آج کل لبرلائزیشن، ڈیریگولیشن اور پرائیویٹائزیشن کا دور ہے جس میں منڈیاتی قوتیں اور پرائیویٹ سیکٹر کلیدی کردار کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں معاشی ترقی کا انجن سمجھا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ نجی شعبے کو فروغ دے کر اور پیداواری قوت اور کارکردگی میں اضافہ کرکے ملک کی معاشی ترقی کے لیے وسائل مہیا کیے جاسکیں۔ اس پالیسی کی حمایت اس لیے کی جاتی ہے کہ سرکاری شعبہ ذاتی نفع کے تصور سے عاری ہونے کی وجہ سے زیادہ مستعدی سے کام نہیں کرتا، اس وجہ سے وسائل سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ اس کے برعکس نجی شعبہ میں ذاتی منافع کے حصول کا تصور پایا جاتا ہے اور اس میں ذاتی حیثیت بہتر بنانے کا محرک موجود ہوتا ہے۔ اس لیے نجی شعبہ کے آجر زیادہ محنت اور تندہی سے کام کرتے ہیں۔ اپنے کاروبار کو مختلف قسم کی غیر مستعدیوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وسائل کی مناسب تخصیص کا بھی یہی ذریعہ بنتے ہیں۔ اس پالیسی کا مقصد نجی شعبہ کے پیدا کنندگان میں مقابلے کی قوتوں کو فروغ دے کر پیداواری قوت، مستعدی اور نفع آوری میں اضافہ کرنا‘ سرمائے کی مستعد منڈی کو فروغ دینا‘ معیشت کو منڈی میں رائج ہونے والی قیمتوں سے متاثر ہونے کی زیادہ سے زیادہ آزادی دینا ہے تاکہ معیشت کو حدِ امکان بالیدگی حاصل ہوسکے۔ پاکستان میں 1980ء کی دہائی کے شروع سے اب تک جتنی بھی حکومتیں اقتدار میں آئی ہیں‘ انہوں نے بڑے واشگاف الفاظ میں آزاد بازاری نظامِ معیشت کے کردار کی اہمیت پر زور دیا اور اس سلسلے میں کئی ایک اقدامات بھی کیے۔ جن سے کارپوریٹ سیکٹر اور پرائیویٹ افراد کے کردار کو توسیع دی جاسکے اور بیرونی دنیا سے پاکستان کی معیشت کے روابط بڑھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان اقدامات میں حکومتی کنٹرول میں کام کرنے والے اداروں کی نجکاری کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے اداروں پر کئی قسم کی کارروائیوں پر لاگو کنٹرول کو نرم کرنا بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر کسی سیکٹر میں پیداواری عمل شروع کرنے یا ادارے کے حجم یا مجموعی پیداوار میں اضافے کے فیصلوں کے سلسلے میں حکومتی عمل دخل کا خاتمہ، کارپوریٹ اور ذاتی انکم ٹیکس میں کمی کرنا اور کاروباری افراد کو مستقبل کی ٹیکس پالیسی کے بارے میں یقین دہانیاں آزاد بازاری نظام معیشت کو مستحکم کرنے کی پالیسی کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاروں کو نمایاں رعایتیں دی گئی ہیں۔ کریڈٹ کی سیلنگ کی زیادہ سے زیادہ حد ختم کردی گئی ہے اور پُرکشش زری اور مالیاتی ترغیبات دی گئی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو ان تمام سیکٹرز میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جو صرف حکومت پاکستان کا استحقاق تھا‘ جیسا کہ ٹیلی کمیونیکیشن، انرجی اور ائیر لائن وغیرہ۔ فری مارکیٹ اکانومی اور پرائیویٹائزیشن کے موجودہ رجحان کو حکومتی کنٹرول میں کام کرنے والے اداروں کی غیر معیاری کارکردگی اور ان میں وسیع پیمانے پر پائی جانیوالی کرپشن نے بھی تقویت دی ہے۔ حالیہ سالوں میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے بھی آزاد بازاری نظام معیشت کی بھرپور حمایت کی ہے۔ جن ممالک نے آئی ایم ایف سے پاور ٹی ریڈکشن یا گروتھ فیسیلٹی اور عالمی بینک سے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے تحت قرض حاصل کیے ہیں‘ وہ آزاد بازاری نظام معیشت کو فروغ دینے کے پابند ہیں۔ لیکن آزاد بازاری نظام معیشت سے مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے اچھی حکمرانی کا ماحول انتہائی ضروری ہے۔ اچھی حکمرانی معاشی ترقی کے حصول میں نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور اثاثوں، آمدنی، دولت اور دیگر فوائد کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتی ہے۔ اس کے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت پر ایک ایسی اشرافیہ قابض ہوجائے جو ملک کی قومی دولت لوٹنے میں مصروف ہو اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کردے۔ اچھی حکمرانی کی سب سے اہم شرط یہ ہوتی ہے کہ عوام کو یقین ہو کہ حکومت جائز اور قانونی ذرائع سے اقتدار میں آئی ہے اور عوام کی فلاح و بہبود میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اچھی حکمرانی کی سب سے اہم ذمہ داری انسانی حقوق کو پامال کیے بغیر امن و ا مان کا قیام ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک آزاد‘ قابل اعتماد‘ غیر جانبدار‘ شفاف اور موثر عدالتی نظام اور قانون پر عملدرآمد کرانے والی ایک فعال اور معتبر انتظامیہ موجود ہو‘ جو عدالتی فیصلوں پر موثر عملدرآمد کرانے کی اہلیت رکھتی ہو۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جس معاشرے میں لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کی بھرمار ہوتی ہے‘ امن عامہ کی صورتحال خراب اور انتظامی اور قانونی بحران ہوتا ہے‘ وہاں معیشت بھی جمود کا شکار ہوتی ہے۔ وہاں فہم و فراست، اعلیٰ اخلاقی اقدار، عالی ظرفی اور نجابت کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ معاشی ترقی اور سماجی انصاف کی فراہمی کے لیے حکومت کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے اور عوام کو بنیادی سماجی خدمات اور انفراسٹرکچر کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔ جیسا کہ انرجی، سڑکیں، پینے کا صاف پانی اور نکاسی آب کا نظام۔ غربت ختم کرنے کے پروگرام‘ بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولتیں اور پبلک سکیورٹی وغیرہ ضروری نہیں کہ حکومت یہ تمام خدمات خود فراہم کرے۔ بعض شعبوں جیسا کہ تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس سے کارکردگی میں نمایاں بہتری ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ معاشی پالیسیوں میں تبدیلی کی راہ ہموار کرے اور معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ اگر ہم معیشت اور ترقی کے سلسلے میں اپنی ماضی کی کوتاہیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی ایسا میکنزم موجود نہیں تھا جس کی مدد سے ہم دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے معاشی حقائق سے فائدہ اٹھانے کے لیے بروقت منظم پالیسیاں تیاریاں کرسکتے یا ان میں تبدیلیاں لاسکتے۔ علاوہ ازیں ہمارے ماہرین اور منصوبہ ساز سیاسی قیادت کو اس بات پر قائل کرنے میں بری طرح ناکام رہے کہ سنجیدہ معاشی مسائل کو نظرانداز کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ لیکن اب ہماری معیشت ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں سے ہم ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کی عیاشیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ معاشی پالیسی کے انتظام کے علاوہ حکومت کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ مناسب ریگولیٹری فریم ورک فراہم کرے۔ اگر وسائل کی تخصیص کو منڈیاتی قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ ملکی وسائل ایسے منصوبوں پر خرچ ہوں جو سماجی لحاظ سے کم ترجیح کے حامل ہوں یعنی امرا کے استعمال کی اشیا کی تیاری کے لیے ہی وسائل استعمال ہوجائیں اور عوام الناس کی ضرورتوں کو نظرانداز کردیا جائے۔ اسی طرح آزادی بازاری نظام معیشت کے تحت آمدنیوں کی تقسیم میں عدم مساوات پیدا ہو کر رہتی ہے اور معاشرے کے کم آمدنی والے افراد کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مشکلات پر قابو پانے کے لیے آمدنی کی تقسیم میں ہمواری لانا ضروری ہے۔ لہٰذا اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کی مداخلت ضروری ہوجاتی ہے۔ منڈیاتی قوتوں کی ناکامی کی صورت میں بھی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘ جیسا کہ ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ اور ناجائز منافع خوری وغیرہ کا سدباب۔ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ معیشت میں پیدا ہونے والے رخنوں کو پر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور اشیا و خدمات کی کافی مقدار میں فراہمی کو یقینی بنائے‘ آمدنی اور دولت چند ہاتھوں مرتکز ہونے کا سدباب کرے‘ ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں میں متوازن ترقی کے لیے اقدامات کرے اور ترجیحی سیکٹرز کو کریڈٹ کی فراہمی یقینی بنائے۔ پاکستان کی زیادہ تر صنعتوں میں اجارہ دارانہ عناصر پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی منڈیاں نامکمل بن کر رہ گئی ہیں۔ اجارہ دار فرمیں اپنی پیداوار کو محدود رکھ کر اپنی تیار کردہ اشیا کی قیمتوں اور اپنے منافع کو بڑھانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ان کی اجارہ دارانہ قوت کم کرنے اور ان کی معاشرے کی بہبود کے خلاف سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کی مداخلت ضروری ہوجاتی ہے تاکہ ان کی جسامت کم کی جاسکے یا ان کی طرف سے وصول کی جانیوالی قیمتوں پر کنٹرول کیا جاسکے۔