متعدد حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی اور بُری حکمرانی کی وجہ سے ہماری معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بچتوں‘ سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کی شرح نمو نہایت پست ہے۔معیشت میں زر کا پھیلائو بڑھ رہا ہے اور افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے پہلے چھ ماہ میں بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کا 2.5فیصد رہا۔ جاری ادائیگیوں کا خسارہ 1.5ارب ڈالر ہوچکا ہے جو اس سال کے ہدف (600ملین)سے 175فیصد زیادہ ہے۔ ایف بی آر پچھلے کئی سالوں سے ٹیکس ریونیو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سال رواں کے پہلے چھ ماہ میں بھی ہدف سے 70ارب روپے کم ٹیکس ریونیو حاصل ہوا۔ اس لیے بجٹ میں دیے گئے ٹیکس ریونیو کے ہدف 2475ارب روپے میں 130ارب کمی کر کے 2345ارب روپے مقرر کیا ہے۔ حکومت بجٹ اور بیرونی ادائیگیوں کے رخنے پورے کرنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی ذرائع سے قرض لینے پر انحصار کر رہی ہے۔حکومت نے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ایک ٹریلین روپے کا قرض لیا۔ پبلک قرض 17ٹریلین ہو چکا ہے۔ اس سال ٹیکس ریونیو کا 66فیصد قرضوں کی خدمت پر خرچ ہو جائے گا۔ بے روزگاری میں اضافہ ہو چکا ہے۔ملکی آبادی کے 54فیصد افراد غربت کا شکار ہیں۔ غریب اور امیر کے درمیان خلیج مسلسل وسیع ہو رہی ہے۔
ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے کثیر مدتی مستقل اور جامع معاشی پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔عارضی اور سطحی اقدامات سے ان مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔حکومت سے توقع تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ سابق حکومتوں کی پالیسیوں کو نہیں دہرائے گی او ر اپنے ابتدائی دور میں ہی بنیادی معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد کا آغاز کر دے گی‘ جن کے مثبت اثرات تین چار سال میں برآمد ہونا شروع ہو جائیں گے اور 2018ء تک معیشت میں کافی سدھار آ چکا ہوگا‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے عارضی اور سطحی پیچ ورک پر انحصار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسی لیے ملکی اور غیر ملکی ذرائع سے قرض لے کر بجٹ اور بیرونی ادائیگیوں کے بڑھتے ہوئے رخنے پورے کر رہی ہے۔معیشت کی بحالی کے لیے درکار مشکل اور غیر مقبول پالیسی فیصلے لینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔
اقتدار میں آنے کے فوراً بعد حکومت کی تمام تر توجہ بیرونی ادائیگی کے سلسلے میں درپیش امکانی نادہندگی سے بچنے پر رہی ہے۔ اگر پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا تو عالمی برادری سے ہمارے تجارتی تعلقات متاثر ہوتے اور بیرونی وسائل کی آمد پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے۔ اس سے آئی ایم ایف کے لیے مشکلات پیدا ہوتیں اور اس کے پرانے قرضوں کی واپسی خطرے میں پڑ جاتی‘ جو پاکستان نے 2013ء اور 2014ء میں ادا کرنے تھے‘ اس لیے بیرونی ادائیگیوں کے بحران پر قابو پانا دونوں کے مفاد میں تھا۔ اسی لیے آئی ایم ایف نے پاکستان کو ای ایف ایف کے تحت 16.8ارب ڈالر کا قرض دینے سے اتفاق کر لیا‘ جس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو اتنے بیرونی وسائل مل جائیں جن سے وہ آئی ایم ایف کے پرانے قرض کا بڑا حصہ واپس کر سکے اور باقی ماندہ رقم کی واپسی کی مدت بڑھا دی جائے۔ عام طور پر ای ایف ایف معیشت کے دیرپا سٹرکچرل مسائل پر قابو پانے کے لیے دیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف نے ای ایف ایف کی لازمی شرائط کو پس پشت ڈالتے ہوئے سٹینڈ بائی پیکیج قسم کے پروگرام کی منظوری دے دی‘ حالانکہ ماضی میں ایسے پروگرام نتیجہ خیز نہیں ہو سکے تھے اور وقت سے پہلے ہی ختم کر دیے گئے تھے۔ حکومت کے لیے یہ اچھی ڈیل تھی کیونکہ اس کی بدولت سٹرکچرل ریفارمز سے جان چھوٹ گئی‘ جو مفاد پرست طبقات کو قبول نہیں تھیں‘ بیرونی ادائیگیوں کا بحران ایف ایکس مارکیٹ سے ڈالر خرید کر ٹال دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بجٹ خسارے کے رخنے پورے کرنے کے لیے بنکاری نظام سے بھاری قرض لیا گیا۔اس پروگرام کی شرائط پر عملدرآمد سے افراط زر بڑھے گا۔ معاشی ترقی کی شرح نمو پست رہے گی اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن کے رخنے پورے کرنے کے لیے بیرونی ذرائع سے قرض لیا جائے گا۔ اس پروگرام میں ایسی کسی بھی پالیسی پر عملدرآمد کی شرط نہیں ہے‘ جس سے بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں پائے جانے والے بنیادی عدم توازن پر قابو پایا جا سکے۔ اس پروگرام کے آغاز سے ہی افراط زر میں اضافہ ہونا شروع ہو چکا ہے۔
ان ناموافق معاشی حالات کے تناظر میں آئی ایم ایف نے پروگرام پر عملدرآمد کے سلسلے میں پہلا سہ ماہی جائزہ لیا اور مشکوک اعداد و شمار کی بنیاد پر اعلان کر دیا کہ پروگرام کے اکثر اہداف حاصل کر لیے گئے ہیں‘ اور زرمبادلہ کے ذخائر کا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی کے سلسلے میں رعایت دے دی تاکہ حکومت کو مالیاتی آسودگی کا سرٹیفکیٹ مل جائے اور وہ دوسرے ڈونر ممالک اور عالمی اداروں سے مزید قرض حاصل کر سکے‘ جس کی مدد سے آئی ایم ایف کے قرض کی واپسی ممکن ہو سکے۔ آئی ایم ایف نے دوسری سہ ماہی کا جائزہ بھی کامیابی سے مکمل کر لیا ہے اور حکومتی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا ہے باوجود اس کے کہ جاری ادائیگیوں کا خسارہ بھی ہدف سے زیادہ ہے اور اس عرصے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ تیسری سہ ماہی کے جائزے کے بعد بھی حکومتی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دے دیا جائے گا اور ای ایف ایف کی تیسری قسط بھی جاری کر دی جائے گی۔ اس وقت تک آئی ایم ایف کے قرض کا بڑا حصہ واپس کیا جا چکا ہو گا اور آئی ایم ایف کو اپنے قرض کی نادہندگی کی فکر نہیں ہو گی لیکن تب تک ہمارے ملکی اور غیر ملکی قرض کے سروس چارجز میں تیزی سے اضافہ ہو چکا ہو گا۔بجٹ کے اہداف پورے نہیں ہو سکیں گے اور بیرونی ادائیگیوں کے خسارے میں اضافہ ہو جائے گا۔ افراط زر بھی 10فیصد سے تجاوز کر جائے گا۔ بچتیں‘ سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کی شرح پست رہے گی اس وقت آئی ایم ایف کمر کسنے اور دیگر شرائط پر عملدرآمد پر اصرار کرے گا۔ اگر حکومت ان مشکل شرائط پر عملدرآمد سے قاصر رہی تو اس پروگرام کو وقت سے پہلے ہی ختم کر کے باقی قسطیں جاری کرنے سے انکار کر دیا جائے گا۔ انہی دنوں نیٹو کی افواج افغانستان سے واپس جا رہی ہوں گی اور ان کے لیے پاکستان کی اہمیت کم ہو چکی ہو گی۔ اس طرح پاکستان کو آئی ایم ایف میں نیٹو ممالک کی جو حمایت حاصل تھی وہ کم ہو جائے گی۔ اس سے معاشی صورتحال بہت پیچیدہ ہو جائے گی۔ معاشی بحران گہرا ہو سکتا ہے۔ہمیں آئی ایم ایف اور اس کے بڑے شیئر ہولڈرز کی حمایت بھی حاصل نہیں ہو گی۔ بیرونی قرض سے پیدا ہونے والی مشکل صورتحال کا تقاضا تھا کہ سٹرکچرل ریفارم پر عملدرآمد کیا جاتا‘ جس سے کچھ عرصے بعد مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو جاتے اور اس عرصے میں کچھ وقت کے لیے عالمی برادری سے مالی امداد حاصل کی جاتی‘ تاکہ کچھ مہلت مل جاتی۔ اسی طرح بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے ہر قسم کی آمدنی کو ٹیکس نیٹ میں لا کر ٹیکس ریونیو میں اضافہ کیا جانا چاہیے تھا۔ صارفی ٹیکس نافذ کرنے کے لیے معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے تھی۔ ٹیکس ایڈمنسٹریشن کی کارکردگی میں اضافہ اور ٹیکس چوری پر قابو پا کر ٹیکس جی ڈی پی تناسب بڑھانا چاہیے تھا۔بینکاری نظام اور بیرونی قرض پر انحصار کرنے کی بجائے ملکی وسائل میں اضافہ کرنا چاہیے ۔حکومت کی معاشی ٹیم نے طویل مدتی مستقل پالیسی فریم ورک تیار کرنے سے گریز کیا ہے۔ حکومت اپنے منشور اور وعدوں کے برعکس بجٹ سپورٹ اور بیرونی ادائیگیوں کے خسارے پورے کرنے کے لیے بیرونی ذرائع سے قلیل مدتی قرض پر انحصار کر رہی ہے اور بینکاری نظام سے بھی بھاری قرض حاصل کر رہی ہے‘ لیکن ان مسائل کے حل کے لیے درکاری سٹرکچرل اصلاحات سے پہلو تہی کر رہی ہے۔معیشت کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ پالیسی ریفارم ایجنڈے پر عملدرآمد کیا جائے ۔ معاشی ترقی کی شرح نمو میں اضافے کے لیے بچتوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔ افراطِ زر کم کرنے کے لیے زر کے پھیلائو میں کمی کی جائے۔ اشیائے تعیش کی درآمد پر پابندی اور برآمدات میں اضافہ کر کے تجارتی خسارہ کم کیا جائے اور براہ راست پرائیویٹ سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔بجٹ سپورٹ کے لیے ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کیا جائے۔معیشت کو ڈاکو منٹ کر کے متوازی معیشت کا خاتمہ کیا جائے اس سلسلے میں ابھی تک حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔معاشی مسائل پچھلے تیس سالوں کی بدانتظامی اور بری حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہوتے رہے ہیں۔ان کے حل کے لیے مشکل اور غیر مقبول فیصلے لینا پڑیں گے۔