حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6.68 ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے کے لئے معاہدہ کیا ہے جس کی شرائط پہلے تمام پروگراموں کے مقابلے میں بہت سخت ہیں۔ چند ایک پیشگی اقدامات، کارکردگی کے معیار اور سٹرکچرل بنچ مارکس پر عملدرآمد نہایت دشوار ہو گا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر گر کر 3.9 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے پروگرام سے جتنا قرض ہمیں ملے گا‘ اس سے زیادہ رقم ہم اسے ادا کریں گے۔ اکثر تجزیہ کاروں نے آئی ایم ایف کی شرائط کو تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ اس پروگرام کا واحد ہدف سٹیبلائزیشن ہے۔ معاشی ترقی کا حصول اور روزگار کے لئے مواقع پیدا کرنا اس پروگرام کے مقاصد میں شامل نہیں۔ یہ پروگرام 1980ء کی دہائی کے سیٹبلائزیشن پیکیج کی بگڑی ہوئی شکل ہے‘ جو اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ عالمی سطح پر اس پروگرام کو ترک کیا جا رہا ہے لیکن یہاں یہ اب تک جاری ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ مالیاتی خسارہ 8.8 فیصد ہو چکا ہے۔ سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.3 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ افراط زر اکتوبر کے مہینے میں 9 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے اور اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ملکی قرض 10.5 ٹریلین روپے اور بیرونی قرض 60 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے مالیاتی اقدامات اور سخت زری پالیسی کے ذریعے سٹیبلائزیشن یا معاشی استحکام حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی معاشی ترقی کی راہ ہموار کی جا سکے گی۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پچھلے چھ برسوں میں پاکستان کی معاشی ترقی کی اوسط شرح نمو 3 فیصد رہی اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے دوران بھی 3 فیصد ہی رہنے کا امکان ہے۔ پاکستان کی آبادی 2.2 سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے لہٰذا فی کس خالص آمدنی جمود کا شکار رہے گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگلے پانچ سالوں میں تقریباً 5 ملین افراد بے روزگار پول میں شامل ہو جائیں گے۔ یہ لوگ غیررسمی سیکٹر میں کم اجرتوں والی ملازمتیںحاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس سیکٹر میں بھی اتنے لوگ کھپانے کی گنجائش نہیں۔ اسی وجہ سے ملک کے اکثر شہروں میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس پس منظر میں سٹیبلائزیشن کے حصول کے لئے حکومت جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے‘ ان سے عوام کی معاشی مشکلات میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ایسی پالیسیاں وضع کی جا سکتی ہیں جن کے ذریعے سٹیبلائزیشن کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی اور روزگاری کے نئے مواقع پیدا کرنے کے مقاصد بھی حاصل کئے جا سکتے ہوں کیونکہ عالمی معیشت کے حالات سازگار ہیں۔ یورپی ممالک کی معیشت میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ اور جاپان میں بھی بے روزگاری کی شرح کم ہو رہی ہے اور ان کی معیشتیں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ ملک میں مئی کے الیکشن کے بعد پرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ طے پا چکا اور کاروبار دوست حکومت اقتدار میں ہے۔ اس کے نتیجے میں کاروباری افراد کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس پیش رفت کے باوجود غیریقینی صورتحال جاری ہے کیونکہ حکومت میں مشکل اور غیرمقبول فیصلے لینے کے لئے درکار سیاسی عزم کا فقدان ہے۔ بجٹ کے موقع پر معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے کے لئے جو اقدامات کئے گئے تھے‘ ایف بی آر نے واپس لے لئے ہیں۔ حکومت نے ایس آر او ایس جاری نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن 4 اکتوبر کو ایس آر او ایس جاری کیا گیا‘ جس کے ذریعے کاروباری افراد کو 156 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹیں اور رعایتیں دی گئیں۔ ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کے سلسلے میں بھی کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ بدستور بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت طاقتور مفاد پرست طبقات کا دبائو برداشت نہیں کر سکتی۔ وزراء میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ سول سروس سٹرکچر‘ انسانی وسائل اور ان سے متعلق پالیسی اور عملدرآمد میں پائے جانے والے خلا کو بھرنے کے لیے سول سروس اور انسانی وسائل کے استعمال کے بارے میں جن اصلاحات کی ضرورت ہے وہ نہیں کی جا رہیں۔ اگر حکومت اپنے بنیادی فرائض سے چشم پوشی کر کے ایسی سرگرمیوں پر فوکس کرنے لگے جن میں نہ تو وہ اہلیت رکھتی ہو اور نہ ہی اسے تقابلی برتری حاصل ہو تو اس سے پرائیویٹ سیکٹر کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ معاشی ترقی میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں خام جی ڈی پی میں 102 فیصد اضافہ ہوا لیکن ٹیکس ریونیو خام جی ڈی پی میں اضافے کی شرح سے نہیں بڑھ سکا۔ اس میں صرف 87 فیصد اضافہ ہوا۔ صوبائی اور مرکزی حکومتیں ٹیکسوں میں اضافہ کے بغیر ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو میں 30 سے 60 فیصد تک اضافہ کر سکتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے ٹیکس قوانین کا موثر نفاذ‘ بہتر عملداری’ اثاثوں کی مالیت کے نئے سرے سے تعین اور ٹیکس چوری پر قابو پا کر فاضل ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ کا نان ٹیکس ریونیو 822 ارب روپے ہے جو ڈیویڈنڈ منافع جات اور سود کی مدوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ڈیویڈنڈ اور منافع دینے والے اداروں کے بہتر نظم و نسق اور حکمت عملی سے اس مد میں کم از کم 25 فیصد ریونیو کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح جو فنڈز حاصل ہوں انہیں فوری ترجیح کے حامل بڑے بڑے انفراسٹرکچر کے منصوبوں یعنی انرجی، گیس، ٹرانسپورٹ، آبی ذخائر اور ریلوے وغیرہ پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پرائیویٹ سیکٹر کی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس وقت لوڈشیڈنگ‘ انڈسٹری کی بندش‘ برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں تاخیر، افراط زر کی بلند شرح اور پبلک قرض معاشی ترقی کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ حکومت پبلک سیکٹر میں چلنے والے اداروں کے نقصانات اور یوٹیلٹیز کی سبسڈی پر کثیر رقم خرچ کر رہی ہے۔ پبلک سیکٹر اداروں کے نقصانات پر قابو پا کر اور غیرمخصوص سبسڈیز واپس لے کر جو فنڈز دستیاب ہوں انہیں مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس نادہندہ افراد اور کمپنیوں سے کم از کم 200 ارب روپے ٹیکس وصول کر لیا جائے تو معاشی ترقی کو تحریک دینے کے لئے حکومت کے پاس 400 ارب روپے ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت حکومت نے ہمیشہ غیرترقیاتی اخراجات کی بجائے ترقیاتی اخراجات میں کمی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر برآمدی ریونیو میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور جاری ادائیگیوں کا خسارہ بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لئے گیس مہیا کر کے اور برآمدات کے راستہ کی رکاوٹیں دور کر کے اور مطلوبہ مقدار میں کریڈٹ کی فراہمی سے اگلے دو سالوں میں برآمدات میں 5 سے 10 ارب ڈالر تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں‘ کاشتکاروں اور ایگرو بزنس کے اداروں کو کریڈٹ کی فراہمی میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ ادارے معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو چاہیے کہ ان سیکٹرز کو سستے داموں کریڈٹ کی فراہمی کے لئے نئی سکیموں کا اجرا کرے ۔ بڑے پیمانے کی اکثر صنعتیں پوری گنجائش سے کم پیداوار پر چل رہی ہیں۔ ان کو پوری گنجائش کے مطابق چلانے کے لئے کریڈٹ نسبتاً کم شرح پر مہیا کیا جائے اور آسان قسطوں میں قرض کی واپسی کا انتظام کیا جائے۔ ایسی مالیاتی اور زری پالیسیاں وضع کی جائیں جو کلیاتی معاشی استحکام میں بگاڑ پیدا کئے بغیر معاشی ترقی کو بڑھاوا دیں۔ اس طرح سٹیبلائزیشن کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے مقاصد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔