مالیاتی اختیارات کی منتقلی

پاکستان میں ٹیکس عائد کرنے اور دیگر ذرائع سے نان ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کے اختیارات مرکزی حکومت کے پاس ہیں اور ان وسائل کومرکزی حکومت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرتی ہے۔ صوبوں اور مقامی حکومتوں کو ٹیکس عائد کرنے اور ان سے حاصل ہونے والے وسائل کو خرچ کرنے کے اختیارات نہیں دیے گئے حالانکہ آئین کی شق 140A کی رو سے یہ اختیارات صوبوں اور مقامی حکومتوں کو حاصل ہونے چاہئیں۔ اکثر مالیاتی اختیارات مرکزی حکومت کے پاس ہیں، صوبوں کو اشیا پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کا بھی اختیار نہیں دیا گیا جبکہ صوبے بھی مقامی حکومتوں کو انتظامی اختیارات تفویض کرنے کے سلسلے میں سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ٹیکس ریونیو میں صوبوں کا حصہ 6 فیصد اور مجموعی ریونیو (جس میں ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو شامل ہوتا ہے) میں صوبوں کا حصہ صرف 8 فیصد ہے، اس لیے صوبے مکمل طور پر مرکز کے مرہون منت رہتے ہیں کہ انہیں قابل تقسیم ریونیو سے کتنا حصہ ملتا ہے۔
دنیا کی تمام فیڈرل حکومتیں اپنی صوبائی حکومتوں کو ان کی جغرافیائی حدود میں تمام اشیا و خدمات پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کے اختیارات دیتی ہیں مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا‘ حالانکہ قیام پاکستان سے پہلے تمام صوبوں کو ٹیکس عائد کرنے کا اختیار تھا۔ مرکزی حکومت تیزی سے بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے‘ جو اس سال 1.8 ٹریلین کی خوفناک سطح کو چھو سکتا ہے۔ صوبوں کو اپنے لیے وسائل پیدا کرنے کا اختیار دیا ہوتا تو ہم ابتر معاشی صورت حال سے بچ سکتے تھے۔
مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ صوبوں کے پاس سیلز ٹیکس کی موثر وصولی کے لیے درکار انفراسٹرکچر موجود نہیں لیکن اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کیونکہ صوبہ سندھ اور پنجاب نے 12ـ2011 ء میں خدمات کے شعبے میں ایف بی آر سے زیادہ سیلز ٹیکس اکٹھا کیا اور پھر 2013ء میں صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی ایسا ہی ہوا‘ لہٰذا ضروری ہے کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان معقول اور منصفانہ بنیادوں پر ٹیکس اکٹھا کرنے کے اختیارات کی تقسیم کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا صوبے مرکزی حکومت کے دست نگر رہیں گے۔ اگر صرف اشیا اور خدمات پر بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ کے اختیارات صوبوں کو منتقل کر دیے جائیں تو بھی جی ڈی پی میں ٹیکس کا تناسب بہتر کرنے میں مدد ملے گی‘ صوبوں کو صحیح معنوں میں خود مختاری حاصل ہو گی اور وہ براہ راست اپنے صوبے کے عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوں گے۔
سندھ ریونیو بورڈ اور پنجاب ریونیو اتھارٹی کی کارکردگی نے اس بات کی تصدیق بھی کر دی ہے کیونکہ سندھ ریونیو بورڈ نے 2011-12ء اور 2012-13ء میں بالترتیب 25 ارب اور 37.5 ارب روپے جمع کیے۔ اسی طرح پنجاب ریونیو اتھارٹی نے 2012-13ء میں 37 ارب روپے اکٹھے کئے جبکہ اس سے پہلے ایف بی آر سے اس کو صرف 26 ارب روپے ملا کرتے تھے۔ خدمات کے شعبے سے سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے سے متعلق صوبائی حکومتوں کی کارکردگی نے اس مفروضے کی نفی کر دی ہے کہ صوبوں کے پاس نئے وسائل پیدا کرنے اور اکٹھا کرنے کی استعداد نہیں ہے۔ اگر اشیا پر عائد سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کے اختیارات صوبوں کو منتقل کر دیے جائیں تو ان کی کارکردگی ایف بی آر سے کہیں زیادہ بہتر ہوگی؛ تاہم زرعی آمدنی سے ٹیکس حاصل کرنے کے سلسلے میں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی بہت کمزور رہی ہے۔ اس سلسلے میں مرکز اور صوبوں‘ دونوں کی کارکردگی کی حالت ایک جیسی ہے کیونکہ امیر اور طاقتور لینڈ لارڈز سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے درکار سیاسی عزم کا فقدان ہے، یہ امر دونوں حکومتوں کے لیے فکرمندی کا باعث ہونا چاہیے۔ 
اس سال ایف بی آر نے ٹیکس ریونیو کا ہدف 2475 ارب روپے مقرر کیا ہے۔ مرکزی حکومت کا کل ریونیو بشمول نان ٹیکس ریونیو 3420 روپے ہو گا۔ اس میں سے صوبوں کو 1500 ارب روپے ملیں گے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے 1154 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور ڈیفنس سروسز کے اخراجات 627 ارب روپے ہیں جبکہ سول حکومت کو چلانے کے لیے صرف 275 ارب رکھے گئے ہیں۔ ان چار مدوں کو فنڈز مہیا کرنے کے بعد حکومت کو قرض پر انحصار کرنا پڑے گا۔ صوبائی حکومتوں کو اپنی جغرافیائی حدود کے اندر اشیا پر ٹیکس عائد کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا جبکہ مرکزی حکومت ملک کی حقیقی استعداد کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے‘ جس سے صوبائی حکومتوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایف بی آر 2012-13ء میں ہدف سے 400 ارب روپے کم ٹیکس اکٹھا کر سکا، اس وجہ سے کسی بھی صوبائی حکومت کو این ایف سی سے مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کیے جا سکے۔ اگر ایف بی آر ہدف کے مطابق ریونیو اکٹھا کرنے میں ناکام رہتا ہے یا ایس آر او کے ذریعے ٹیکس چھوٹ اور رعایتیں دی جاتی ہیں تو مطلوبہ مقدار میں ریونیو حاصل نہیں کیا جا سکتا اور ملک کے مالیاتی خسارے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 
حقیقی ریونیو کی استعداد کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنا تو درکنار ایف بی آر پچھلے کئی برسوں سے بجٹ میں مقرر کیا گیا ہدف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ حقیقی ٹیکس استعداد کے مطابق ٹیکس کا حاصل نہ ہونا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایف بی آر کی کمزور کارکردگی سے صوبے بھی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مرکز پر بھاری انحصار ہوتا ہے اور انہیں Divisible Tax Pool میں سے بہت کم فنڈز ملتے ہیں جس سے صوبوں کی مالیاتی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔Divisible Pool کا سائز اتنا چھوٹا ہے کہ نہ تو ہمیں قرض کے چکر سے نکلنے میں کوئی مدد ملتی ہے اور نہ ہی عوام کو سماجی خدمات مہیا کرنے کے لیے کافی وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔ جب تک مرکز اور صوبائی حکومتوں کے ٹیکس اکٹھا کرنے کے موجودہ انتظامات میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاتی اور لوکل گورنمنٹ قائم کر کے اسے مالیاتی اختیارات منتقل نہیں کیے جاتے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا بلکہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا رہے گا، پاکستان قرض سے بھی نجات نہیں پا سکے گا اور زیادہ سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے رہیں گے۔ موجودہ بحرانی صورتحال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان انتظامات کا از سر نو جائزہ لیا جائے کیونکہ ٹیکس عائد کرنے کے حقوق اور آمدنی اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے بغیر صوبائی خود مختاری اور لوکل سیلف گورنمنٹ کا کوئی فائدہ نہ ہو گا‘ نہ ہی ہم دائمی معاشی مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ جب تک صوبائی حکومتوں کو حقیقی خود مختاری نہیں دی جاتی اور ان کو اپنے تمام وسائل کی ملکیت اور اپنے لیے نئے وسائل پیدا کرنے کے کلّی اختیارات نہیں دیے جاتے‘ وہ ان وسائل کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر اپنی صوابدید کے مطابق خرچ نہیں کر سکیں گے۔ صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ لوکل گورنمنٹ کا قیام جلد از جلد عمل میں لائے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمران طبقے لوکل گورنمنٹ کے ذریعے عوام کو اختیارات منتقل نہیں کرنا چاہتے، وہ ملکی وسائل پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ جب تک مقامی حکومتوں کو مالیاتی اختیارات نہیں دیے جاتے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ مقامی حکومتوں کے پاس کافی مالی وسائل ہونے چاہئیں جنہیں وہ اپنے علاقے کے عوام کی فلاح و بہبود پرخرچ کر سکیں۔مالیاتی اختیارات کی نچلی سطحوں تک منتقلی کا مقصد اسی صورت میں پورا ہو گا جب مقامی حکومتوں کے پاس اتنے مالیاتی وسائل ہوں جن سے وہ آئین اور قانون میں دی گئی ذمہ داریاں پوری کر سکیں اور عوام کو بنیادی سماجی خدمات مہیا کرنے کے علاوہ وہ اپنے علاقے کی معاشی ترقی کو بھی بڑھاوا دے سکیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں