آج کے ترقی یافتہ ممالک نے جب معاشی ترقی کی دوڑ کی ابتدا کی تھی۔ تو حالات بڑے سازگار تھے۔ آبادی کے مقابلے میں انہیں زیادہ قدرتی وسائل میسر تھے۔ ان میں سے بیشتر نے تو ایشیا اور افریقہ میں نو آبادیاں قائم کر کے اپنی صنعتوں کے لیے مستقل طور پر خام مال کے حصول اور اپنی مصنوعات کے لیے وسیع منڈیوں کا انتظام کر لیا تھا۔اس طرح ان کے لیے معاشی ترقی کرنا بہت آسان ہو گیا تھا۔ لیکن آج کے کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک حالات ناساز گار ہیں۔ انہیں آبادی کے مقابلے میں قدرتی وسائل کی قلت کا سامنا ہے اور بین الاقوامی تجارت میں بھی مقابلہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس لیے انہیں اپنے قلیل وسائل سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے معاشی منصوبہ بندی کی ضرورت پیش آتی ہے‘ تاکہ وہ اپنی ترقیاتی کوششوں کو زیادہ منظم اور مضبوط بنا کر غربت کے منحوس چکر سے باہر نکل سکیں۔
ہمارے ملک میں معاشی ترقی کے حصول کے لیے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ (PSDP)پروگرام کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔عام خیال یہ ہے کہ ہماری معاشی ترقی کی پست شرح کی بڑی وجہ انفراسٹرکچر کی کمزوری ہے اور اگر انفراسٹرکچر کو بہتر کر لیا جائے تو معاشی ترقی کو تحریک ملے گی۔ ابتدائی مرحلے میں صورت حال ایسی ہی تھی‘ جب انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور بہتری کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کی رفتار بھی بڑھ جاتی تھی جیسا کہ منگلا اور تربیلا ڈیم کے بننے سے معاشی ترقی کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔ یہ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور اس میں بہتری لانے کا پہلا مرحلہ تھا ۔ان دنوں جن انفراسٹرکچر پروجیکٹس کی ضرورت ہوتی تھی ان کی نشاندہی بھی آسانی سے ہو جاتی تھی اور منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد میں بھی کافی ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ اگرچہ اس وقت بھی فنڈز کے غلط استعمال کی اِکّا دکّا شکایات مل جاتی تھیں‘لیکن وقت گزرنے کے ساتھ PSDP کے لیے ایسے منصوبے تیار کیے جانے لگے‘ جن کے ذریعے وسائل پر کنٹرول حاصل کیا ہو اور ان کے ذریعے حکومتی سرپرستی میں سیاسی مفاد حاصل کیا جا سکے۔نتیجتاً منصوبہ بندی‘ عملدرآمد اور مانیٹرنگ کا سارا عمل سیاست کی نذر ہو گیا اور اب سیاستدان اپنے اپنے علاقے کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز حاصل کرنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں جبکہ منصوبہ بندی کمشن کے بیورو کریٹ وسائل کے استعمال کے لیے منصوبوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان حالات میں منصوبہ بندی اور حکمرانی کے عمل میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ فزیبلیٹی رپورٹس بغیر کسی سنجیدہ ہوم ورک کے تیار کی جاتی اور چند طاقتور افراد /اداروں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے نہایت بھونڈے انداز میں بنائی جاتی ہیں۔ اسی طرح ان کا جائزہ لینے اور منظوری حاصل کرنے کا عمل بھی کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ''اصل منصوبہ ساز‘‘ سمجھتے ہیں کہ اپنی صوابدید کے مطابق پبلک فنڈز خرچ کرنے کا اختیار ان کے پاس ہے۔ وہ منصوبوں کا جائزہ لینے اور منظوری کے عمل کو بھی اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہیں‘ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر سال اتنے منصوبے منظور ہو جاتے ہیں جن کی تکمیل میں چھ سات سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے ۔کیونکہ PSDPکا حجم 500 ارب روپے یا اس سے بھی کم ہوتا ہے اور منظور شدہ منصوبوں کی لاگت 3000ارب سے بھی تجاوز کر جاتی ہے‘ پھر ہر منصوبے کے لیے کل لاگت کے 15یا 20فیصد فنڈز مہیا کئے جاتے ہیں اور اس عرصے میں افراطِ زر اور کئی دیگر وجوہ کی بناء پر منصوبے کی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے؛ چنانچہ ان منصوبوں سے جن فوائد کی توقع ہوتی ہے وہ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔PSDPکا زیادہ پیسہ سڑکوں پر خرچ ہوتا ہے۔حالانکہ ہماری موجودہ معاشی سطح کی صورتحال کے لیے سڑکوں کا انفراسٹرکچر کافی ہے لیکن بااثر افراد کا جھکائو سڑکوں کے منصوبوں کی طرف ہوتا ہے‘ کیونکہ ان پر پیسہ خرچ کرنا اور کمشن وغیرہ کا حصول آسان ہوتا ہے ملک میں ریلوے کی نسبت سڑکوں پر تقریباً تین گنا زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ ریلوے کو مطلوبہ ترجیح نہیں دی جاتی۔ سڑکیں ٹھیک بنی ہیں یا نہیں اس کا جائزہ لینے کے لیے بھی کوئی فورم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ منصوبوں کی لوکیشن بھی منصوبہ بندی کا اہم جزو ہوتی ہے تاکہ ملک کے مختلف علاقوں کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تمام سہولیات ایسی جگہوں پر مہیا کی جانی چاہیں‘ جہاں سے آبادی کی اکثریت ان سے فائدہ اٹھا سکے۔ اگر انفراسٹرکچر یا تمام سہولیات چند بڑے شہروں یا گنجان آباد علاقوں تک محدود کر دی جائیں تو اس سے معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے میں تو شاید مدد مل سکے لیکن دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے تعلیم‘ صحت اور دیگر سماجی خدمات کی فراہمی انتہائی دشوار ہو گی۔ اس لیے سکول‘ کالج اور یونیورسٹیوں کے قیام کے بارے میں فیصلے نہایت سوچ بچار اور غورو خوض کے بعد کئے جانے چاہئیں تاکہ ان کی لوکیشن کے لیے ایسے علاقوں کا انتخاب کیا جا سکے‘ جہاں سے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔ہمارے ہاں یہ فیصلے چند اہم افراد کی صوابدید کے مطابق نہایت عجلت میں کئے جاتے ہیں اور سکول‘ کالجز اور یونیورسٹیاں عام طور پر چند علاقوں تک محدود رہتی ہیں اور ان کے اخراجات کا بڑا حصہ بلڈنگ پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ ان اداروں میں تعلیم کا معیار بھی بہت پست رہتا ہے۔ PSDP کا تقریباً65فیصد کے قریب اینٹ‘ سیمنٹ اور گارے وغیرہ پر خرچ کر دیا جاتا ہے اور 20فیصد سے زیادہ کاروں اور دیگر اکوئپمنٹ پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ ان اداروں میں کام کرنے والے افراد کی قوت اور انتظام کرنے والے افراد اور ان کی تعلیم و تربیت پر صرف 7فیصد کے قریب خرچ کیا جاتا ہے۔منصوبوں کی تکمیل کے بعد ان کی دیکھ بھال پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی ان اداروں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پروجیکٹس بناتے وقت ان کی پیداواری گنجائش کو بھی مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ اکثر سرکاری دفاتر کی عمارتیں پرائم لوکیشن پر بنائی جاتی ہیں۔ ان سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا‘ بلکہ ان جگہوں پر جو کمرشل سرگرمیاں ہو سکتی ہیں وہ بھی نہیں ہو پاتیں اور نہ ہی روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ کمرشل سرگرمیوں سے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس وقت کئی سرکاری دفاتر‘ تعلیمی ادارے اور سرکاری گیسٹ ہائوسز پرائم لوکیشنز پر زیر تعمیر ہیں۔ PSDPکے فنڈز سرکاری افسران کی رہائش گاہوں کی تعمیر پر بھی خرچ ہوتے ہیں۔سرکاری گھروں کی تعداد میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن لائبریری‘ پلے گرائونڈ اور کمیونٹی سنٹرز کی تعمیر کے سلسلے میں کوئی ترجیح نہیں دی جاتی۔ شہرو ں کی اہم ترین لوکیشن پر اراضی سرکاری افسران کو سہولیات مہیا کرنے کے لیے رکھی جاتی ہے۔ اس وجہ سے کمرشل ڈویلپمنٹ کم ہوتی ہے۔سرکاری افسروں کے گھروں کی تعمیر پر جو خرچ کیا جاتا ہے‘ وہ کسی طرح بھی سرمایہ کاری کے زمرے میں نہیں آتا۔ لیکن PSDPکا ایک حصہ اس پر خرچ ہوتا ہے اور اسے سرمایہ کاری گردانا جاتا ہے۔اگر پرائم لوکیشنز پر غیر ضروری سرکاری عمارتیں کھڑا کرنے کے رجحان پر قابو پا لیا جائے تو ہمارے پاس پبلک سرمایہ کاری کے لیے وسائل ہوں گے‘ بلکہ کمرشل سرگرمیوں میں بھی ابھار پیدا ہو گا۔ PSDP کے فنڈز کئی دیگر غیر ضروری اشیاء اور اثاثوں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ امرا کے لیے ایلیٹ سپورٹس کلب اورگولف کورسز پر بھی PSDPسے اخراجات کیے جاتے ہیں۔ ایسی سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ نہیں۔پبلک سرمایہ کاری معاشی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے مقاصد کے حصول کے لیے کی جانی چاہیے اس مقصد کے لیے معاشی ترقی کی واضح حکمت عملی ہونی چاہیے‘ جس کا فوکس پیداوار بڑھانے‘ منڈی کی کمیوں کو دور کرنے اور مسابقتی ماحول پیدا کرنا ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں زبانی جمع خرچ کی بجائے تمام قانونی اور مادی سقم دور کر کے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ماحول سازگار بنانا ہو گا اور حکومت کا کردار متعین کر کے موثر حکمرانی کو یقینی بنانا ہو گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جو منصوبے بنائے جاتے ہیں‘ وہ کئی طرح حکمرانی پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں اور بے شمار وسائل کاروں‘ الائونسز اور بیرونی دوروں پر خرچ ہو جاتے ہیں۔حتیٰ کہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اپنی تنخواہ سے زیادہ الائونسز کی مد میں حاصل کرلیتے ہیں کیونکہ وہ پروجیکٹس کے ڈائریکٹر ہوتے ہیں۔PSDPکے غلط استعمال کے علاوہ ان افسران کی حکمرانی کی کوالٹی پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔