلاشرکت غیرے حکومت بنا سکے اور پورے ملک پر حکمرانی کرے۔ اور تمام اکائیوں کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے خودمختاری حاصل ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جب آئین سازی کا عمل شروع ہوا تو دیگر مسائل کے علاوہ صوبوں کی نمائندگی اور خودمختاری پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے آئین سازی کا عمل کئی سالوں تک تعطل کا شکار رہا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا 56فیصد تھی اور اسے قومی اسمبلی میں 56فیصد نمائندگی کا حق تھا۔ لیکن مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی اکائیاں مشرقی پاکستان کو 56فیصد نمائندگی دینے کو تیار نہ تھیں۔ تعطل کا سلسلہ جاری رہا۔ بالآخر 1956ء کا آئین مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں برابری (Parity) کی بنیاد پر تیار کیا گیا۔ 1962ء کے آئین میں بھی یہی اصول اپنایا گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1973ء میں فیڈرل پارلیمانی آئین وجود میں آیا جس پر تمام صوبائی اکائیوں نے اتفاق کیا۔ اس آئین میں صوبوں کو برابر کی نمائندگی دینے کے لیے قومی اسمبلی کے علاوہ ایوانِ بالا (سینٹ) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لیکن سینٹ کو بہت ہی محدود اختیارات دیئے گئے۔ بالخصوص بجٹ کی منظوری اور دیگر مالیاتی امور قومی اسمبلی میں ہی نمٹا دیئے جاتے ہیں۔ مرکز میں حکومت سازی کے لیے پنجاب کو غالب اکثریت حاصل ہے کیونکہ اس کی آبادی زیادہ ہے۔ اس لیے چھوٹے صوبوں کو یہ گلہ رہا کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کا احساس محرومی گہرا ہوتا گیا۔ لہٰذا اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ احساس محرومی کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ یہ پنجاب مخالف پروپیگنڈے کا حصہ ہے یا ایک نیا تنازع کھڑا کرنے کی کوشش ہے؟ اس مقصد کے لیے اس تفاوت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو فیڈریشن کی حصہ دار اکائیوں کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ جو نہ صرف فیڈریشن کی روح کے منافی ہیں بلکہ اس کی وجہ سے پنجاب مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوان زیریں قومی اسمبلی اور ایوان بالا سینٹ کہلاتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اراکین براہ راست عوام کے ووٹ کے ذریعے منتخب ہوتے اور پورے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سینٹ کے اراکین کا انتخاب بالواسطہ ہوتا ہے اور وہ صوبائی اکائیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ پاکستان کی فیڈریشن مساویانہ نہیں ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے اکثر اختیارات قومی اسمبلی کے پاس ہیں۔ قومی اسمبلی ہی مرکزی حکومت کا انتخاب کرتی اور فنانس بل (بجٹ) کی منظوری دیتی ہے۔ قومی اسمبلی کی ممبر شپ کی بنیاد آبادی پر مبنی ہے۔ پنجاب کو اس سلسلے میں واضح اکثریت 55فیصد حاصل ہے جبکہ باقی تینوں صوبوں، فیڈرل کیپٹل اور فاٹا کے اراکین کے حصے میں 45فیصد سیٹیں آتی ہیں۔ 11مئی کے الیکشن نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اگر کوئی پارٹی پنجاب میں کلّی اکثریت حاصل کرے تو وہ پورے ملک پر حکمرانی کرسکتی ہے اور کوئی بھی پارٹی باقی تینوں صوبوں میں واضح مینڈیٹ کے باوجود مرکز میں حکومت نہیں بنا سکتی۔ لہٰذا الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے پنجاب کو تمام صوبوں پر واضح برتری حاصل ہے۔ قومی اسمبلی کی کل 272سیٹوں میں 148 سیٹیں پنجاب کی ہیں۔ مسلم لیگ ن نے پنجاب سے 129 سیٹیں جیتیں۔ جن میں 17 آزاد امیدوار بھی شامل ہیں اورباقی تینوں صوبوں میں صرف 16سیٹیں جیت سکی۔ اگر سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام تمام ووٹ ایک پارٹی کودیں تو بھی وہ پنجاب میں جیتنے والی پارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے پنجاب کے لیڈران کو کسی دوسرے صوبے کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے لیے پنجاب ہی کافی ہے۔ پی پی پی، پی ٹی آئی اوردیگر پارٹیوں نے باقی صوبوں میں زیادہ سیٹیں جیتی ہیں اور وہ قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن وہ تینوں مل کر بھی کسی ایسے قانون کی منظوری کو نہیں روک سکتے جو کسی دوسرے صوبے کے مفاد سے متصادم ہو یا ان کے حلقہ انتخاب کے لیے نقصان دہ ہو۔ جب کسی ایک اکائی کو اتنے وسیع اختیارات ہوں گے تو چھوٹے صوبوں میں احساس محروم پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ ان کے احساس محرومی اور تنہائی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی اور مالی خود مختاری حاصل ہو اور یہ کہ مرکز میں حکومت سازی میں وہ برابر کے شریک ہوں لیکن موجودہ انتظامات میں یہ ممکن نہیں۔ ظاہر ہے جب مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ایک اکائی کو کلیدی کردار حاصل ہو تو ہر پارٹی اس اکائی کے ووٹرز کو خوش کرنے اوران کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی اور دیگر اکائیوں کے مسائل نظر انداز ہوں گے۔ اسی لیے پنجاب کے تخت کو چھیننے کے لیے گورنر راج، محلاتی سازشوں اور تحریک عدم اعتماد جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اس کا حل یہ نہیں کہ پنجاب کی سیٹیں کم کردی جائیں بلکہ یہ ہے کہ مرکز میں حکومت سازی کے عمل میں سبھی صوبوں کو برابر کے اختیارات دیئے جائیں جیسا کہ صدر اور سینٹ کے اراکین کے انتخاب کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ 19ویں اور 20ویں ترمیم کرتے وقت صوبوں میں پائی جانے والی تفاوت کو نظر انداز کردیا گیا، اس تفاوت کو دور کرنے کے لیے پنجاب کو دو یا تین صوبوں میں تقسیم کرنے کے مطالبے بھی ہوتے رہتے ہیں تاکہ پنجاب کی اجارہ داری ختم کی جاسکے اور صوبوں کو برابری کی سطح پر لایا جاسکے۔ ایسا کرنے سے بھی شاید مسئلہ حل نہ ہو۔ کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی حاصل ہے لیکن سینٹ کو نہ تو کوئی مالی اختیارات حاصل ہیں اور نہ ہی مرکز میں حکومت سازی کے عمل میں اس کا کوئی کردار ہے۔ صدر اور سینٹ کے اراکین کے انتخاب میں چاروں صوبوں کو برابر کی نمائندگی دی جاتی ہے‘ باوجود اس کے کہ قومی اسمبلی میں ان کے اراکین کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب میں یہ طریق کار کیوں نہیں اختیار کیا جاسکتا؟ فیڈرل پارلیمانی نظام میں تمام اکائیوں کو مساوی نمائندگی دینے کے لیے ایوان بالا کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے تاہم اسے اتنے اختیارات دیے جاتے ہیں کہ وہ ایوان زیریں میں عدم توازن کے باوجود فیڈریشن کی تمام اکائیوں کے مفادات کا تحفظ کرسکے لیکن پاکستان میں سینٹ کو نہ تو مالیاتی اختیارات دیئے گئے ہیں اور نہ ہی وزیراعظم کے انتخاب میں اس کا کوئی کردار ہے۔ اس لیے چھوٹے صوبوں میں پایا جانے والا احساس محرومی ختم کرنے اور مرکز گریز رجحانات پر قابو پانے کے لیے آئین میں ترمیم کی جا سکتی ہے جس کے مطابق وزیراعظم کے انتخاب میں چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی‘ سینٹ کے ہمراہ حصہ لیں جیسا کہ صدر کے انتخاب کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ قومی اسمبلی میں تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی دی جائے۔ یہ پنجاب کے ساتھ ناانصافی ہوگی کیونکہ زیادہ آبادی کی وجہ سے اسے زیادہ نمائندگی کا حق ہے، ایک اور طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم کا انتخاب بالواسطہ کی بجائے براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہو۔ اس میں چاروں صوبوں کے عوام کی نمائندگی ہوجائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے اختیارات میں اضافہ ہونا چاہیے اور اسے مالیاتی اور دیگر انتظامی امور میں قومی اسمبلی کے برابر اختیارات ملنے چاہئیں تاکہ وہ تمام صوبوں کے مفادات کا تحفظ کرسکے۔