روایتی مالیاتی پالیسی اور معاشی ترقی

پاکستان کی متعدد حکومتوں کی معاشی بدانتظامی اور بری حکمرانی نے نہ صرف معیشت کو نقصان پہنچایا بلکہ سٹیٹ بینک،وزارت خزانہ،ایف بی آراور منصوبہ بندی کمیشن جیسے کلیدی اداروں کو بھی نڈھال کر کے رکھ دیا ہے۔ان میں فیصلہ سازی کی استعداد انحطاط پذیر ہے۔گزشتہ چھ برسوں میں معاشی ترقی کی اوسط شرح صرف 3فیصد رہی جس کی وجہ سے روزگار کے نئے مواقع بہت کم پیدا ہو سکے اور ہر سال لیبر فورس میں شامل ہونے والے افراد کو روزگار مہیا نہیں کیا جا سکا۔گزشتہ پانچ برسوں میں مالیاتی خسارے کی اوسط شرح جی ڈی پی کا7فیصد رہی۔ 2012-13ء میں مالیاتی خسارہ 8.8فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا،اس کے باوجود حاصل کردہ قرض ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کے بجائے بجٹ سپورٹ کے لیے استعمال کیا گیا جس سے پبلک قرض میں تو اضافہ ہوتا رہا لیکن معاشی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکے۔ مالیاتی خسارے کی بلند شرح اور روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے ملک کے پبلک قرض میں بڑا اضافہ ہوا،لہٰذااس سال پبلک قرض 1.9ٹریلین ہوچکا ہے۔
ملک دو عددی افراطِ زر کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے،نومبر میں اس کی شرح 10.9فیصد ہو گئی تھی۔گردشی قرض 225ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے، ملک کو بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بھی بحران کا سامنا ہے ۔ اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 1.9ارب ڈالر رہااور جاری ادائیگیوں کا خسارہ اس سال کے پہلے پانچ ماہ میں 175فیصد بڑھا، جو اب 1.5ارب ڈالر ہو گیا ہے۔اس سال کے شروع میں زرمبادلہ کے ذخائر 6ارب ڈالر تھے جوکم ہوکر3.22ارب ڈالر رہ گئے ہیں ۔چھ ماہ کے لیے ریونیو کا ہدف 1090ارب روپے مقرر کیا گیا تھا لیکن اس عرصے میں صرف 1020ارب روپے اکٹھے ہوسکے۔اگر ایف بی آر2475ارب روپے کا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا تو مالیاتی خسارہ اس سال بھی 7فیصد سے تجاوز کر جائے گا۔
حکومت نے بیرونی قرض کی نادہندگی سے بچنے اورکسی قدرمعاشی استحکام لانے کے لیے آئی ایم ایف سے 6.8ارب ڈالر کا قرض حاصل کیا ہے جو اس کی طرف سے تجویزکردہ معاشی پالیسیوں سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ معاشی استحکام آنے کے بعد ہی پاکستان میں معاشی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے مقاصد حاصل کیے جا سکیں گے۔ لیکن حالیہ برسوں میں آئی ایم ایف کی روایتی پالیساں کئی یورپی ممالک میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں اس لیے ان کا ازسرنو جائزہ لیا جا رہا ہے کیونکہ ان پالیسیوں کی کم آمدنی والے افراد کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔اکثر معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیںکہ تیز رفتار معاشی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے مقاصد فوری طور پر حاصل ہونے چاہئیں۔ متبادل پالیسیاں نئے ملکی وسائل پیدا کرنے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ اخراجات کن شعبوں یا منصوبوں کے لیے مختص کیے جائیں۔
ادھرپاکستانی حکمران ابھی تک روایتی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں، حالانکہ مالیاتی پالیسی سے معاشی ترقی میں اضافے اور غربت میں کمی کے مقاصد حاصل کیے جانے چاہئیں۔ اگرچہ معاشی ترقی کے لیے استحکام ضروری ہے لیکن صرف یہی کافی نہیں،اگر معیشت تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہو گی تو سٹیبلائزیشن کا حصو ل بھی آسان ہو گا اور پبلک قرض کو بھی معقول حدود میں رکھا جا سکے گا۔ معاشی ترقی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ مالیاتی خسارے کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے جو قرض لیا جا رہا ہے اسے تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خرچ کیا جائے تاکہ انسانی وسائل کی نشو ونما ہو سکے۔ اس سے ملک کی پیداواربڑھے گی اور معاشی ترقی کی رفتارتیزہوگی۔ اس کے علاوہ اسے ملک کے مادی انفراسٹرکچرکی تعمیرنواوربہتری پر خرچ کیا جائے، اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوںگے اور معاشی ترقی کے عمل کوبڑھاوا ملے گا۔اس صورت میں اگر پبلک قرض کچھ عرصے کے لیے زیادہ بھی ہو رہا ہوگا تب بھی معیشت قرض کے بوجھ کو برداشت کر سکے گی۔ جب تک مالیاتی خسارے کو ملک کی قرض برداشت کرنے کی گنجائش میں اضافے کے لیے استعمال کیا جائے گا، زیادہ اور بڑھتا ہوا قرض معیشت پر بوجھ نہیں بنے گا۔ یہ صحیح ہے کہ پبلک قرض معاشی ترقی میں فوری اضافہ نہیں کرے گا بلکہ اس کے اثرات کچھ دیرکے بعد نمودار ہونا شروع ہوںگے۔اس اثناء میں قرض کا تناسب بڑھ سکتا ہے، مالیاتی پالیسی ترتیب دیتے وقت ان عوامل کی نشاندہی کرنا ضروری ہے جن کے ذریعے مالیاتی پالیسی کثیر مدتی معاشی ترقی میں اضافے اورغربت میںکمی کے مقاصد حاصل کرنے میں مددگار ہوگی۔ اگر مالیاتی پالیسی ان بنیادوں پر نہیں بنائی جاتی تو معاشی استحکام تو شاید حاصل ہو جائے لیکن نہ تو معاشی ترقی کو بڑھاوا دیا جا سکے گا اور نہ ہی غربت میں کمی ہو گی۔
پاکستان میں مالیاتی پالیسی کو صرف مالیاتی استحکام حاصل کرنے کے لیے ہی استعمال کیا گیا ہے اور ان شعبوں یا منصوبوں پر کم خرچ کیے گئے ہیں جن سے معاشی ترقی کے عمل کو تحریک دی جا سکتی ہے۔ اس سال بھی ترقیاتی پروگرام کے لیے جو فنڈز رکھے گئے تھے ان میں کمی کر دی گئی ہے۔
پبلک سرمایہ کاری سے پرائیویٹ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے،اس کے ثمرات بھی نسبتاً لمبے عرصے میں حاصل ہونا شروع ہوتے ہیں اور نفع بھی مقابلتاً کم ہوتا ہے،اس لیے پرائیویٹ سیکٹرانفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری سے ہچکچاتا ہے۔ جب تک انفراسٹرکچر کے یہ رخنے سرکاری سرمایہ کاری سے پُر نہیں کئے جاتے معاشی ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا،اس لیے پبلک اخراجات کی سطح کے بجائے اس کی ترجیحات زیادہ اہم ہیں۔دراصل ہم نے معاشی ترقی کی شرح میں اضافے کے باوجود ریونیو بڑھانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ جن ترقی پذیر ممالک نے ٹیکس جی ڈی پی تناسب نہیں بڑھایا اور پبلک اخراجات کی ترجیحات میں انفراسٹرکچر کی بہتری اور تعمیر نوکو نظراندازکیا ان ملکوں کا پبلک قرض محفوظ سطحوں سے بڑھ گیا اوراب بھی بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بھی مشکلات کا سامنا ہے ،اس لیے وہ آئی ایم ایفکی گود میں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان ہمیشہ آئی ایم ایف کی روایتی پالیسیوں یعنی سب سے پہلے سٹیبلائزیشن پر ہی عملدرآمد کرتا رہا ہے۔ ایسی روایتی پالیسیوں کے کہیں بھی مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے بلکہ ان سے عوام کے معاشی مصائب وآلام میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں روایتی سٹیبلائزیشن کی پالیسیوں سے یورپی ممالک کے مسائل حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملی، اس لیے عالمی معاشی ماہرین نے مالیاتی پالیسیوں میں سٹیبلائزیشن اور معاشی ترقی کے مقاصد میں توازن پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
اگر چہ قلیل مدتی معاشی استحکام کے لیے مالیاتی خسارے اور پبلک قرض پر قابو پانا ضروری ہے لیکن اس سے اہم بات اس امر کو مد نظر رکھنا ہے کہ مالیاتی خسارے کی رقم کہاں خرچ کی جا رہی ہے، کس سیکٹر میں خرچ کی جا رہی ہے اور کس مقصد کے لیے خرچ کی جا رہی ہے۔ مالیاتی پالیسی کو معاشی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی راہ میں ٹیکس جی ڈی پی تناسب کی پست شرح سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس لیے ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنا، ٹیکس نظام کو پروگریسو اور منصفانہ بنیادوں پر استوار کرنا، ٹیکس مشینری کی کارکردگی میں بہتری لاکراور ٹیکس چوری کا قلع قمع کر کے ٹیکس ریونیو میں اضافہ کرنا انتہائی ضروری ہے، اس کے بعد ہی مالیاتی پالیسی کو معاشی ترقی کا مقصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں