غریب دوست معاشی حکمت عملی

پاکستان کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ معیشت جمود کا شکار ہے۔ مالیاتی خسارہ 8.8فیصد ہوچکا ہے۔ بیرونی ادائیگیوں کے خسارے بڑھتے جارہے ہیں۔ قرض کا منحوس چکرآسیب کی طرح ہمارا پیچھا کررہا ہے۔ ٹیکس جی ڈی پی تناسب پست ترین سطح یعنی 9فیصد سے کم ہوچکا ہے۔ روپے کی قدرتیزی سے کم ہورہی ہے ۔معاشی ترقی کی شرح نموگرکر3فیصد کے قریب آچکی ہے۔ آبادی میں بلند شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ غذائی اشیا اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ان میں متواتر اضافہ ہوتاجارہا ہے اور یہ عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دستیاب ملازمتوں میں کمی ہورہی ہے، جس کے باعث بیروز گاری میں اضافہ ہورہا ہے ۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔غربت اور آمدنی کی تقسیم میں پائی جانے والی ناہمواری کے لحاظ موجودہ دور ملکی تاریخ کا بدترین دور ہے۔ گرانی اور غربت کی بڑھتی ہوئی یلغار کی وجہ سے عوام کی معاشی مشکلات ناقابل برداشت ہوچکی ہیں۔ اس سے عوام میں غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ اس باعث کچھ افراد انتہا پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ ان حالات میں اگر غربت اور ناہمواریاں کم کرنے کے لیے غریب دوست حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی تو عوام میں پائی جانے والی بے چینی بڑھتی رہے گی اور کسی وقت قابو سے باہر ہوجائے گی ۔ عوام نے موجودہ حکومت کو دہشتگردی وتوانائی کے بحران کے حل، معیشت کی بحالی اور غربا کی معاشی مشکلات کم کرنے کا مینڈیٹ دیاتھا۔ لیکن گزشتہ چار ماہ کے دوران عوام کی معاشی مشکلات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔اس وقت عوام کو مہنگائی نے سب سے زیادہ خوف زدہ کررکھا ہے۔ عوام کے لیے دووقت کی روٹی کے وسائل پیدا کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ ان حالات میں حکمران بلٹ ٹرین ،علاقائی کمرشل کوریڈورز اور دوسرے بڑے بڑے منصوبوں کی نوید دے رہے ہیں لیکن ابھی تک ایسی کوئی دستاویز سامنے نہیں آئی جس میں سیاسی نعروں کو ٹھوس حکمت عملی کی شکل میں پیش کیا گیا ہو ، عوام کی معاشی مشکلات کم کرنے کے لیے کسی منصوبے پر کام شروع ہوا ہوحالانکہ پاکستان کے پست سماجی مظاہر،علاقائی اور طبقاتی ناہمواریوں اور تنائو کے تناظر میں ضروری ہے کہ دولت کی تقسیم میں پائی جانے والی ناہمواریوں میں خاطر خواہ کمی لانے کو اولین ترجیح دی جائے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ عظیم الشان منصوبوں اور معاشی ترقی سے ہمیشہ غربت اور دولت کی ناہمواریاں ختم نہیں ہوتیںبلکہ اکثر اوقات ان سے غربت اور دولت کی تقسیم میں پائی جانے والی ناہمواریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان نے بلند شرح سے معاشی ترقی کی لیکن اس عرصے میں غربت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا اور معروف 22خاندان وجود میں آئے جو ملکی وسائل پر قابض ہوگئے۔ ملک کے دونوں حصوں میں ناہمواری کی خلیج اتنی بڑھ گئی کہ اس کے نتیجہ میں ملک دولخت ہوگیا۔ 1970ء کی دہائی میں معاشی ترقی کی شرح نسبتاً کم رہی لیکن 1978ء تک غربت کی شرح کا46فیصد سے کم ہوکر 30فیصد رہ گئی تھی، غربت میں اتنی بڑی کمی کی وجہ حکومت کی غریب دوست معاشی پالیسیاں اور خلیجی ممالک میں پاکستانی ورکرز کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونا تھا۔ اب اکثر معیشت دان غریب دوست پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ پروفیسر Dudleyseers کا خیال ہے کہ اگر کسی ملک میں غربت وافلاس،بیروزگاری اور آمدنی کی تقسیم میں پائی جانے والی عدم مساوات میں کمی آرہی ہو تو وہ ملک معاشی لحاظ سے ترقی کررہا ہوگا۔ اگر ان تینوں میں سے کوئی ایک یا دومسئلے پہلے سے سنگین ہوتے جائیں تو ملک کی فی کس آمدنی دوگنا ہونے کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملک معاشی ترقی کررہا ہے ۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ غریب دوست ترقی کا محور فقط غربت میں کمی ہونا چاہیے۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ غربت میں کمی کے علاوہ ناہمواریوں کو دور کرنا بھی معاشی ترقی کا مقصد ہونا چاہیے۔ ایسی غریب دوست پالیسیاں اختیار کرنی چاہیں جن سے امرا کو بھی کچھ فائدہ ہو۔ تاہم غربا کو زیادہ فائدہ ہو۔ پاکستان کی آبادی تقریباً 20کروڑ ہے۔ لیکن ہماری ملکی مارکیٹ مقابلتاً چھوٹی ہے کیونکہ اکثریت غریب ہے ، جن کی قوت خرید بہت پست ہے۔ غربا کی آمدنیوں میں اضافہ کرکے قومی مارکیٹ کا حجم بڑھایا جاسکتا ہے۔ جس سے صنعتکاروں اور کاروباری افراد کو فائدہ ہوگا اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بھی بہتری پیدا ہوگی۔ غربت اور ناہمواریاں دور کرنا فلاحی مقصد ہونے کے علاوہ معاشی ترقی کا بھی انجن ثابت ہوگا۔ پاکستان میں غربا کے تین بڑے طبقے ہیں (i)دیہات میں بسنے والے بے زمین افراد اور بہت چھوٹے قطعات اراضی کے مالک کاشتکار ۔ (ii)مزدور پیشہ افراد (iii)کم مایہ کاروباری افراد (Petty Enterpreneurs)اور ہاکر وغیرہ۔ ان سب کے معاشی مسائل کے حل کے لیے کثیر جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلی دیہی بے زمین اور چھوٹے قطعات اراضی کے کاشتکاروں کی ملکیت میں اضافہ اور اثاثوں تک رسائی کی کوشش کرنی چاہیے اس مقصد کے لیے لینڈ ریفارمز ہونی چاہئیں جن کے ذریعے زرعی اراضی کی ملکیت کی زیادہ سے زیادہ حد 50ایکڑ فی کس مقرر کردینی چاہیے۔ اس سے زائد زمین جاگیرداروں سے لے کر بے زمین اور چھوٹے قطعات کے مالک کاشتکاروں میں تقسیم کردینی چاہیے۔ کم مایہ کاروباری افراد کے اثاثوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی اور نفع بخش مارکیٹ لوکیشنز تک رسائی انتہائی اہم ہے۔ غربا کے لیے قرض کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر کبھی قرض لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں بہت بلند شرح سود ادا کرنا پڑتا ہے ان کے لیے قرض کی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہیے ۔ مائیکروکریڈٹ نیٹ ورک کو وسیع کرنے کے علاوہ دیگر کمرشل اورنان کمرشل اداروں کے ذریعے ان کے لیے زیادہ سے زیادہ کریڈٹ فراہم کرنے کے انتظامات کیے جائیں ۔غربا کے لیے پیداوار بڑھانے کے نئے طریقوں اور ٹیکنالوجی تک رسائی کے انتظامات کیے جائیں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے تاکہ جاگیردار صنعتکار غربا کے معاشی حقوق سلب نہ کرسکیں ۔ غربا کے لیے معیاری تعلیم، صحت اوردیگر سماجی خدمات کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے۔اس سے ان کی مہارتوں میں اضافہ ہوگا اور ان کی پیداواری استعداد بڑھے گی، جس سے ان کی آمدنیوں میں اضافہ ہوگا ۔حکومت اور غیرحکومتی ادارے ایسے کمیونٹی سنٹرز قائم کریں جن کے ذریعے غربا کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ۔ان اقدامات سے غریبوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے غذائی اشیا ملبوسات اوردیگر ضروریات زندگی کی طلب میں اضافہ ہوگا جس سے مارکیٹ کا حجم بڑھے گا۔ صنعتکاروں اور کاروباری افراد کے لیے نفع کمانے اور ورکرز کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ حکومت بی آئی ایس پی کے فنڈز بھی مندرجہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرسکتی ہے ۔اگرچہ غریبوں کو رقم کی منتقلی دینے سے ان کے صرف میں اضافہ ہوتا ہے اور اشیاء خدمات کی طلب بڑھتی ہے تاہم اسی رقم کو غربا کی مہارتوں اور اثاثوں میں اضافے ،کریڈٹ کی فراہمی اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کرنے اور ان کی آمدنی کمانے کی استعداد میں اضافہ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مندرجہ بالا تجاویز پر عملدرآمد کے لیے ایگریکلچر پراپرٹی اور ویلتھ ٹیکس سے ٹیکس ریونیو میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ان اقدامات سے جاگیرداروں کے مفادات پر سب سے زیادہ زدپڑے گی کیونکہ وہ اپنی اراضی اور سیاسی اثرورسوخ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اگرچہ صنعتکاروں کو بھی زیادہ ٹیکس دینے پڑسکتے ہیں لیکن ان کے کاروبار میں توسیع ہوسکتی ہے۔ جاگیرداروں کے مفادات کو زک پہنچانا آسان ہے یا ممکن ہے لیکن صنعتکاروں کو نقصان پہنچا کر معیشت میں استحکام پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ غربت اور ناہمواری کم کرنے کی ایسی حکمت عملی ہی کامیاب ہوسکتی ہے جس سے لینڈ لارڈز کے مفادات پر توزد پڑے لیکن غربا اور صنعتکاروں کو فائدہ ہو۔ لیکن ایسی حکمت عملی جس سے کاروباری افراد کو فائدہ ہواور غرباکی حالت زار میں کوئی سدھار نہ آئے، اس سے معاشرے میں موجود بے چینی کی لہر میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں