مئی 2013ء کے انتخابات سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن نے تواتر سے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ برسراقتدار آئی تو عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل نہیں کیے جائیں گے اور ہر صورت میں ملک کو خود کفیل بنایا جائے گا‘ لیکن الیکشن میں کامیابی کے بعد وہ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج حاصل کرنے پر مجبور ہو گئی اور اس مقصد کے لیے ایسی سخت شرائط بھی تسلیم کر لیں‘ جن کے باعث مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا اور ملک کا غریب اور متوسط طبقہ شدید مالی مسائل کا شکار ہو گیا۔
آئی ایم ایف سے 6.8 ارب ڈالر کا جو قرض حاصل کیا گیا‘ اس کی پہلی قسط جس کی مالیت 550 ملین ڈالر تھی، ستمبر میں موصول ہو گئی تھی۔ آئی ایم ایف نے پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کی کارکردگی کا جائزہ لے کر دوسری قسط اور محتاط آسودگی کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کر دیا۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ معیشت میں بہتری کا آغاز ہو گیا ہے۔ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف نے واضح طور پر نظر آنے والے معاشی زخموں کی مرہم پٹی کا ذکر تو کیا‘ لیکن جان لیوا مرض کے اصل اسباب کا قلع قمع کرنے کے لیے درکار علاج یا سرجیکل آپریشن کے بارے میں کچھ نہیں کیا۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف اور پاکستان کی حکومتوں کا گزشتہ تیس سالہ ریکارڈ مایوس کن ہے۔ آئی ایم ایف نے آغاز میں ہر حکومت کی کارکردگی کو سراہا لیکن بعد میں مایوس ہو کر تمام پروگرام وقت سے پہلے ختم کر دیے‘ جس کے باعث معاشی صورتحال پہلے سے زیادہ ابتر ہو جاتی رہی۔ ہر حکمران یہی راگ الاپتا رہا کہ اسے زبوں حال معیشت ورثے میں ملی اور سابق حکومت کی بدانتظامی کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا پڑا، ہم نے معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے حکمت عملی وضع کر لی ہے اور اس پر عملدرآمد کا آغاز ہو گیا ہے۔ سابق حکومت کو معاشی بدانتظامی کا ذمہ دار ٹھہرانا تو درست تھا لیکن اپنی پالیسیوں اور کارکردگی کے بارے میں ان کے بیان میں کوئی صداقت نہیں ہوتی۔ اگر یہی رجحان قائم رہا تو آئی ایم ایف اور حکومت دونوں سابق غلطیاں دہرائیں گے۔ اس دفعہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لے کر بیرونی قرض کی ادائیگیوں کا بحران وقتی طور پر ٹال دیا ہے، لیکن معیشت اور بیرونی سیکٹر میں پائے جانے والے سٹرکچرل عدم توازن پر قابو پانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
آئی ایم ایف کے قرض کے بعد دیگر ذرائع سے بھی بیرونی وسائل کی آمد شروع ہو گئی ہے‘ جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کچھ بہتری آنے کی امید ہے۔ ایف ایکس مارکیٹ میں سٹہ بازی رک گئی ہے اور عارضی طور پر روپے کی قدر مزید پگھلنے سے بچ گئی ہے، لیکن جاری ادائیگیوں کے خسارے میں 175 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں جو تھوڑی سی بہتری ہوئی وہ مزید بیرونی قرضوں کی مرہون منت ہے۔ حکومت نے گردشی قرضے پہلی فرصت میں ادا کر دیے تھے اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کرنے کے لیے چند دوسرے اقدامات بھی کیے لیکن انرجی سیکٹر کے سٹرکچرل مسائل حل کرنے کے لیے خاطرخواہ کام نہ کیا گیا۔ ادھر گردشی قرض پھر تیزی سے بڑھ کر 225 ارب روپے ہو چکا ہے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ 12 سے 14 گھنٹے تک ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کے لیے درکار سٹرکچرل ریفارمز کے بغیر بہتری ممکن نہیں۔ حکومت معیشت کی بحالی کے لیے درکار پالیسی فریم ورک وضع کرنے اور مشکل فیصلے کرنے کے بجائے چند سطحی سکیموں کا سہارا لے رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں سٹرکچرل ریفارمزپر عملدرآمدکے سلسلے میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی اب تک کی کارکردگی سے آئی ایم ایف بھی زیادہ خوش نہیں، اس نے اپنی جائزہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ معیشت کو کئی بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ مالیاتی صورت حال میں بہتری کے لیے نئے وسائل پیدا کرنے ہوں گے اور اخراجات میں بڑی کمی کرنا ہو گی تاکہ مالیاتی خسارہ کم کیا جا سکے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ
اور سٹرکچرل ریفارمز پر عملدرآمد میں تیزی لانا ہو گی، ملکی بچتوں کی پست شرح میں اضافے کے علاوہ بلند مالیاتی خسارے، دو عددی افراط زر اور بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ دکھاوے کے لیے معاشی ترقی، سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کے اونچے اہداف مقررکرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سرمایہ کاری کا اونچا ہدف مقرر کرتے وقت اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس مقصد کے لیے فنڈز کی فراہمی ملکی بچتوں میں تیز رفتار اضافے سے ہی ممکن ہوگی۔ ریٹ آف ریٹرن میں قابل ذکر اضافے اور ادارہ جاتی فریم ورک میں بہتری لائے بغیر ملکی بچتوں میں بڑے اضافے کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ اگر سرمایہ کاری کے لیے ملکی اور غیرملکی ذرائع سے فنڈزحاصل کیے جاتے ہیں تو اس سے افراط زر میں تیزی آئے گی اور ملک قرضے کے پھندے میں پھنستا جائے گا۔
مالیاتی خسارہ کم کرنے کے سلسلے میں حکومتی لائحہ عمل میں بنیادی خامیاں ہیں۔ پہلی سہ ماہی کا بجٹ خسارہ کم دکھانے کے لیے ایڈہاک اقدامات، اعدادوشمار اور اکائونٹنگ کی شعبدہ بازی پر انحصار کیا گیا۔ شاید اس سے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے میں مدد ملی ہو‘ لیکن اس سے بجٹ خسارے میں بہتری لانے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ علاوہ ازیں ٹیکس چوروں کو ایمنسٹی دینے سے اس مجرمانہ رجحان کی حوصلہ افزائی ہو گی جس سے ٹیکس نظام مزید غیرموثر ہو جائے گا۔ اسٹیٹ بینک کے بجائے کمرشل بینکوں سے قرض لینے سے بھی افراط زر کے دبائو میں کمی نہیں آئے گی کیونکہ انہیں بھی فنڈز اسٹیٹ بینک مہیا کرتا ہے۔ بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے ٹیکس نظام کو ری سٹرکچر، انڈرگرائونڈ معیشت کو ڈاکومنٹ اور معیشت کے تمام سیکٹرز اور افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا تاکہ ٹیکس ریونیو میں بہتری لائی جا سکے۔ غیررسمی معیشت کا خاتمہ ضروری ہے۔
گزشتہ چھ ماہ میں افراط زر کی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے اور یہ 5.9 فیصد سے بڑھ کر دس فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ حکومت نے بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کر دیا تاکہ بجلی پیدا کرنے والی کرپٹ اور نااہل پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں کو سبسڈائز کیا جا سکے، اس سے بھی افراط زر میں اضافہ ہوا لیکن بڑے پیمانے پر بجلی چوری روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ بیرونی ادائیگیوں کے توازن سے متعلق طویل مدتی سٹرکچرل مسائل کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی۔ بیرونی سیکٹر کی مشکلات کا حل بیرونی ذرائع سے قرض کا حصول اور ایف ایکس مارکیٹ سے ڈالر خریدنا نہیں بلکہ اس کے لیے معاشی ترقی کی حکمت عملی کا اس طرح ازسرنو تعین کرنا ہے کہ برآمدات میں اضافہ ہو، درآمدات میں کمی کی جا سکے، افراط زر میں کمی ہو اور ایکسچینج ریٹ میں استحکام آئے۔ بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہو جس سے ادائیگیوں کے توازن کی مشکلات دور کی جا سکیں۔ بلاشبہ ان مقاصد کے حصول کے لیے غیرمقبول اور مشکل معاشی فیصلوں کی ضرورت ہوگی لیکن مشکل اور جارحانہ سٹرکچرل معاشی اصلاحات کے بغیر مالیاتی صورتحال میں حقیقی بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ افراط زر کم ہوگا نہ ادائیگیوں کے توازن میں استحکام آئے گا اور نہ ہی معیشت کی ممکنہ ترقی کے امکانات سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔ اس کے برعکس یہ خدشہ لاحق رہے گا کہ اگر صورتحال میں بہتری کے لیے درکار اقدامات نہ کیے گئے تو حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔ حکومت پبلک سیکٹر میں بڑے بڑے منصوبے شروع کرنا چاہتی ہے جن کے لیے بھاری مقدار میں فنڈز کی ضرورت ہے لیکن حکومت سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے نام پر امرا اور طاقتور طبقوں کو مزید ٹیکس رعائتیں دے رہی ہے۔ اس سے ملک بے لگام افراط زر اور قرض کے جال میں پھنستا جائے گا اور آبادی کی اکثریت کی معاشی مشکلات میں تیزی سے اضافہ ہوگا جس سے سماجی بے چینی اور سیاسی افراتفری بڑھے گی جس سے معاشی عدم استحکام پیدا ہو گا۔