پاکستان کو قائم ہوئے 66 سال کا عرصہ ہو چکا ہے اس عرصے میں متعدد حکومتیں اقتدار میں آئیں اور رخصت ہوتی گئیں لیکن 2008ء میں اقتدار میں آنے والی حکومت کے علاوہ کوئی بھی سیاسی حکومت اپنی میعاد پوری نہ کر سکی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان باہم دست و گریبان رہے۔ سول حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اسٹیبلشمنٹ کے کل پرزے اور حکومت مخالف سیاستدان سازشوں میں مصروف ہو جاتے اور سول حکومت کے اہم افراد کی مبینہ کرپشن، نااہلی اور بداعمالیوں کے الزامات کی خوب تشہیر کی جاتی تاکہ سیاستدانوں کو بدنام کیا جا سکے اور فوج کی مداخلت کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اس طرح حکومت اپنی بقا کی کوششوں میں الجھ کر رہ جاتی۔ ملک اور عوام کے مسائل پس پشت ڈال دیئے جاتے۔ عوام حکومتی اکابرین کے بارے میں اصلی اور فرضی کرپشن، اقربا پروری اور نااہلی کے قصے سن سن کر بدگمان اور فوجی مداخلت کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتے۔ فوجی حکومتیں دس دس سال تک برسراقتدار رہیں۔ وہ بھی ملک اور قوم کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی حکومت کو دوام بخشنے کی کوششوں میں مصروف رہے جبکہ مسائل بڑھتے رہے۔ اس سلسلے میں سیاستدان بھی برابر کے شریک یا ذمہ دارہیں‘ کیونکہ انہوں نے بھی اپنے دور حکومت میں اداروں کی تشکیل اور ان کی نشوونما کو نظرانداز کیا اور شخصیت پرستی کو اپنی سیاست کا محور بنائے رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومت کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام حکومتیں ملک اور عوام کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ عوام کے معاشی اور سماجی مسائل سنگین سے سنگین تر ہو چکے ہیں۔ امن و امان کی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔ جرائم کا دائرہ کار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ہر کوئی خود کو غیرمحفوظ سمجھتا ہے۔ کرپشن عام ہے۔ عوام اسے زندگی کا معمول سمجھ کر قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ تعلیم کا معیار گر کر پست ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ تعلیم، صحت اور دیگر شہری سہولتیں بہت مہنگی اور عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ عوام حکومتی اداروں سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ تمام سیاسی اور فوجی حکومتیں بلندبانگ دعوے کرتی ہیں لیکن ان پر کسی کو یقین نہیں‘ کیونکہ عوام کے دیرینہ مسائل حل نہیں ہو رہے۔ ہر حکومت اپنی پیش رو کو مورد الزام ٹھہراتی ہے لیکن ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لیے خود کچھ بھی نہیں کرتی۔ موجودہ حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ بہت سے مسائل اسے ورثے میں ملے ہیں اور یہ کہ سابق حکومت کی بدانتظامی سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پانے کے بعد ہی عوام کو نئی زندگی کی نوید دی جا سکتی ہے۔ عوام جمہوری حکومت سے کیا توقع رکھتے ہیں اور عام آدمی کے لیے جمہوریت کا کیا مطلب ہے‘ حکومت وقت اور جمہوری قوتوں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ جمہوریت کی معروف تعریف یوں بیان کی جاتی ہے کہ It is a Government of the people by the people for the people سابق حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ انہوں نے ہمیشہ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ اور عوام کے مسائل سے پہلوتہی کی۔ یہی کچھ آج ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا۔ تیل، بجلی اور دیگر یوٹیلٹیز کی قیمتوں میں اضافہ کرکے مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس امرا کو اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹوں اور رعایتوں سے نوازا گیا ہے۔ جمہوری حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کا آغاز کرے اور ان کی مشکلات کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات عمل میں لائے۔ اس سے عوام میں اعتماد پیدا ہو گا کہ حکومت ان کے مسائل حل کرنے کی سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں کر رہی ہے۔ اس سے دیرپا سیاسی حکمرانی کی راہ ہموار ہو سکے گی۔ عوام کے اکثر مسائل کا تعلق غذائی اشیا کی مناسب داموں پر دستیابی‘ معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتوں‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ بجلی‘ گیس اور نکاسی آب وغیرہ کی سہولتوں سے ہے۔ ان سہولتوں کی فراہمی مشکل نہیں‘ صرف ترجیحات میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ حکومت نے کبھی ان سہولتوں کی فراہمی کے لیے مطلوبہ فنڈز مہیا نہیں کیے۔ جمہوریت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حکمران اپنے بیرونی دوروں میں پوش ہوٹلوں میں قیام کریں اور کروڑوں روپے ضائع کر دیں۔ جو قوم معاشی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہو‘ اس کے حکومتی اکابرین کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے اور ذاتی مثال سے ثابت کرنا چاہیے کہ وہ سادگی اور کفایت شعاری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور قومی دولت کا ایک ایک پیسہ نہایت احتیاط اور دیانتداری سے خرچ کر رہے ہیں تاکہ عوام کو شہری سہولتیں فراہم کرنے پر زیادہ خرچ کیا جا سکے۔ اگر عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے زیادہ رقوم مختص کی جائیں گی تو عوام کے غم و غصے میں کمی آئے گی۔ حکومت مرکزی اور صوبائی وی آئی پیز کی سکیورٹی پر بے تحاشا اخراجات کر رہی ہے۔ کیا عوام کی حکومت عوام سے اتنی خوفزدہ ہے کہ ان کی نقل و حرکت کے دوران شہر کی سڑکیں کئی کئی گھنٹے بند کر دی جاتی ہیں اور ٹریفک روکنا پڑتی ہے؟ سکیورٹی کے یہ انتظامات عوام میں احساس کمتری کو جنم دیتے ہیں۔ جمہوری قوتوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ عوام کو جب سڑکوں پر رکنا پڑتا ہے تو ان کے معمولات میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ وقت کا ضیاع اور ملک کا معاشی نقصان ہوتا ہے۔ حکومت کو سرکاری کنٹرول میں چلنے والے اداروں میں پائی جانے والی کرپشن اور بدانتظامی کا نوٹس لینا چاہیے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں ان اداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی اور قومی اثاثوں کا تحفظ ممکن ہو گا۔ اس طرح ان اداروں کے نقصانات پورے کرنے پر جو 500 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں وہ بچ جائیں گے اور عوام کو سہولتیں پہنچانے پر خرچ کیے جا سکیں گے۔ پاکستان میں بے روزگاری کا مسئلہ انتہائی شدید ہے جس نے تعلیم یافتہ طبقے کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔ اعلیٰ تربیت یافتہ اور ماہر افراد روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں اشرافیہ کی صوابدید پر ہو رہی ہیں۔ میرٹ پر بھرتی کی پالیسی بڑی دیر سے متر وک ہو چکی ہے۔ بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے انسانی وسائل کا قومی پول (Pool) قائم کرنا چاہیے۔ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار افراد کو میرٹ پر ملازمتیں دینے کے لیے اس پول کا استعمال کرنا چاہیے۔ جمہوریت کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کے کنٹرول میں چلنے والے اداروں یا بیرون ملک اسامیوں پر ریٹائرڈ سول یا فوجی افسران کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جائے۔ یہ ایک معمول کی کارروائی بن چکی ہے کہ نفع بخش ملازمتیں ان ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کو دی جائیں جو ماضی میں حکمران اشرافیہ سے تعاون کرتے رہے ہوں۔ اس پریکٹس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس تبدیلی سے ہماری نوجوان نسل میں اپنے مستقبل کے بارے میں امید پیدا ہو گی۔ جمہوریت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ عوام کو بلاروک ٹوک انصاف فراہم کیا جائے۔ جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے آزاد عدلیہ بہت ضروری ہے۔ نچلی سطح کی عدالتوں (جن سے عوام کو واسطہ پڑتا ہے) میں بالخصوص اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ مقدمات کے فیصلے غیرضروری التوا کے بغیر ہو سکیں اور ان پر سائلین کے اخراجات بھی کم ہوں۔ اس سے عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد بحال ہو گا اور جمہوری ادارے بھی مضبوط ہوں گے۔ معاشی مشکلات میں ناقابلِ برداشت حد تک اضافے کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ ایسا نہ ہوا تو عوام کی بے چینی اتنی بڑھ سکتی ہے کہ وہ سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔