نئیمانیٹری پالیسی

عہدِ حاضر میں زر اعتبارکاروباری لین دین میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ زر اعتبار کے حجم کے تغیرات کے باعث قیمتوں، کاروباری سرگرمیوں، روزگار اور پیداوار میں آنے والے اتار چڑھائو کے معاشی اور معاشرتی اعتبار سے کئی اچھے اور برے نتائج برآمد ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ آج کے پیچیدہ معاشی نظام کے تحت زر اعتبار کی تخلیق اور مختلف مقاصد کے لیے اس کی تقسیم پر کنٹرول رکھا جائے۔ موجودہ حالات میں ملک کے بازارِ زر کی سرگرمیوں پر کنٹرول رکھنے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان جو تدابیر اختیار کرتا ہے‘ انہیں زری پالیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ ان تدابیر کی مدد سے وہ ملک کی کاروباری ضرورتوں کے مطابق زر اعتبار کی مقدار کو گھٹاتا یا بڑھاتا ہے۔ اسی زری پالیسی کے ذریعے ملک میں معاشی سرگرمیوں کی سطح کو متاثر کیا جا سکتا ہے اور اس کی مدد سے کئی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں جن میں سرفہرست قیمتوں کا استحکام، بیروزگاری دور کرنا‘ معاشی ترقی کا حصول اور ادائیگیوں کے توازن میں خساروں کا خاتمہ شامل ہیں۔ زری پالیسی کے تحت ایک مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو دوسرے پر زد پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اگر روزگار کی سطح میں اضافے کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے تو ساتھ ہی افراط زر کے رجحانات رونما ہونے کے بارے میں چوکنا رہنا چاہیے اور جب افراطِ زر کو قابو میں رکھنے کا مسئلہ درپیش ہو تو مخالف افراطِ زر تدابیر اس حد تک نہیں اختیار کی جانی چاہئیں کہ معاشی ترقی ہی خطرے میں پڑ جائے یا روزگار متوازن سطح سے نیچے گر جائے۔ سٹیٹ بینک کے پاس زر اعتبار کنٹرول میں رکھنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔ ان سب میں اہم ترین حربہ ڈسکائونٹ ریٹ یا پالیسی ریٹ ہے۔
سٹیٹ بینک نے 17جنوری کو نئی زری پالیسی کا اعلان کیا ہے لیکن پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی، 10فیصد کی شرح برقرار رکھی ہے۔ پالیسی بیان میں کہا گیا ہے: ''ستمبر اور نومبر 2013ء میں پالیسی ریٹ میں اضافہ اس لیے کیا گیا تھا کہ بیرونی ادائیگیوں کے توازن کی صورت حال بتدریج خراب ہو رہی تھی اور افراطِ زر کے دبائو میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ بیرونی ادائیگیوں کے توازن اور افراطِ زر کی صورتحال میں بہتری کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ اب بیرونی سیکٹر کے مسائل کی شدت میں کمی آتی جائے گی کیونکہ جولائی سے نومبر کے درمیانی عرصے میں 800 ملین ڈالر کے بیرونی وسائل موصول ہو چکے ہیں۔ اتصلات سے پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی بقایا رقم 800 ملین ڈالر ملنے کی بھی توقع ہے۔ حکومت یورو بانڈ جاری کرے گی‘ جس سے 500 ملین ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ عالمی اداروں اور ڈونر ممالک سے بھی بیرونی وسائل کی آمد متوقع ہے۔ آئی ایم ایف کو 1151.2 ملین ڈالر کی ادائیگی کی جا چکی ہے، اس لیے اس سے قرض کی تیسری قسط بھی مل جائے گی۔ اس طرح ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں رفتہ رفتہ بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔ ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ کوآپشن سپورٹ فنڈ کی بروقت وصولی اور G-3 لائسنس کی نیلامی سے حاصل ہونے والی متوقع آمدنی کی وجہ سے جاری ادائیگیوں کا خسارہ جی ڈی پی کے ایک یا 1.8 فیصد کے قریب رہنے کا احتمال ہے‘‘۔ زری پالیسی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افراطِ زر میں جو اضافہ ہوا ہے‘ وہ مالیاتی پھیلائو کا نتیجہ تھا؛ تاہم طلب میں اضافے کے باوجود افراطِ زر میں اضافے کی شرح پست رہی ہے اور اس سال افراطِ زر کی شرح 10.5 سے 11.5 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے جو حکومت کے مقرر کرد ہ ہدف یعنی 8 فیصد سے زیادہ ہے۔ حکومت نے اس سال کے لیے مالیاتی خسارے کا ہدف 6.3 فیصد مقرر کیا تھا اور اس سال کی پہلی سہ ماہی میں 1.1 فیصد کی سطح تک محدود کرنے میں کامیاب رہی۔ ضروری ہے کہ یہ مثبت رجحان سال کے آخر تک جاری رہے؛ تاہم اس سلسلے میں خطرات موجود ہیں کیونکہ ٹیکس ریونیو ہدف سے کم رہنے کا اندیشہ ہے جبکہ انرجی سیکٹر کا گردشی قرض 200 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ بجٹ میں جن بیرونی وسائل کی آمد پر انحصار کیا گیا ہے ان میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ اگر بیرونی وسائل کی آمد میں کمی یا تاخیر ہوتی ہے تو بینکاری نظام سے بھاری قرض لینا پڑے گا جس سے ملکی قرض کا بوجھ بڑھے گا اور افراطِ زر میں بھی اضافہ ہو گا۔ توقع ہے کہ حکومت سال کی دوسری ششماہی (یکم جنوری تا 30جون) کے دوران سٹیٹ بینک سے کم قرض لے گی اور آہستہ آہستہ پہلا قرض واپس کرنے کی کوشش کرے گی۔
سٹیٹ بینک نے ستمبر اور نومبر میں پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا تھا کیونکہ افراطِ زر بڑھ کر 10.9 فیصد ہو گیا تھا۔ دسمبر میں افراطِ زر گھٹ کر 9.2 فیصد رہ گیا تھا، بیرونی سیکٹر کے بارے میں بھی بہتری کی توقع تھی کیونکہ کچھ دنوں سے روپے کی قدر میں کسی قدر استحکام آ گیا ہے، ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائز پگھلنے کا عمل بھی وقتی طور پر رک گیا ہے۔
سٹیٹ بینک کا خیال ہے کہ اس سال جاری ادائیگیوں کا خسارہ جی ڈی پی کے ایک اور دو فیصد کے درمیان رہے گا۔ اس سلسلے میں جن مثبت عوامل کا ذکر کیا گیا ہے ان میں بیرونی ذرائع سے وسائل کی آمد، یورو بانڈز کی فروخت، کوآپشن سپورٹ فنڈز سے بقایا رقم کی وصولی اور G-3 لائسنس کی نیلامی وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی ایک رقم بھی بروقت وصول نہیں ہوتی تو جاری ادائیگیوں کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
بیرونی سیکٹر میں بہتری لانے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہو گی، افراطِ زر کے بارے میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ایف بی آر ٹیکس ریونیو کا ہدف حاصل نہیں کر سکے گا، بجٹ سپورٹ کے لیے اتنے وسائل دستیاب نہ ہوں گے جن کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، مالیاتی خسارہ 6.3 فیصد سے تجاوز کر جائے گا اور حکومت بجٹ سپورٹ کے لیے بینکاری نظام سے بھاری مقدار میں قرض لے گی جس سے افراطِ زر بڑھے گا۔ ان حالات میں افراطِ زر کو جوں کا توں رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے میں پالیسی ریٹ میں اضافے کا جواز موجود تھا اور جب کلیدی عوامل میں متوقع تبدیلیاں رونما ہو جاتیں تو پالیسی ریٹ میں کمی کی جا سکتی تھی۔ اگر ایسا کیا جاتا تو موجودہ فیصلے کے منفی اثرات سے بھی بچا جا سکتا تھا؛ تاہم یہ بات سٹیٹ بینک کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ وہ معاشی بدانتظامی کے اہم موضوع پر حکومت کو خبردار کرتا رہا ہے اور زری پالیسی بیان میں بھی بار بار معاشی بدانتظامی کا ذکر کیا ہے۔ 
ایسا لگتا ہے کہ شرح سود میں تبدیلیوں سے حکومت اور حکومتی کنٹرول میں چلنے والے ادارے بے حس ہو چکے ہیں اور بینکاری نظام سے بھاری قرض لے رہے ہیں۔ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ حکومتی کنٹرول میں چلنے والے اداروں کو ریسٹرکچر کیا جائے گا لیکن ابھی تک اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ اگر یہی رجحان رہا ہے تو معیشت پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔
اگر سٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ میڈیا‘ اپوزیشن پارٹیاں اور سول سوسائٹی بھی موجودہ پالیسیوں کے منفی اثرات سے حکومت کو خبردار کرتے رہیں تو ان پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کے لیے حکومت پر دبائو بڑھے گا اور حکومت کو یاد دلایا جا سکے گا کہ بہتر مالیاتی نظم و نسق سے ہی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں