پاکستان میں عمودی اور افقی تقسیم بہت نمایاں ہو چکی ہے۔ معاشرے میں آمدنی اور دولت کی تقسیم انتہائی غیر مساویانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ جس کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان پائی جانے والی خلیج بہت وسیع ہو چکی ہے۔ کھلی اور پوشیدہ بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ناخواندہ افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ معیشت ہمارا کمزور ترین ادارہ ہے۔ ہر معاشرے میں معیشت بنیادی کردار کی حامل ہوتی ہے۔ دہشت گردی ‘ انرجی بحران‘انصاف اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا بھی اہم ترین مسائل ہیں۔ لیکن اگر معیشت منہدم ہو جائے‘ تو سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے۔ ہماری قیادت معیشت کو پروان چڑھانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ جس طرح کوئی کمپنی غیر متوازن بیلنس شیٹ کے ساتھ لمبے عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح کوئی بھی ملک ایسی صورت حال زیادہ دیر تک افورڈ نہیں کرسکتا۔انرجی کا بحران‘افراط زر‘بے روزگاری ‘سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کا پست تناسب ایک شکستہ اور مضمحل معیشت اور ریاستی اداروں کی باہمی کشمکش کی علامتیں ہیں۔
پچھلے چند سالوں سے دیہات میں بسنے والے افراد کی معاشی صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے کیونکہ زرعی آمدنیاں ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس عرصے میں بڑی فصلوں کی امدادی قیمتوںمیں بلند شرح سے اضافہ ہوا ۔ اس سے دیہی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیںجس سے زیادہ تر بڑے جاگیردار مستفیض ہوئے ۔ تاہم چھوٹے کاشتکاروں کی معاشی صورتحال میں بھی کچھ سدھار آیا ہے۔لیکن شہروں میں رہنے والے نچلے اور متوسط طبقے کے افراد کی معاشی مشکلات میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں تیز رفتار اضافے‘ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھر مار اور یوٹیلٹیز کی قیمتوں میں بلند شرح سے اضافے نے انہیں ہلکان کر کے رکھ دیا ہے اور ان کے لیے اپنا معیار زندگی برقرار رکھنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس سے دیہی اور شہری آبادیوں میں نمایاں تفاوت پیدا ہو گیا ہے۔ جبکہ نسلی‘فرقہ وارانہ اور زبانوں کی تقسیم پہلے سے بھی گہری ہو چکی ہے۔ تفاوت کی تمام جہتوں کو کم کرنے کے لیے جمہوریت کا کوئی بدل نہیں‘کیونکہ پورے ملک کے لوگ بالواسطہ طور پر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے اکثر مسائل کے بارے میں پارلیمنٹ میں بحث ہوتی ہے۔اس منتشر اور مختلف الخیال معاشرے میں حکومت جبر کے سہارے پر نہیں چل سکتی۔لیکن بری حکمرانی یا حکمرانی کے فقدان کی وجہ سے ہماری معیشت کمزور‘مضمحل اور ریاستی ادارے چُور چُور ہو چکے ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ڈسپلن ضروری ہوتا ہے صرف جمہوریت ہی معاشی ترقی کے لیے کافی نہیں ہوتی۔کسی بھی نظام کی کامیابی کا معیار یہ ہوتا ہے کہ کیا وہ نظام معاشرے میں ایسے حالات پیدا کرنے میں مددگار ہوا ہے۔ جن سے عوام کی اکثریت کی زندگیوں میں بہتری پیدا ہوئی ہو؟مستند جمہوری ممالک میں تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ملکی مفاد اور عوام کی فلاح و بہبودمیں بہتری لانے کے لیے مصروف عمل رہتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں ہر ادارہ اپنی برتری اور دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے۔بدقسمتی سے ہم ابھی تک ایک مربوط نظام قائم نہیں کر سکے۔حکومت میں شامل افراد کا واحد مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ تبدیلی ‘میرٹ اور قانون کی حکمرانی کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور اپنے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر ملک اور معیشت کی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں۔ ان میں کچھ افراد بہت انکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن پس پردہ رہ کر حکمران اشرافیہ سے تعلقات استوار کرتے ہیں اور اس گلے سڑے نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ حقیقی کنگ میکر ہیں۔ان میں سے چند ایک کو یہ احساس ہوتا ہے ۔ کہ ان کی اِننگ بہت مختصر ہے۔ اس لیے وہ اس عرصے میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ دوسرا گروہ ایسے لوگوں کا ہے جو کثیر مدتی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ہر اس شخص سے تعلقات بنائے رکھتے ہیں جس کا ملکی معاملات میں کوئی عمل دخل ہے یا مستقبل میں ہو سکتا ہے۔ اس نظام میں عام آدمی کا اپنی اہلیت کے بل بوتے پر کامیاب ہونے کا کوئی چانس نہیں اور نہ ہی وہ اپنی استعداد کے مطابق زندگی میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ اس سے معاشرے میں بے اعتناعی اور بے زاری جنم لے رہی ہے اور قابل افراد ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے ۔کہ جب تک وہ اپنے آپ کو اس گلے سڑے نظام سے ہم آہنگ نہیں کرتے ‘زندگی میں کامیاب نہیںہوں گے۔ پورا نظام ذاتی اغراض و مقاصد کے دائرے میں رواں دواں رہتا ہے۔ اس منحوس چکر سے نبرد آزما ہونے والے عوامل بہت کمزور اورمنتشر ہیں۔ اس وجہ سے بدعنوانی پورے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ ہر کوئی اس موذی مرض میں مبتلا ہے۔ فرق صرف مقدر کا ہے۔بڑے لوگ اربوں روپے لے اڑتے ہیںجبکہ چھوٹے اہلکار اپنے جیسے لوگوں سے چند ہزار کی رشوت پر قناعت کرتے ہیں۔ بڑے چوروں کے پاس ہوس زر اور لالچ کے سوا کوئی جواز نہیں۔جبکہ چھوٹے اہلکار کے پاس کئی جواز ہیں۔ اس کی تنخواہ بہت قلیل ہے۔ اسے اپنی بڑی فیملی کی کفالت کے لیے کرپشن کرنی پڑتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ وہ اپنی فیملی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے چند ہزار کی رشوت کیوں نہ لے۔جبکہ حکمران طبقے اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس انحطاط پذیر صورتحال کی وجہ سے کئی مخلص اور قابل لوگ جو ملک کی تعمیر نو میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں‘ وہ بھی خوفزدہ ہیں اور ان میں سے کئی لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ہمارے ہیرو ایسے لوگ بن چکے ہیں جو سوال اٹھاتے ہیں‘تنقید کرتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں رائے زنی کرتے ہیں ۔ٹی وی اور میڈیا پر سب سے اونچی آوازمیں شور مچانے والے ہی پاپولر ہوتے ہیں۔ اکثر ٹاک شوز کا مقصد مسائل کا حل تلاش کرنا نہیں ہوتا۔بلکہ صرف مسائل کی نشاندہی تک محدود ہوتا ہے۔قومی اہمیت کے بڑے بڑے مسائل پر بحث ہوتی ہے لیکن ان کا ممکنہ حل تلاش کرنا مقصد ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے وقت ہوتا ہے۔بے شمار چینل ایک ہی خبر کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں اور اینکرز مشکل سوال پوچھ کر چٹخارے لیتے ہیں۔ عام آدمی کے مسائل پر شاذو نادر ہی گفتگو ہوتی ہے اور اکثر آئینی ‘ قانونی موشگافیوں اور سیاسی پارٹیوں کے معاملات پر بحث ہوتی ہے۔ عوام یہ سب کچھ سننے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس اورکوئی آپشن نہیں ہے۔ ٹی وی ‘فلم ایکٹرز ‘میڈیا گرو ‘گلیمر سیلیبریٹی ‘ڈیزائنر اور بوتیک مالکان ہمارے ہیرو بن چکے ہیں اور جو لوگ انکساری سے پبلک سروس میں مصروف ہیں‘ ان کی خدمات کا ہم بالکل اعتراف نہیں کرتے۔ شاید یہ فرض کر لیا جاتا ہے ‘ کہ وہ بھی عام حکومتی اہلکاروں کی طرح بدعنوان ہوںگے۔ چونکہ پبلک سروس میں مصروف ہیروز کی حوصلہ افزائی نہیں ہو تی وہ مایوس ہو کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ہمیں ایسے عام لوگوں کو ہیرو کا مقام دینا چاہیے جو خاموشی سے سخت محنت کر کے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں کسی بھی مثبت پیشرفت کو خبر نہیں سمجھا جاتا۔صرف منفی خبروں کا بازار گرم رہتا ہے۔ ملک میںوی آئی پی کلچر پروان چڑھ رہا ہے‘ جہاںوی آئی پیز قانون کی پابندی نہیں کرتے۔ اسی طرح عام لوگ ٹریفک سگنل پر موٹر سائیکل نہیں روکتے۔ ہیلمٹ نہیں پہنتے اور قانون کی خلاف ورزی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ان حالات میں ہم بہتر لیڈر شپ کی کیسے توقع کر سکتے ہیں۔ اسی لیے ایک انتہائی چھوٹی سے اقلیت اپنے زرستان میں بیٹھی عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی ہے۔ وہ یا تو آنے والے خطرات سے غافل ہے یا خطرے کے پہلے اشارے پر ملک چھوڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ غریب لوگوں کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ اشرافیہ کا خیال ہے کہ اگر حالات قابو سے باہر ہوئے تو وہ بیرون ملک پرواز کرجائیں گے۔اگرچہ بڑے صنعت کار ‘سرمایہ دار اور لینڈ لارڈ بیرون ملک‘آباد ہونے کے خیال سے ہی نفرت کرتے ہیں کیونکہ جو ٹیکس فری مراعات اور لائف سٹائل پاکستان میں میسر ہے‘ وہ کسی اور جگہ ممکن نہیں۔