وزیر اعظم نے حلف اٹھانے کے بعد کہا تھا کہ وہ جلد قوم سے خطاب کریں گے ۔ لیکن انہوں نے کئی ہفتوں بعد قوم سے خطاب کیا۔ اس تاخیر کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ملک کو درپیش بحران نہایت سنگین اور کثیر جہتی ہے اور وزیر اعظم چاہتے تھے کہ مسائل کی پیچیدگی اور حساسیت کا نہایت گہرائی سے جائزہ لے کر قوم سے خطاب کریں۔ عام رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے اکثر رفقاء درپیش مسائل سے آگاہ تھے لیکن انہیں مسائل کی وسعت اور گہرائی کا ادراک نہیں تھا۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں اس بات کا اعتراف بھی کیا۔ یہ بات حیران کن ہے کہ وزیر اعظم 2008ء تا 2013ء ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے سربراہ ہوتے ہوئے مسائل کی پیچیدگی اور سنگینی کا ادراک نہ کر سکے۔ اس سے زیادہ مایوس کن بات یہ ہے کہ انہوں نے کسی ٹھوس حکمت عملی اور روڈ میپ کا ذکر نہیں کیا۔ وزیر اعظم نے الیکشن سے پہلے اور بعد میں نہایت واشگاف الفاظ میں اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ معیشت کی بحالی ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہو گی‘ لہٰذا لوگوں کو امید تھی کہ وہ درپیش معاشی بحران اور عوام کی مالی مشکلات کا جائزہ لے کر اپنے پانچ سالہ دور حکومت کے لئے اقتصادی حکمت عملی اور ایکشن پلان کا تفصیل سے ذکر کریں گے۔ معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی اور توانائی کی قلت ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے۔ کاروباری سرگرمیاں انحطاط پذیر ہیں۔ نہ تو بجلی کی پیداوار ضرورت کے مطابق ہے اور نہ ہی گیس کی طلب پوری ہو رہی ہے۔پٹرولیم مصنوعات بھاری قیمت پر درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ گھریلو ضروریات پوری کرنا مشکل ہے اور کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی تھیں۔ معاشی ترقی کے لئے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ توانائی کی پیداوار بڑھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب کے آغاز میں انرجی بحران پر قابو پانے کے لئے حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا ذکر کیا لیکن پاک ایران گیس پائپ لائن کا ذکر گول کر گئے۔ انہوں نے ایک امید افزا معاشی مستقبل کی نوید تو دی لیکن اس کے حصول کے لئے کیا حکمت عملی ہو گی‘ کیسے اقدامات کئے جائیں گے اور معیشت کے دیرینہ سٹرکچرل مسائل کے حل کے لئے درکار مشکل فیصلے کب کئے جائیں گے‘ اس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا۔ وزیراعظم نے جن بڑے معاشی مسائل کا ذکر کیا ان میں لوڈشیڈنگ ،سرمایہ کاری کا خشک ہونا، قرض کا بحران، بے روزگاری اور نقصان میں چلنے والے حکومتی ادارے سرفہرست ہیں۔ معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں بُری معاشی حکمرانی، سول سروس کی نااہلیت اور بڑے پیمانے پر کرپشن کو قرار دیا گیا۔ انہوں نے افراط زر کی بلند شرح ، بیرونی ادائیگیوں کے توازن کے سلسلے میں درپیش مشکلات، مطلق غربت اور دولت کی تقسیم میں پائی جانیوالی ناہمواریوں کا بھی سرسری ذکر کیا لیکن نادہندگی سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف سے جو قرض لیا جا رہا ہے‘ اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح بجٹ خسارے کی بلند شرح اور بینکاری نظام سے بھاری قرض لے کر زر نقدیت کی مقدار میں اضافے کی کوششوں کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کی۔ اس حکومت نے پہلے 40دنوں میں سٹیٹ بینک سے 611ارب روپے کا قرض لیا‘ جبکہ پچھلے پورے سال میں سٹیٹ بینک سے 507ارب روپے قرض لیا گیا تھا۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بیرونی قرض میں 276ارب روپے اضافہ ہو چکا ہے۔ ٹیکس نظام کی تشکیل نو کے لئے درکار ٹیکس اصلاحات اور پبلک سیکٹر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ملکی اور غیر ملکی قرض پر انحصار کم کرنے کی کسی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم نے وعدہ کیا ہے کہ کراچی سے لاہور اور گوادرسے چین تک شاہراہیں اور کراچی میں زیر زمین ریلوے سسٹم تعمیر کیا جائے گا‘ غربا کے لئے نئی ہائوسنگ سکیم کا آغاز کیا جائے گا اور نوجوانوں کے لئے ایمپلائمنٹ پروگرام شروع کیا جائے گا لیکن یہ سب کیسے ممکن ہو گا اور وسائل کہاں سے آئیں گے‘ اس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا۔ یہ سب کچھ بہت ہی خوش آئند اور سہانے خواب کی مانند ہے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لئے وسائل کی ضرورت ہے۔ اپنی تقریر میں وزیراعظم نے کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ملکی وسائل کتنے ہیں اور ان کی حکومت ان میں اضافہ کیسے کرے گی تاکہ ان کے معاشی وژن کو عملی جامہ پہنایاجاسکے۔ وہ یہ بتانا بھی بھول گئے کہ 480ارب روپے کے گردشی قرض اتارنے کا جو کارنامہ ان کی حکومت نے انجام دیا ہے اس کے لئے 480ارب روپے کے نئے کرنسی نوٹ چھاپے گئے‘ جو غربا پر ایک قسم کا ٹیکس ہے جو انہیں افراط زر میں اضافے کی شکل میں ادا کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نوازشریف نے متعدد بار اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی حکومت کشکول توڑ دے گی اور ملکی قرض کے بوجھ میں اضافہ نہیں کرے گی لیکن عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور عالمی بنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور اسلامی ڈویلپمنٹ بنک سے بھی قرض حاصل کر رہی ہے۔ معاشی خود کفالت حاصل کرنے کے لئے قابلِ عمل معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل قریب میں معاشی خود مختاری حاصل کی جا سکے اور ملکی پالیسیوں کو آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بچایا جا سکے۔ اگر قرض میں مزید اضافہ کئے بغیر شاہراہوں ‘ زیر زمین ریلویز‘ تعلیم‘ صحت‘ ہائوسنگ اور یوتھ ایمپلائمنٹ پروگراموں اور معاشی ترقی کے حوالے سے پبلک سیکٹر اخراجات بڑھانے ہیں تو وسائل میں اضافے کے لئے نئے ذرائع پیدا کرنے ہوں گے۔ نئے وسائل پیدا کرنے کے لئے جاگیردارانہ اشرافیہ‘ لینڈ مافیا‘ سٹاک مارکیٹ کے سٹے بازوں، سمگلروں ،ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کو ٹیکس کے دائرہ میں لانا ہو گا۔ زرعی آمدنی اور خدمات کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا۔ مراعات یافتہ طبقات کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹیں ختم کرنا ہوں گی۔ لین دین کے تمام سودوں کو دستاویزی شکل دینی ہو گی۔ کالی معیشت کا قلع قمع کرنا اور ٹیکس ایڈ منسٹریشن اور وزارت خزانہ کی تشکیل نو کرنا ہو گی۔ ان تمام محکموں میں طاقتور مفاد پرست افراد کا غلبہ ہے اور انہوں نے سیاسی نظام میں راہداریاں بھی بنا لی ہیں۔ اگر معیشت کی بحالی مقصود ہو تو سب سے پہلے نئے مالی وسائل پیدا کرنے کے لئے اقدامات تجویز کرنے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اخراجات میں کمی لانے کی منصوبہ بندی پر توجہ دی جائے۔حکومت کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ اخراجات کو موجودہ سطح پر منجمد کر دیا جائے گا اور اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا‘ یعنی ایک سال میں جتنا قرض واپس کیا جائے گا‘ اس سے ایک پیسہ بھی زیادہ قرض نہیں لیا جائے گا۔ حکومت ٹیکس ریفارمز کے ذریعے جتنا فاضل ریونیو پیدا کرے گی اس کے اندر رہتے ہوئے پبلک سیکٹر اخراجات کی ترجیحات متعین کی جا سکیں گی۔ نئے وسائل پیدا کئے بغیر بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کرنے اور وعدوں کے سبز باغ دکھانے سے احتراز کرنا چاہئے۔ حکومت کا بنیادی کام محفوظ اور پرامن ماحول پیدا کرنا اور کسی کی بھی سیاسی‘ معاشی یا سماجی حیثیت کا لحاظ کئے بغیر قانون کی حکمرانی قائم کرنا اور ہر کسی کے لئے برابری کے مواقع پیدا کرنا ہو گا۔ حکومت کا فرض ہے کہ سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنائے‘ زیر زمین معاشی سرگرمیوں کی بیخ کنی کرے‘ پراپرٹی کے حقوق کو یقینی بنائے‘ بینکاری نظام کی سرگرمیوں میں مداخلت نہ کرے سٹیٹ بینک کو خود مختار اور پروفیشنل ادارہ بنائے۔ کارپوریٹ سیکٹر اور سٹاک ایکسچینج کے لئے مضبوط ریگولیٹری فریم ورک مہیا کرے۔ ٹیکس نظام کو ریسٹرکچر کر کے نئے وسائل پیدا کئے بغیر عوام کی جان و مال کی حفاظت‘ قانون کی حکمرانی جبکہ تمام معاشی سرگرمیوں کے لئے برابر کے مواقع فراہم کئے بغیر مستقبل قریب میں کسی قسم کی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔