نظام سرمایہ داری کی حامل معیشتوں میں آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات رونما ہو جاتی ہے۔آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات معاشرتی اور معاشی دونوں اعتبار سے ناپسندیدہ عمل ہے۔ جب کسی معاشرے میں آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات پائی جائے تو اس کی مجموعی تسکین میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔آمدنی کی تقسیم میں پائی جانے والی ناہمواری انسانی وسائل کی قوت پیداواری کو بھی پست کر دیتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی ذات سے کام لیے بغیر کافی سہولتیں حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ کام کرنے والوں کو جب پست اجرتیں ملتی ہیں تو وہ اپنی صحت کو برقرار نہیں رکھ پاتے۔ یوں ان کی پیداواری قوت پست ہو جاتی ہے۔اسی لیے معاشرے کی مجموعی تسکین بڑھانے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ ٹیکس پالیسی کے ذریعے آمدنی کی تقسیم میں ہمواری لانا عہد حاضر کی حکومتوں کا ایک لازمی مقصد سمجھا جاتا ہے۔غربا پر کم سے کم اور امرا پر بلند شرح سے ٹیکس لگا کر حکومت آمدنی کی تقسیم میں کافی ہمواری لا سکتی ہے۔ اسی طرح جائیداد یا اثاثوں کے چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کو روک کر آمدنی کی تقسیم میں ہمواری لائی جا سکتی ہے۔اس مقصد کے لیے حکومت وراثت‘ حِبہ اور جائیداد ٹیکس کا سہارا لے سکتی ہے۔ ان ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے ریونیو کو حکومت غریب اور محروم طبقات کو تعلیم‘ صحت اور دیگر سماجی خدمات مہیا کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے لیکن پاکستان میں امرا کو فائدہ پہنچانے کے لیے گفٹ ٹیکس‘ ویلتھ ٹیکس‘ کیپیٹل گین ٹیکس اور سٹیٹ ڈیوٹی جیسے تمام پروگریسو ٹیکس منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ حکمران اشرافیہ انتہائی جابرانہ ٹیکس نظام کے ذریعے عوام کے خون پسینے سے کمائی ہوئی آمدنی کا بڑا حصہ اینٹھ لیتی ہے اور اس طرح حاصل ہونے والے ریونیو کو اپنے خاندان اور قبیلے کے لوگوں کو بے مثال مراعات‘ بالائی یافت‘ غیر ملکی دوروں اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ پر اڑا دیتی ہے۔ حکمران عالمی اداروں کو بتاتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے‘ حالانکہ اصل صورت حال بالکل اس کے برعکس ہے۔پاکستانی عوام ایشیا کے تمام ممالک کی نسبت زیادہ بھاری ٹیکس کا بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ مراعات یافتہ طبقات اصل مجرم ہیں۔ جن کے پاس دولت کے انبار ہیں‘ وہ اس دولت پر واجب ٹیکس ادا نہیں کرتے اور پبلک ریونیو کی لوٹ کھسوٹ اور ضیاع میں بھی ملوث ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے غریب عوام کی روز مرہ ضروریات زندگی کی زیادہ سے زیادہ اشیاء پر بھی سیلز ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ عوام بھوک سے مر رہے ہیں جبکہ حکمران اور ان کے حواریوں کی سکیورٹی ‘ آسودگی‘ لنچ‘ ڈنرز‘ ملکی اور غیر ملکی دوروں پر اربوں روپے اڑا دیے جاتے ہیں۔غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے یوٹیلٹیزاور پٹرولیم پر وڈکٹس کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کیا جاتا ہے۔غریب اور متوسط طبقے بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں‘ جو کُل ٹیکس ریونیو کا 85فیصد ہیں۔حکومت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں سے 25فیصد سے زیادہ ٹیکس حاصل کرتی ہے۔پٹرول اور ڈیزل استعمال کرنے والے ادارے یہ ٹیکس صارفین کو منتقل کر دیتے ہیں۔بالواسطہ ٹیکسوں سے افراطِ زر اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔بھاری بالواسطہ ٹیکسوں سے انڈسٹری پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے کاروباری لاگت بڑھ جاتی اور پاکستانی پروڈکٹس عالمی مارکیٹ میں دوسرے ملکوں کے ساتھ مسابقتی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ عوام کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ ٹیکسوں کا کتنا بھاری بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔جابرانہ ٹیکس نظام کی وجہ سے نہ صرف امیر اور غریب کے درمیان پائی جانے والی خلیج وسیع ہو رہی ہے بلکہ ہم اتنا ریونیو بھی اکٹھا نہیں کر پا رہے‘ جس سے ہمارے غیر ترقیاتی اخراجات پورے ہو سکیں۔غیر منطقی ٹیکس پالیسیوں اور غیر منصفانہ ود ہولڈنگ ٹیکسز کے باوجود ٹیکس جی ڈی پی تناسب بڑھانے میں ناکامی کا سامنا ہے۔
ملک کی کل درآمدات پر اٹھنے والے اخراجات کا ایک تہائی صرف پٹرولیم پروڈکٹس پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 16.5ڈالر کی بلند سطح سے گر کر 3.1ارب ڈالر تک آ گئے ہیں۔ اس کے باوجود کسی بھی حکومت نے قابل بھروسہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی تکمیل کی زحمت گوارا نہیں کی تاکہ پٹرولیم پروڈکٹس کی درآمد میں کمی کی جا سکتی۔ ایف بی آر ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے کافی حد تک درآمدی ڈیوٹی پر انحصار کرتا ہے۔ اس لیے غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی لگانے کے لیے سیاسی عزم کا فقدان ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ٹیکس ریونیو کم ہو جائے گا اور حکمرانوں کی آسودگی کے لیے درکار فنڈز کم پڑ جائیں گے۔ غیر منصفانہ ٹیکس نظام کے پاکستانی معاشرے پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔امیر ترین 10فیصد افراد کے پاس ملکی آمدنی کا 31.47فیصد ہے جبکہ 1998ء میں ان کے پاس 25.29فیصد تھا۔اس وقت غریب ترین 10فیصد کے پاس کل آمدنی کا صرف 2.29فیصد ہے جبکہ 2006ء میں ان کا حصہ 4.32فیصد تھا۔امتیازی ٹیکس نظام کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ جی ڈی پی میں انکم ٹیکس کا حصہ مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے حالانکہ انکم ٹیکس کی مد میں کئی بالواسطہ ٹیکسوں اورصَرفی ٹیکسوں سے حاصل ہونے والاریونیو بھی شمار کر لیا جاتا ہے۔2004-5ء میں جی ڈی پی میں انکم ٹیکس کا حصہ 3.5فیصد تھا‘ جو گھٹ کر 2012-13ء میں صرف 2.1فیصد رہ گیا ہے۔ ایف بی آر کی 23ستمبر 2013ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے سرسری جائزے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ٹیکس ریونیو حاصل کرنے کے لیے بالواسطہ ٹیکسوں پر 85فیصد تک انحصار کیا جاتا ہے جس کا سارا بوجھ غریب اور محروم طبقات کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔اعداد و شمار کی شعبدہ بازی سے ان حقائق پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور کئی بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے ریونیو کو انکم ٹیکس سے حاصل ہونے والے ریونیو کی مد میں شمار کر لیا جاتا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں پر بھاری انحصار براہ راست غربت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔حکمران اشرافیہ کے وہ افراد جن کے پاس دولت کے انبار ہیں‘ ان سے ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا اور ٹیکس کا سارا بوجھ غریب اور متوسط طبقات پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس طرح ٹیکس نظام کو منصفانہ بنانے کے بنیادی مقصد کی نفی کی جاتی ہے۔ امرا اور طاقتور طبقوں سے ٹیکس وصول کرنے کے سلسلے میں پائی جانے والی ہچکچاہٹ اور ان کو ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات سے نوازنے کی وجہ سے ملکی معیشت اور عوام کی معاشی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ایف بی آر کو قوم کو بتانا چاہیے کہ ملکی آبادی کے امیر ترین10فیصد افراد نے کتنا ٹیکس ادا کیا ہے۔ یہ بھی بتایا جائے کہ ان متمول افراد نے ٹیکس ادا کئے بغیر کروڑوں /اربوں کے کتنے مفت پلاٹ حاصل کئے۔ یہ بھی واضح کیا جائے کہ انہیں انکم ٹیکس آرڈی ننس 2001ء کے مطابق نوٹس جاری کرنے میں کیا رکاوٹ تھی۔پارلیمینٹ میں آنے والے ایسے سیاستدان‘ جن کی آمدنی قابل ٹیکس ہے اور انہوں نے قانون کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کیا‘ ایف بی آر ان سے ٹیکس وصول کرنے سے کیوں ہچکچا رہا ہے۔
بلا شبہ موجودہ ٹیکس پالیسیاں ‘معیشت ‘سماجی انصاف ‘کاروبار اور انڈسٹری کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ملک کے دولت مند اور طاقتور افراد نے بیرون ملک اربوں روپے کی رئیل اسٹیٹ خرید رکھی ہے۔ ان کے اربوں روپے کے اثاثے ہیں‘ جس پر انہوں نے کبھی ٹیکس ادا نہیں کیا اور بیرون ملک سرمایہ کاری کر رکھی ہے جبکہ حکومت پرانے قرض کی خدمت کے سلسلے میں اپنی عالمی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے نیا قرض حاصل کرنے کے لیے دربدر ٹھوکریں کھا رہی ہے۔بلند مالیاتی خسارے اور لگاتار بڑھتے ہوئے قرض کی وجہ سے کلیاتی معیشت عدم توازن کا شکار ہے۔ اس لیے نہ تو عوام کو کوئی قابل ذکر ٹیکس ریلیف دیا جا سکتا ہے‘ نہ ہی معاشی ترقی کی شرح نمو میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس منحوس چکر سے نکلنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے امرا سے ان کی استعداد کے مطابق ٹیکس وصول کرنا ہو گا۔غیر پیداواری اخراجات میں بڑی کمی کرنا ہو گی۔ ملکی پیداواری گنجائش میں اضافہ کرنا ہو گا۔ صنعتی سیکٹر کی پیداوار بڑھا کر تیز رفتار معاشی ترقی حاصل کی جا سکے گی‘ منصفانہ ٹیکس نظام کے ذریعے غریب عوام کی مشکلات میں کمی کرنا حکومت کا فرض ہے۔