مالیاتی پالیسی کا صحیح استعمال اکثر معاشی اورسماجی مسائل کے حل کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔اکثر ماہرین ِمعاشیات نے ٹیکس اور اخراجات کے رہنما اصول وضع کیے ہوئے ہیں،لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے مالیاتی پالیسی کے مقاصد کا بہترین استعمال نہیں کیاجس کاخمیازہ پوری قوم کوبھگتنا پڑ رہا ہے۔مالیاتی خسارے آسیب کی طرح ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔ 2012-13ء میں مالیاتی خسارہ 8.8فیصد ہو گیا تھا،اس سال مالیاتی خسارے کا ہدف 1.3ٹریلین روپے یعنی 6.3فیصد رکھا گیا ہے لیکن اس کاحصول مشکل لگتا ہے کیونکہ اس سال کی پہلی سہ ماہی کا ٹیکس ریونیو ہدف سے 39ارب روپے کم رہا ہے۔ حکومت نے اس سال کے لیے ریونیو کاہدف 2475ارب روپے مقرر کیا ہے جو 2012-13ء کے ٹیکس ریونیو سے 25فیصد زیادہ ہے، لیکن پہلی سہ ماہی میں ٹیکس ریونیومیں صرف 3فیصد اضافہ ہوا۔ ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو سے ہمارے جاری/غیر ترقیاتی اخراجات بھی پورے نہیں ہو رہے اور بجٹ سپورٹ کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ اس جہ سے اندرونی اور بیرونی ذرائع سے قرض پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارا کل قرض 16ٹریلین روپے سے تجاوزکرچکا ہے جو ہماری جی ڈی پی کا 67فیصد بنتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر16ارب ڈالر سے کم ہوکر 3ارب ڈالر کے قریب رہ گئے ہیں۔غربت کی شرح 50فیصد سے تجاوزکر چکی ہے اور 100ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر نے پرمجبور ہیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق بے روزگاری کی شرح 7فیصد کے قریب ہے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق کھلی بے روزگاری اور پوشیدہ بے روزگاری اس سے کہیں زیادہ ہے۔وسائل سے محروم طبقات انسان سے کم تر درجے کی طرح زندگی بسر کرنے رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ معاشی سرگرمیوں کوبری طرح متاثرکر رہی ہے۔ ہمارا ملکی انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکاراور سماجی و معاشی ڈھانچہ انحطاط پذیر ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے پبلک فنانس میں بگاڑ پیدا ہوتاآ رہا ہے جس کے باعث مالیاتی گنجائش سکڑ رہی ہے۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ ترقیاتی اخراجات تودرکنار حکومت کے پاس جاری اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی وسائل دستیاب نہیں ہیں، حکومت بینکوںاور بیرونی ذرائع سے بھاری قرض لے کر کام چلا رہی ہے۔ ملک میں ٹیکس چوری کاکلچر فروغ پا چکا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا ٹیکس جی ڈی پی تناسب دنیا کی پست ترین سطح 9فیصد تک گر چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی میں بالواسطہ ٹیکسوں میں 32فیصد اضافہ ہو چکاہے جبکہ براہ راست ٹیکس 19فیصد کم ہوئے۔
پاکستان کی حکمران اشرافیہ اورکاروباری افراد اتنے طاقتور ہیںکہ حکومتیں ان سے ان کی استعداد کے مطابق ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہیں۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ٹیکس نظام میں جو قسط وار تبدیلیاں کی گئی ہیں ان سے اس نظام کا توازن برقرار نہیں رہ سکا۔ زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ 22فیصد ہے لیکن ٹیکس ریونیو کی مد میں اس شعبے سے صرف ایک فیصد کی وصولی ہوتی ہے۔ اسی طرح خدمات کے شعبے کا جی ڈی پی میں 52فیصد سے زیادہ حصہ ہے لیکن ٹیکس ریونیومیں اس کا حصہ صرف 26فیصد ہے۔
سرکاری قرضوں کے انتظام کی کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع نہیں کی گئی۔2010ء کے فنانس ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے جس کے ذریعے ملکی قرضوں کی زیادہ سے زیادہ حد جی ڈی پی کے 60فیصد کے برابر مقررکی گئی ہے۔اس وقت ہمارا پبلک قرض جی ڈی پی کے 67فیصد سے تجاوز کرچکا ہے،اس کے باوجود حکومت مزید قرض لینے پر پابندی لگا رہی ہے نہ پبلک قرض کی حد بڑھانے یا اس کی شرائط کو نرم کرنے کے سلسلے میں پارلیمنٹ سے
منظوری لے رہی ہے۔گزشتہ برس قرضوں کی خدمت پر ٹیکس ریونیو کا 63فیصد یعنی 1.3ٹریلین روپے خرچ ہوئے اور اس سال 1.6ٹریلین سے بھی زیادہ خرچ ہونے کا امکان ہے۔اگریہ رجحان جاری رہاتو آئندہ دو تین برسوں میں قرضوں کی خدمت کا بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی متواتر اضافہ ہو رہا ہے؛ حالانکہ 18ویں آئینی ترمیم کی رو سے کئی ادارے اور محکمے صوبائی حکومتوں کو منتقل ہو چکے ہیں،لیکن حکومتی اخراجات میں کمی کی گئی نہ حکومتی مشینری کا حجم کم کیا گیا۔
اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ٹیکس اصلاحات اوران پرعملدرآمد ہے جس کے دو مقاصد ہونے چاہئیں؛اوّل، فاضل ریونیو حاصل کیاجائے تاکہ مالیاتی خسارے پر قابو پایا جا سکے۔دوم، عوام کو اعتماد میں لیا جائے کہ ان سے جو ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے اس کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا۔اس وقت عالمی اداروں اورغیر ملکی ڈونرز میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت منصفانہ اور موثرٹیکس نظام نافذ کرنے سے ہچکچا رہی ہے،ایف بی آرسے کرپشن ختم کرنے سے بھی قاصر ہے اورعوام سے غیر منصفانہ ودہولڈنگ اور بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے جورقوم حاصل کی جاتی ہیں وہ اشرافیہ کو مراعات اور سہولتیں فراہم کرنے پرخرچ کر دی جاتی ہیں۔عوام کا تاثربھی یہی ہے۔اس تاثر کو دور کرناہے۔ اشرافیہ کے طاقتور طبقوں سے ٹیکس چھوٹ،ریبیٹ اوردوسری مراعات واپس لی جانی چاہئیں اور معیشت کے تمام سیکٹرزاورافراد سے ان کی استعداد کے مطابق ٹیکس وصول کیا جاناچاہیے ۔
مالیاتی بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ٹیکسوں کا دائرہ کار وسیع کیا جائے اور ہر قسم کی آمدنی بشمول زرعی آمدنی کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور ہراس شخص کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا پابند بنایا جائے جس کی سالانہ آمدنی 4 لاکھ روپے سے زیادہ ہو، اس طرح پوری قوم مالیاتی افزائش میں حصہ لے سکے گی۔ بالواسطہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے لیے جن لوگوں کو رجسٹرکیا گیا ہے ان کی تعداد بہت ہی کم ہے اورعوام سیلز ٹیکس کی مد میں جو ٹیکس ادا کرتے ہیں اس کا بہت قلیل حصہ حکومت کومنتقل ہوتا ہے۔گزشتہ برس پورے ملک سے پرچون فروشوں نے صرف 75ملین روپے کا سیلز ٹیکس ادا کیا،ان کی تعداد میں اضافہ کر کے سیلز ٹیکس کے محصولات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی کرنی چاہیے،حکومتی مشینری کے حجم کم از کم 20فیصد کم کیاجاسکتاہے۔ Concurrent Listختم کرنے کے بعد جو سٹاف فالتو ہوا ہے، اسے صوبوں کو منتقل کر دینا چاہیے۔ قرض کی خدمت کے بوجھ میں کمی کرنے کے لیے بھی ٹھوس حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔