آئی ایم ایف‘ اشرافیہ اور عوام

گزشتہ پانچ برسوں میں معاشی ترقی کی اوسط شرح نمو 3فیصد رہی۔ فی کس آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کے برابر رہا۔ افراطِ زر کی اوسط شرح 12فیصد رہی ۔ بے روزگاری 8فیصد سے تجاوز کر گئی۔ درآمدات بڑھتی رہیں اور مالیاتی بدانتظامی عروج پر پہنچ گئی۔ ایف بی آر معیشت کی استعداد کے مطابق ٹیکس جمع کرنے میں ناکام رہا اور حکومتی اخراجات میں اضافہ ہوتا رہا‘ نتیجتاً مالیاتی خسارہ بڑھتا رہا اور 2012-13ء میں جی ڈی پی کا 8.8فیصد ہو گیا۔ یہی مالیاتی خسارہ ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے‘ مختلف حکومتیں مالیاتی خسارے پر قابو پانے میں ناکام رہیں‘ جس کی وجہ سے ہماری معاشی بقا خطرے سے دوچار ہو چکی ہے۔ بیرونی ادائیگیوں کے توازن کی صورت حال دگرگوں ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے روپے کی قدر دبائومیں آ چکی ہے۔ روپے کی قدر میں مزید کمی کو روکنے کے لئے سٹیٹ بنک آف پاکستان نے 2012-13ء میں 3.5ارب ڈالر ایف ایکس مارکیٹ میں جھونکے‘ تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کی وجہ سے حکومت نے آئی ایم ایف سے 6.7ارب ڈالر کا قرض حاصل کیا۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے کئی بار قرض لیا لیکن معاہدے کے مطابق طے کی گئی شرائط پر مکمل عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے دو تین قسطوں کی ادائیگی کے بعد بقیہ اقساط کی ادائیگی روک دی گئی۔ اس دفعہ آئی ایم ایف نے قرض کی قسطوں کا اجرا پیشگی اقدامات سے مشروط کر دیا ہے۔ عالمی ادارہ ہر تین ماہ بعد معاہدے میں دی گئی شرائط پر عملدرآمد کا جائزہ لے گا اور حکومتی کارکردگی سے مطمئن ہونے کی صورت میں اگلی قسط جاری کرے گا۔ اکثر تجزیہ کاروں نے آئی ایم ایف کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن ہمیں اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کے لئے دوسروں پر الزام تراشی سے گریز کرنا چاہئے۔ ہم اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے قرض کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس دفعہ جن شرائط سے اتفاق کیا گیا ان کا مرکزی ہدف صرف معاشی استحکام اور معاشی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔ سب سے اہم شرط مالیاتی خسارے میں کمی کرنا ہے۔ 2012-13ء میں مالیاتی خسارہ جو 8.8فیصد رہا‘ 2013-14ء میں کم کر کے جی ڈی پی کے 5.8فیصد تک یعنی 1463ارب روپے تک محدود کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ایف بی آر اس سال ٹیکس ریونیو کا ہدف یعنی 2475ارب روپے جمع کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں 480ارب روپے جمع ہوئے جبکہ ہدف 509ارب روپے تھا۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اس سال ریونیو کے مذکورہ ہدف کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ اس سال مالیاتی خسارہ 1950ارب روپے یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے تمام معاشی مسائل کی وجہ یہ ہے کہ ہم کئی دہائیوں سے اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتے رہے جبکہ امراء اور طاقتور طبقوں سے ان کی استعداد کے مطابق ٹیکس حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جو تھوڑا بہت ٹیکس جمع کیا جاتا ہے وہ اشرافیہ کو سہولتیں بہم پہنچانے اور ان کے مفادات کے تحفظ پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ بیشتر صورتوں میں طاقتور طبقوں اور سیاستدانوں کی سہولت کے لئے گالف کلب‘ عالیشان بنگلے‘ گیسٹ ہائوسز‘ لگژری کاریں‘ گھریلو ملازمین‘ خانسامے‘ چوکیدار مالی وغیرہ اور نہ جانے کیا کیا ہے،جن پر قومی خزانے سے فنڈز خرچ کئے جاتے ہیں۔ جی او آرز کی سکیورٹی پر بھی کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ کنٹونمنٹ میں واقع گالف کلبوں ،گیسٹ ہائوسز، شادی گھروں، بیکریوں اور کمرشل مارکیٹوں پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا حالانکہ ان کا کارسرکار سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن بہانہ یہ ہے کہ یہ حکومتی املاک ہیں۔ غریب بھوکوں مر رہے ہیں‘ ان کے بچے ناکافی غذا کا شکار ہیں لیکن ہماری اشرافیہ اپنے آپ کو بدلنے کے لئے تیار نہیں۔ امرا پر براہ راست ٹیکس نافذ کرنے کے بجائے غربا ء پر دھڑا دھڑ بالواسطہ ٹیکس عائد کر دیے جاتے ہیں جن کے بوجھ تلے عوام پستے جا رہے ہیں اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ ان کی تعداد 100ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ٹیکس منصفانہ بنیاد پر نافذ کئے جائیں‘ پروگریسو انکم ٹیکس کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔ ہر قسم کی آمدنی بشمول زرعی آمدنی کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانا چاہیے اور کسی کے لئے بھی ٹیکسوں میں چھوٹ یا رعایت نہیں دی جانی چاہیے۔ سرکاری اہلکاروں کو جو گھر، گاڑی اور نوکر وغیرہ کی سہولتیں دی جاتی ہیں‘ ان پر خرچ آنے والی رقم ان کی تنخواہ میں شامل کر کے کل آمدنی پر ٹیکس لگنا چاہیے۔ جب تک حکومت مراعات یافتہ طبقات اور طاقتور کاروباری افراد کو ٹیکس میں چھوٹیں اور دیگر رعایتیں دینا بند نہیں کر دیتی بجٹ خسارے پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایس آر اوز جاری نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے‘ اس کے باوجود حکومت نے 4اکتوبر کو ایس آر اوز جاری کیا جس کی رو سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ جب تک غیر ترقیاتی اخراجات میں قابل ذکر کمی اور ٹیکس چھوٹیں اور رعایتیں ختم کر کے بجٹ خسارے پر قابو نہیں پایا جاتا ہم قرض کی دلدل سے نہیں نکل سکیں گے۔ اس وقت تقریباً 70فیصد ٹیکس ریونیو درآمدی‘ برآمدی ڈیوٹیوں‘ کنٹریکٹس اور پٹرولیم کمپنیوں اور بنکوں کے غیر معمولی منافع جات سے حاصل ہوتا ہے۔ درآمد کنندگان‘ کنٹریکٹرز‘ پرچون فروش اور خدمات مہیا کرنے والے ادارے اور افراد ٹیکس کا بوجھ صارفین کو منتقل کر دیتے ہیں۔ یہ سراسر مالیاتی بربریت ہے۔ ایف بی آر غیر منصفانہ ودہولڈنگ ٹیکسز ‘غیر معقول پالیسیاں اور دوسرے غیر منصفانہ حربے آزمانے کے باوجود ٹیکس اور جی ڈی پی کے تناسب میں بہتری نہیں لاسکا۔ ظالمانہ اور ایڈہاک اقدامات کے باوجود مالیاتی خسارے پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے دیرینہ مسائل کو چند ماہ میں حل نہیں کر سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمران‘ طاقتور سول بیورو کریسی کے سامنے بے بس ہو چکی ہے۔ کئی سیاستدان اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہوتی ہے اور وہ بھی اس کے ذمے دار ہیں۔ ٹیکس بیورو کریٹس اور سیاستدانوں میں ایک قسم کا غیر مقدس گٹھ جوڑ ہے۔ ٹیکس افسران 2001ء کے انکم ٹیکس آرڈی ننس میں پائے جانے والے سقم کے ذریعے اپنے سیاسی آقائوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کی مدد کرتے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت مالیاتی خسارے پر قابو پانے میں سنجیدہ ہے تو اسے ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت اور ایسی دولت جس پر ٹیکس نہ دیا گیا ہو‘ ضبط کرنے کا قانون پاس کرنا چاہئے۔ اگر ایسا قانون پارلیمنٹ سے منظور کروا لیا جاتا ہے تو وسائل میں اضافہ کرنا اور ٹیکس قوانین کی پابندی کروانا مشکل کام نہیں ہو گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں