کسی ملک کی معاشی ترقی میں افرادی قوت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر کسی ملک کی افرادی قوت زیادہ مستعد‘ تعلیم یافتہ‘ جدید مہارتوں سے لیس ہو اور اس کی صحت کا معیار بلند ہو‘ تو ایسے ملک کے لیے تیز رفتار معاشی ترقی کا حصول ممکن ہوجاتا ہے۔ آج کی دنیا میں تعلیم اور تربیت کو انسان میں سرمایہ کاری کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کی مہارت اور تعلیم کی سطح کو بڑھایا جاتا ہے۔ ان کی صحت کے معیار کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر زیادہ تعلیمی ادارے اور ورکشاپس فراہم کی جاتی ہیں، مزدوروں کو صاف ستھرا ماحول صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور بہتر خوراک مہیا کی جاتی ہے۔ ان سہولیات کی بناپر ان کی استعداد کار اور کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے ملکی پیداوار میں اضافہ اور معاشی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسانی وسائل کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی ملک کی آبادی کا بڑا حصہ غیرتعلیم یافتہ اور جدید مہارتوں سے لیس نہ ہوتو اس کی پیداواری قوت پست رہ جاتی ہے اور ایسا ملک پسماندہ رہ جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں افرادی قوت کی تو بہتات ہے لیکن ان کی کوالٹی بڑھانے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی بھی حکومت نے معیشت کے کلیدی سیکٹر ز کو مطلوبہ اہمیت نہیں دی اور انسانی وسائل کی نشوونما اور ترقی کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی اور نہ ہی ٹیکس کلچر کو پروان چڑھانے پر خصوصی توجہ دی۔ نتیجتاً شرح خواندگی بہت پست رہی اور آبادی کا بڑا حصہ غیرتعلیم یافتہ اور جدید مہارتوں سے بے بہرہ ہے۔ ٹیکس کلچر کے پروان نہ چڑھنے کی وجہ سے معیشت کی استعداد کے مطابق ٹیکس ریونیو اکٹھا نہیں کرسکے‘ جس کی وجہ سے معاشی اور سماجی ترقی کے لیے درکار وسائل مہیا نہیں کیے جاسکے۔ بجٹ میں تعلیم کے لیے فنڈز کی فراہمی بہت ہی کم رہی۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 1980ء سے 2010ء کے درمیانی عرصے میں تعلیم کے شعبے کو مہیا کئے گئے فنڈز جی ڈی پی کے 0.8فیصد سے 2.4فیصد کے درمیان رہے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں 0.8فیصد اور 2007ء اور 2007-08ء میں 2.4فیصد رہے جبکہ علاقائی ملکوں کی نسبت یہ کم ترین سطح ہے۔ اسی وجہ سے ابھی تک نہ تو ہم خودکفیل ہوسکے ہیں اور نہ ہی جاری رہنے والی معاشی ترقی کا حصول ممکن ہوسکا ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 1980ء میں شرح خواندگی 29.5فیصد تھی اور اب 57فیصد کے قریب ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اسلام آباد میں شرح خواندگی 72.4فیصد لیکن پنجاب میں 46.6فیصد تھی جو سبھی صوبوں سے زیادہ تھی۔ یہ شرح بلوچستان میں سب سے کم یعنی 24.8فیصد تھی۔ چاروں صوبوں کے شہری علاقوں کی شرح خواندگی 46.8فیصد سے 64.5فیصد کے درمیان تھی لیکن دیہی علاقوں میں محض 17.5سے 38فیصد کے درمیان تھی۔ چاروں صوبوں کے شہری علاقوں میں بسنے والی خواتین کی شرح خواندگی 33.1فیصد سے 57.2فیصد کے درمیان تھی تاہم دیہی خواتین میں شرح خواندگی صرف 7.9فیصد اور 24.8فیصد کے درمیان تھی۔ دیہی پنجاب کی خواتین کی شرح خواندگی سب سے زیادہ یعنی 24.8فیصد جبکہ بلوچستان کے دیہات میں خواتین کی شرح خواندگی سب سے کم یعنی 7.9فیصد تھی۔ شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں کئی بنیادی رکاوٹیں ہیں‘ بالخصوص غیرترقی یافتہ علاقوں میں جہاں ملک کی کثیرآبادی قیام پذیر ہے۔ عام طورپر فیوڈل کلاس اپنے علاقوں میں شرح خواندگی بڑھانے کے پروگراموں کی حمایت نہیں کرتی کیونکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ اگر مقامی لوگ تعلیم حاصل کرلیں گے تو ان کے لیے سستی ورک فورس کا حصول مشکل ہوجائے گا۔ بہت سے لوگ جہالت اور ذہنی پستی کی وجہ سے بچیوں کو سکول بھیجنا پسند نہیں کرتے۔ ان میں اکثر کی سوچ یہ ہے کہ خواتین کی تعلیم پر خرچ کرنا پیسے کا ضیاع ہے کیونکہ بالآخر شادی کے بعد انہیں گھریلو خواتین کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ بہت سے والدین غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو 9یا 10سال کی عمر میں کام پر لگادیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بچے کی تعلیم پر خرچ کرنے کی بجائے اسے اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ اپنے خاندان کا کفیل بن جائے۔ ان حالات میں صوبائی حکومتیں دیہی علاقوں میں جو سکول کھولتی ہیں‘ وہ گھوسٹ سکول بن جاتے ہیں اور جو سکول چل رہے ہیں ان کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں۔ معاشی ترقی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ شرح خواندگی بڑھانے کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں میں اضافہ کیا جائے۔ چین اور ایشین ٹائیگرز نے اپنے انسانی وسائل کی نشوونما پر تقریباً بیس سال تک سخت محنت کی‘ اس کے بعد ان کی معیشت تیز رفتار ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکی۔ ہمیں بھی تعلیم اور تربیت یافتہ ہنرمند اور جدید مہارتوں سے لیس ورک فورس کی ضرورت ہے‘ جو ملک کی ترقیاتی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں بھی چین اور اقتصادی ایشین ٹائیگرز کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔ جس طرح ہم نے انسانی وسائل کی نشوونما کے سلسلے میں غفلت سے کام لیا‘ اسی طرح ہم ملک میں ٹیکس کلچر کو پروان چڑھانے میں ناکام رہے ہیں۔ قومی تعمیر میں ٹیکس کے کردار کے بارے میں ہمارا رویہ افسوسناک ہے۔ ٹیکس چوری عام ہے۔ اشرافیہ اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے کو تیار نہیں۔ ایف بی آر جس کا کام ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنا ہے، کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے‘ جس کی وجہ سے معیشت کی استعداد کے مطابق ٹیکس ریونیو اکٹھا نہیں کرپاتا ۔ ٹیکس ریونیو ناکافی ہو نے کی وجہ سے حکومت کو بھاری قرض پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ بیرونی وسائل کی آمد اور براہ راست سرمایہ کاری سکڑ رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف کے قرضوں کے ساتھ سخت شرائط منسلک ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ملک کی معاشی ترقی اور غربت پر قابو پانے کے لیے درکار پالیسی بنانے کے سلسلے میں حکومت آزادانہ فیصلے نہیں کرپاتی۔ اس لیے قومی معیشت ہمیشہ غیریقینی صورت حال کا شکار رہتی ہے۔ چونکہ ٹیکس ریونیو حکومت کے روزمرہ معاملات کے اخراجات پورے کرنے سے کم ہوتا ہے‘ اس لیے تعلیم صحت اور دیگر سماجی خدمات کے بجٹ میں کافی فنڈز مختص نہیں کیے جاسکتے۔ ٹیکس ریونیو میں کمی کی وجہ سے مالیاتی خسارہ بڑھتا رہتا ہے ۔ ملکی اور بیرونی قرض میں اضافہ ہوجاتا ہے اور روپے کی قدر گھٹتی رہتی ہے۔ ٹیکس ریونیو کی پست سطح کی وجہ سے نہ صرف معاشی خودکفالت اور ترقی کا عمل خطرے میں پڑجاتا ہے بلکہ اس سے ملک کی سکیورٹی کی صورت حال بھی مخدوش ہوجاتی ہے کیونکہ اس مقصد کے لیے مطلوبہ وسائل میسر نہیں ہوتے جن سے سکیورٹی نیٹ ورک کو مضبوط بنایا جاسکے۔ ملکی وسائل میں کمی کی وجہ سے قومی تعمیر کے نئے پروجیکٹس شروع نہیں کیے جاسکتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ دیگر علاقائی ممالک معاشی ترقی کی دوڑ میں بہت آگے نکل چکے ہیں اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں ہمارا ٹیکس جی ڈی پی تناسب 13.8 فیصد تھا اور اب کم ہوکر 9فیصد کے قریب رہ گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ٹیکس جی ڈی پی تناسب میں کمی کا رجحان رہا‘ کیونکہ اخراجات بڑھتے گئے ہیں اور ٹیکس ریونیو میں اسی رفتار سے اضافہ نہیں ہوسکا۔ معیشت کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لیے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ناگزیر ہے۔ حکومت بالواسطہ ٹیکسوں سے ریونیو بڑھاتی رہی ہے جن کا زیادہ بوجھ غربا کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ 80فیصد آبادی کا قومی آمدنی میں حصہ 20فیصد ہے۔ زیادہ ٹیکس انہی سے وصول کیے جاتے ہیں حالانکہ زیادہ ٹیکس ان 20فیصد افراد سے حاصل کرنے چاہئیں جو ملک کی 80فیصد دولت کے مالک ہیں۔ ٹیکس جی ڈی پی تناسب سے نمایاں اضافہ امرا اور متمول افراد پر ٹیکس عائد کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے‘ جواپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ملک کو خودکفیل اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے انسانی وسائل کی نشوونماناگزیر ہے اور ایک امیدافزاٹیکس کلچر کو پروان چڑھانا ضروری ہے۔