حکومت نے آئندہ تین برسوں میں حکومتی کنٹرول میں چلنے والے 32اداروں کی نجکاری کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ نقصان میںچلنے والے اداروں کی نج کاری سے مالیاتی خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی اور معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو سکے گی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پرائیویٹائزیشن کا پروگرام سنجیدہ ہوم ورک کے بغیر بنایا گیا ہے اور نج کاری کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ مثال کے طور پرپی آئی اے کو نفع بخش بنانے کے لیے دو ارب ڈالر درکار ہوں گے، کیا متوقع خریداری 26فیصد شیئر خریدنے کے بعد دوارب ڈالر خرچ کرنے کی ذمہ داری لے گا؟ اس کے علاو ہ نئی انتظامیہ پی آئی اے اور سٹیل ملزکے شیئر خریدنے کے بعد بڑے پیمانے پر ڈائون سائزنگ کرنا چاہے گی،لہٰذا ورکرز یونین اور کئی سیاسی پارٹیاں نج کاری کی مخالفت کر رہی ہیں،انہیں مطمئن کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے؟ اس سلسلے میں واضح حکمت عملی نظر نہیں آ رہی۔
پرائیویٹائزیشن کا موجودہ پروگرام 1990ء کی دہائی کی یاد دلاتا ہے جب حکومتی اداروں کی نجکاری کا جمعہ بازار لگایا گیا تھا اور کچھ بنک اور کئی چھوٹے اور درمیانے درجے کے صنعتی یونٹس نجی شعبے کے سپرد کیے گئے تھے۔ اس دفعہ میگا صنعتی یونٹس اور شعبہ خدمات کے بڑے بڑے اداروں کی نج کاری کی جا رہی ہے اور پی آئی اے اور سٹیل ملز کے نقصانات کا ہی ذکر کیا جارہا ہے، لیکن
پی ایس او اوراو جی ڈی سی(جو بھاری منافع پر چل رہے ہیں) کا نام نہیں لیا جاتا۔ شاید یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت صرف نقصان میں چلنے والے اداروں کی نج کاری کرنے جا رہی ہے اور ان سے جتنی جلدی اور جس قیمت پر بھی ممکن ہو چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیے ۔پاکستان میں نج کاری کے بارے میں کبھی بھی کھلی بحث نہیں ہوئی...پارلیمنٹ میں نہ کسی دوسرے فورم پر۔نج کاری کے لیے مختلف جواز پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ 1989-90ء میں نج کاری پالیسی وضع کرنے کے لیے ایک عالمی شہرت کے حامل فنانشل ایڈوائزر سے سٹڈی کرائی گئی تھی اور اس کی روشنی میں ایک حکومتی ادارے کے تھوڑے سے شیئرزسٹاک مارکیٹ کے ذریعے فروخت کیے گئے تھے، لیکن بعد میں ان سفارشات کو نظر انداز کر کے بڑے پیمانے پر نج کاری شروع کر دی گئی اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ حکومتی اداروں کے نقصانات کی وجہ سے مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے اوراس کی آڑ میں نفع میں چلنے والے اداروں کی نج کاری بھی کر دی گئی ۔کئی ادارے، ان کی ملکیت میں زمین کے نرخوں سے بھی کم قیمت پر فروخت کر دیے گئے اور اکثر خریداروں نے چند ماہ بعد ان اداروں کو بند کر دیا اور زمین کو ہائوسنگ یا دوسرے کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرلیا، لیکن یہ سب کچھ کرکے بھی بجٹ خساروں میں کوئی کمی نہ آئی۔ در اصل حکومتی اداروں کے نقصانات کو جواز بنا کر سٹرکچرل ریفارم سے چشم پوشی کی گئی تھی۔
نج کاری بورڈ کو خود مختار ہونا چاہیے اور صرف ن لیگ کے ارکان پر مشتمل نہیں ہونا چاہیے،اس کے بغیر شفاف نج کاری ممکن نہیں ہوگی۔ حکومت پر ہرطرف سے زور دیا جا رہا ہے کہ وہ نج کے کا عمل ہر صورت میں شفاف بنائے، لیکن ابھی تک حکومتی کنٹرول میں چلنے والے اداروں کے چیئرپرسن اور ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پروفیشنل ممبران کی تقرری نہیں ہوئی۔ اس سے کئی حلقوں میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔حیرت ہے کہ چھ ماہ گزرنے کے باوجود نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی انتظامیہ تبدیل نہیں کی گئی۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد یہ ادارے منظور نظر افراد کو سستے داموں فروخت کرنا ہے ۔ اکثر سرمایہ دار حکومتی اداروں کی ملکیتی زمین میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جیسے پاکستان سٹیل ملز کراچی جس کی پرائم لوکیشن پر 400کنال اراضی اور حکومت اس کی نج کاری کرنے میں بہت سنجیدہ ہے۔ 2009ء میں سٹیل ملز کی نج کاری کا سودا ہو گیا تھا مگر سپریم کورٹ نے اسے منسوخ کر دیا تھا۔ اس دفعہ سپریم کورٹ نے نج کاری کے خلاف دائر ہونے والی تمام درخواستیں مسترد کر کے اس عمل کی حمایت کر دی ہے اور کہا ہے کہ اس کا کام صرف قانون کی حکمرانی قائم کرنا اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔
1989-90ء میں ڈی نیشنلائزیشن کا آغاز ہوا جس کا مقصد جی ڈی پی میں اضافہ کرنا تھا۔ صحیح معنوں میں نج کاری کے عمل میں تیزی 1991-92ء میں آئی لیکن اس میں شفافیت کے تقاضوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھااور حکومتی ادارے چند منظور نظر افراد کے سپرد کر دیے گئے تھے۔ اس سے امیر اور غریب کے درمیان پائی جانے والی خلیج مزیدوسیع ہو نے لگی ، اس لیے پی پی پی کی حکومت نے 1993-94ء میں اس عمل کو روک دیا ۔ لیکن پرویز مشرف کے دور حکومت میں تقریباً 80فیصد بینکنگ سیکٹر کے ادارے پرائیویٹائز کر دیے گئے،اس کا مقصد معاشی ترقی کی شرح نمو میں اضافہ کرنا بتایا گیا تھا۔نج کاری کے موجودہ پروگرام پر عوام کی گہری نظر ہے اوروہ چاہتے ہیں کہ یہ عمل شفاف ہو اور حکومتی ادارے ماضی کی طرح من پسند افراد کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں نج کاری کا عمل شفاف نہیں رہا۔ حکومتی ادارے چند منظور نظر افراد کو فروخت کر دیے گئے تھے۔ سابق ادوار کی غیر شفافیت اور عدم اعتماد کی فضا میں حکومت اب نقصان میں چلنے والے اداروں کو کیسے پرائیویٹائز کر سکے گی؟
نج کاری کا اصل مقصد پبلک اثاثوں کی کارکردگی میں قابل ذکر بہتری لانا ہونا چاہیے اور اس پالیسی کی پہلی اور لازمی شرط یہی ہونی چاہیے کہ ادارے کو اس کی ملکیتی زمینی جائیداد سے علیحدہ رکھا جائے اور صرف ادارے کی نج کاری کی جائے۔ ادارے کی ملکیتی زمین لیز پر دی جائے اور خریدار کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ زمین کو بیچنے کا مجاز نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی اور مقصد کے لیے استعمال کر سکے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ لینڈ مافیا نیلامی کے عمل میں شامل نہیں ہو گا اور حقیقی کاروباری افراد ہی ان اداروں کو خرید سکیں گے جو ان اداروں کو نفع بخش بنانے کی اہلیت رکھتے ہوں گے۔