سہانے خواب دکھائو اور قرض بڑھائو

ہمارے معاشی مسائل کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ ہم ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کے امکانات سے پورا فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ ٹیکسوں سے گریز کا رحجان بھی جاری رہا ہے اور کسی بھی حکومت نے ٹیکس ریونیو بڑھانے کی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی جس کی وجہ سے ہم کئی دہائیوں سے اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتے رہے ہیں ۔ٹیکس مالیاتی پالیسی کا انتہائی مؤثر حربہ ہوتے ہیں، جن کی مددسے صَرف کم کیا جاسکتا ہے۔ براہ راست ٹیکسوں کی مددسے امیروں کی بڑھتی ہوئی دولت (جونمایاں صرف پر خرچ ہوتی ہے )حکومت حاصل کرسکتی ہے۔ لیکن پاکستان میں سرمایہ دار، جاگیردار اور کاروباری افراد اس قدر طاقتور ہیں کہ کوئی بھی حکومت ان سے ان کی استعداد کے مطابق ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہی۔انتظامی مشینری انتہائی بدعنوان ہے ۔وہ خود ٹیکس چوروں کو ٹیکس چوری کے راستے بتاتی ہے ۔حکومت غیرترقیاتی اخراجات کو کنٹرول میں رکھنے میں بھی ناکام رہی ہے، جس کی وجہ سے حکومتی محاصل غیرترقیاتی اخراجات پورے کرنے سے بھی ناکافی پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے مالیاتی اور جاری ادائیگیوں کے خسارے پیدا ہوتے ہیں ۔ان خساروں کے رخنے پورے کرنے کے لیے حکومت ملکی اور غیرملکی ذرائع سے قرض لیتی ہے۔ جس سے قرض کا بوجھ بڑھتا رہتا ہے اور ملکی آمدنی کا بڑا حصہ قرضوں کی خدمت پر خرچ ہوجاتا ہے ۔ الیکشن سے پہلے ن لیگ نے بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ وہ ملک کو قرض کے کینسر سے نجات دلائے گی ، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد عالمی اداروں اور دیگر اداروں سے قرض حاصل کرنے کے لیے سابقہ حکومت سے بھی زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کررہی ہے ۔ وزیر خزانہ نے 26اگست کی پریس کانفرنس میں فرمایا کہ حکومت عالمی اداروں سے 2ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے، تاکہ پرانے قرض واپس کیے جاسکیں اور بڑے بڑے منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے لیے عالمی اور ملکی بانڈ مارکیٹ سے وسائل حاصل کیے جائیں گے لیکن ایسا ملک جو نادہندگی سے بچنے کے لیے IMFاور دیگر اداروں سے قرض حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہو، اس کے بانڈز کون خریدے گا۔ بالفرض اگر کوئی ان بانڈز کو خرید بھی لیتا ہے تو اس سے نہ صرف قرض میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کی لاگت بھی عام قرضوں سے زیادہ ہوگی۔ جب تک حکومت امراء اور طاقتور طبقوں سے ان کی استعداد کے مطابق ٹیکس وصول نہیں کرتی ، اخراجات اور آمدنی کا بڑھتا ہوا رخنہ پورا نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ٹیکس سے بچ نکلنے کے تمام راستے بند کردیئے جائیں اور ٹیکس ایڈمنسٹریشن کی کرپشن پر قابو پالیا جائے تو ہم آسانی سے 8ٹریلین روپے ٹیکس اکٹھا کرسکتے ہیں ۔حکومت کو اقتدار میں آئے تین ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے جن سے پتہ چلے کہ حکومت مالیاتی خسارہ کم کرنے، ٹیکس ریونیو میں اضافہ کرنے، اسراف اور فضول خرچی پر قابو پانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کررہی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اور نہ ہی وزیرخزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں ابتر معاشی صورت حال اور انرجی کے بحران کے حل کے لیے کسی بھی قابل ذکر اقدام کا ذکر کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس قرض اور انرجی کے بحران، معیشت کی بحالی اور نئے وسائل پیدا کرنے کے لیے کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں ہے۔ سٹرکچرل ریفارم تودور کی بات ہے، حکومت 500 ارب روپے کے کرنسی نوٹ چھاپ کر گردشی قرض ادا کرنے کا بڑا کریڈٹ لے رہی تھی، لیکن دوماہ سے کم عرصے میں پھر 50ارب روپے کا گردشی قرض پیدا ہوچکا ہے۔ اب تک ملکی قرض 15ٹریلین روپے اور غیر ملکی قرض 60ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ جوجی ڈی پی کا 67فیصد ہے جبکہ Fiscal Responsibility and Debt Management Act2010 کے مطابق 60فیصد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ اتنے بھاری قرض پر وسائل کا بڑا حصہ خرچ ہوجاتا ہے ۔اس سال کے بجٹ میں قرض کی خدمت پر 1.52ٹریلین روپے رکھے گئے ہیں ۔اس ہدف کا حصول ناممکن ہوگا کیونکہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ابھی تک قرض میں 300ارب کا اضافہ ہوچکا ہے۔ 2008-13ء کے دوران پبلک قرض 21.5فیصد کی شرح سے بڑھا جبکہ 2000-07ء کے دوران صرف 6.6فیصد کی شرح سے بڑھا تھا۔ ن لیگ کی حکومت سابقہ حکومت کی ناکامی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں اور اس میں امراء پر ٹیکس عائد کرنے کے لیے درکار سیاسی عزم کا بھی فقدان ہے ۔قرض کی خدمت پر خطیررقم خرچ ہورہی ہے جس کی وجہ سے پچھلے سال مالیاتی خسارہ 8.8فیصد ہوگیا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر جولائی 2011ء میں 14.76ارب ڈالرتھے جو گھٹ کر جولائی 2013ء میں 5.153ارب ڈالر رہ گئے ہیں ۔اس سے صورت حال ابتر ہوگئی جس کی وجہ سے IMFسے EFFکے تحت 6.6ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنا پڑا۔ IMFاور دیگر عالمی اداروں کے قرض کی خدمت اور جاری ادائیگیوں کے خسارے کے رخنے پورے کرنے کے لیے 2013-14ء میں 13ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی جبکہ اس سال IMFکی طرف سے صرف 2ارب ڈالر قرض کی قسط ملے گی۔ ملکی قرضوں کی صورت حال بھی پریشان کن ہے ۔حکومت نے 2012-13میں ملکی بینکاری نظام سے ایک ٹریلین روپے سے زیادہ قرض لیا۔ یہ حکومت دومہینوں میں 600ارب سے زیادہ کا قرض لے چکی ہے کمرشل بینکوں سے بھاری قرض لینے سے نہ صرف معاشی ترقی کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کو سرمایہ کاری کے لیے بھی فنڈز دستیاب نہیں ہوتے۔ اس معاشی بحران سے نکلنے کے لیے معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے ،روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے، ٹیکس ریونیو میں اضافہ، اشرافیہ کی غیرضروری مراعات کا خاتمہ اور نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔ لیکن حکومت مراعات یافتہ افراد سے ان کی استعداد کے مطابق ٹیکس نافذ کرکے وسائل میں اضافہ کرنے کی بجائے ملکی اور غیرملکی قرضوں پر زیادہ انحصار کررہی ہے۔ اس وقت پبلک قرض جی ڈی پی کا 67فیصد ہوچکا ہے جبکہ 2010کے ایکٹ کے تحت قرض کی زیادہ سے زیادہ حد جی ڈی پی کی 60فیصد مقرر کی گئی ہے لیکن حکومت اس کو قانونی حدود کے اندر لانے کے لیے کچھ بھی نہیں کررہی۔ مزید یہ کہ حکومت مالیاتی ڈسپلن کا مظاہرہ کرنے سے بھی عاری ہے اور حکومتی کنٹرول میں چلنے والے کرپٹ اور نااہل اداروں کے نقصانات پورا کرنے کے لیے بھاری قرض لے رہی ہے۔ SBPکی رپورٹ کے مطابق ان اداروں کی وجہ سے پبلک قرض میں 600ارب روپے کے قرض کا اضافہ ہوچکا ہے ۔جب تک ہم اپنی استعداد کے مطابق ٹیکس اکٹھا نہیں کرتے قرض کے چنگل سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے ۔ملک میں 3.3ملین افراد کے پاس ٹیکس نمبر نہیں لیکن ٹیکس ریٹرن صرف ایک لاکھ سے بھی کم افراد فائل کرتے ہیں ۔کاروباری اداروں اور افراد کی بڑی تعداد جو پہلے ٹیکس ریٹرن فائل کیا کرتے تھے اب وہ اپنے اثاثوں اور آمدنیوں کو چھپا کر یا گھٹا کر بیان کرتے ہیں اور ٹیکس ادا کرنے سے پہلوتہی کرتے ہیں کیونکہ وہ ن لیگ کے عہدیدارہیں یا پارٹی کو فنڈز مہیا کرتے ہیں ۔FBRبڑے پیمانے پر ہونے والی ٹیکس چوری کا اعتراف کرتا ہے لیکن آج تک کسی بھی عہدیدار کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا۔ FBRکے کرتا دھرتا اور اسمبلیوں میں براجمان ٹیکس چور ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔بھاری بھر کم حکومتی مشینری اور نقصان میں چلنے والے نااہل اداروں پر اُٹھنے والے اخراجات کا ضیاع روکنے کے لیے درکار سیاسی عزم کا فقدان ہے۔ حکومت کی موجودہ پالیسیاں اگر جاری رہتی ہیں تو 2015 ء تک بیرونی قرض 75ارب ڈالر اور ملکی قرض 23ٹریلین سے بھی تجاوز کرسکتا ہے۔ ٹیکس چوروں، منی لانڈروں اور قومی دولت کی لوٹ مار میں ملوث افراد کی سرگرمیوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اور ریاستی اشرافیہ کی اجارہ داری نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جبکہ اشرافیہ اپنی سکیورٹی اور آرام وآسائش پر اربوں روپے ضائع کردیتے ہیں ۔اقتدار کے بھوکے لالچی سیاستدان اورکرپٹ اور نااہل بیوروکریسی پاکستان کے موجودہ بحران کے ذمہ دارہے ۔ محلوں میں رہنے والے اور ایئرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھنے والے غریب عوام کی مشکلات کا اندازہ نہیں کرسکتے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں