سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 15مارچ کو نئی زری پالیسی کا اعلان کیا اور کاروباری برادری کی توقعات کے برعکس پالیسی ریٹ میں کسی تبدیلی کے بغیر 10فیصد سالانہ کی شرح پر برقراررکھا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے فیصلے کے جواز میں کہا ہے کہ اگرچہ پچھلے چند ماہ میں کچھ مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن معیشت کی بنیادی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے یہ کافی نہیں‘ اس کے لیے سٹرکچرل پالیسی اصلاحات پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے زری پالیسی بیان میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پچھلے چند ماہ میں اکثر کلیاتی معاشی مظاہر میں بہتری کے آثار نہیں۔ افراط زر میں کمی ہوئی۔ بڑے پیمانے کی مینو فیکچرنگ میں 6.7فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی۔ مالیاتی خسارہ پہلی ششماہی میں ہدف سے بڑھا نہیں اور پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے۔ روپے کی قدر میں تقریباً 6فیصد اضافہ ہوا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا۔ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں توقع سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔ فروری میں افراط زر کی شرح 7.9فیصد تک نیچے آگئی‘ اس لیے افراط زر بجٹ میں دیئے گئے ہدف یعنی 8فیصد سے نیچے رہنے کا قوی امکان ہے۔ تاہم سٹیٹ بینک آف پاکستان کا خیال ہے کہ معیشت کو ابھی بڑے چینلجز درپیش ہیں اس لیے موجودہ رجحان کو جاری رکھنے کے لیے سخت پالیسی اقدامات کرنے ہوں گے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 4.8ارب ڈالر کے قریب ہیںاور صرف پانچ ہفتوں کی درآمدات کے اخراجات ہی پورے کرسکتے ہیں۔ ان کو معقول سطح تک جمع کرنے کے لئے بڑی محنت کرنی ہوگی۔
جاری مالی سال کے پہلے سات ماہ میں جاری ادائیگیوں کا خسارہ 2.5ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ اس سال کی چوتھی سہ ماہی میں متوقع بیرونی وسائل کی آمد
سے ہی بیرونی سیکٹر میں بہتری آسکتی ہے لیکن اس کا انحصار چند پالیسی ایکشن پر ہوگا۔جو بیرونی وسائل (1.5ارب ڈالر)تحفے یا قرض کی صورت میں ملے ہیں، ان سے کچھ عرصے کے لیے تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے لیکن پائیدار اور طویل مدتی استحکام کے لیے بیرونی پرائیویٹ وسائل کی آمد میں اضافہ ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح تجارتی خسارہ کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ملکی برآمدات کی مسابقتی پوزیشن میں بہتری لاکر برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور ملک کے انرجی سیکٹر میں تیل کا استعمال کم کرکے درآمد پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کرنا ضروری ہے۔ بجٹ میں دیئے گئے اہداف حاصل کرنے کے لیے ایس بی پی سے قرض وصولیوں میں کمی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر متوقع بیرونی وسائل مل گئے تو اس سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر میں معقول اضافہ ہوجائے گا بلکہ زری اعشاریے بھی قابو میں رہیں گے۔ سٹیٹ بینک کو اس دفعہ بہت ہی محتاط رویہ اپنانا چاہیے تھا تاکہ طویل مدتی استحکام کے لیے کلیاتی معاشی مظاہر میں توازن برقرار رکھ کر مناسب زری پالیسی بناسکے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پالیسی ریٹ کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے یا اس میں کمی کرنے کے سلسلے میں ایک جیسا جواز تھا۔ حالیہ دنوں میں قیمتیں قدرے مستحکم رہی ہیں۔ سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں اور بہت ہی مختصر عرصے میں روپے کی قدر میں 7فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
معیشت کے بارے میں کاروباری افراد میں مثبت رجحان پایا جارہا ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے مارکیٹ میں توقع کی جارہی تھی کہ پالیسی ریٹ میں کمی کا جواز ہے ،تاہم ایسا لگتا ہے کہ سٹیٹ بینک ان کلیاتی معاشی مظاہر میں پائے جانے والے مثبت رجحان کے جاری رہنے کے بارے میں مطمئن نہیں تھا‘ اس لیے اس نے پالیسی ریٹ میں کمی کرنے کی بجائے '' دیکھو اور انتظار کرو ‘‘ کی پالیسی کو ترجیح دی ہے۔ زری پالیسی بیان کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکومت زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں اضافے پر ڈینگیں مار رہی ہے اور اس طرح جشن منارہی ہے جیسے بیرونی سیکٹر کے تمام مسائل حل ہوگئے ہوں لیکن سٹیٹ بینک کو اس پر بھروسہ نہیں‘ اس لیے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ بیرونی سیکٹر کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے پالیسی اصلاحات پر عملدرآمد ضروری ہے‘ یہ بھی کہا ہے کہ 1.5ارب ڈالر موصول ہونے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر حکومت سٹیٹ بینک سے قرض لینے میں کمی نہیں کرتی تو زر کے پھیلائو میں کمی کے اہداف حاصل کرنا ممکن نہ ہوگا۔ سٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ برقرار رکھ کر صحیح فیصلہ کیا ہے اور حکومت کو خبردار کیا ہے کہ بجٹ سپورٹ کے لیے سٹیٹ بینک کے قرض پر کم انحصار کرے کیونکہ افراط زر کا دبائو ابھی کم نہیں ہوا اور بیرونی سیکٹر کی صورت حال میں ابھی اتنی بہتری نہیں آئی کہ پالیسی ریٹ میں کمی کا جواز بن سکے۔
چند عارضی نوعیت کے عوامل کی وجہ سے زری پالیسی کو نرم کرنا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہوتا۔ مئی کے مہینے میں زری پالیسی کا جائزہ لیتے وقت اندازہ ہوجائے گا کہ یہ عوامل کتنے پائیدار ہیں۔ سٹیٹ بینک نے چند دیگر عوامل کاذکر نہیں کیا جو زری پالیسی پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں‘ جیسا کہ روپے کی قدر میں اضافے سے قیمتوں میں تو کمی کا امکان ہے لیکن اس کی وجہ سے برآمدات میں کمی اور درآمدات اور تجارتی عدم توازن اور جاری ادائیگیوں کے خسارے میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ زری پالیسی نرم کرنے سے صورت حال مزید خراب ہوسکتی تھی کیونکہ بچتیں کرنے والے بچتوں میں پیسہ لگانے کی بجائے سٹہ بازی اور دیگر اثاثوں پر خرچ کرنے کو ترجیح دیتے۔ ان عوامل کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا آغاز ہوجاتا۔ شرح سود کم ہونے کی وجہ سے بھی بچتوں میں کمی ہوتی اور سرمایہ کاری کے ماحول کودھچکا لگتا۔ پالیسی ریٹ کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ محتاط رویے کا نتیجہ ہے یا آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا
آئینہ دار ہے،اس سے قطع نظر اس سے کاروباری برادری بالخصوص ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان کو سخت پریشانی ہوئی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ روپے کی قدر میں اضافے سے جوفائدہ ہوا ہے پالیسی ریٹ میں کمی کرکے اس کا کچھ حصہ انہیں منتقل کیا جاتا۔ سٹیٹ بینک شاید کریڈٹ کی لاگت کم کرکے فی الفور کاروباری برادری کو منتقل نہیں کرنا چاہتا تھا یا اس کا خیال ہے کہ روپے کی قدر میں اضافے سے برآمد کنندگان کی مسابقتی پوزیشن میں زیادہ کمی نہیں ہوئی۔ بہرحال برآمد کنندگان کو مایوسی ہوئی ہے کیونکہ روپے کی قدرمیں اضافے سے ان کو اربوں روپے کانقصان ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ سٹیٹ بینک اپنی سابق کوتاہیوں کا مداوا کرنا چاہتا ہے۔ جب روپے کی قدر آٹھ دنوں میں 7فیصد بڑھ گئی تھی اور وہ خاموش رہا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سٹیٹ بینک مداخلت کرکے ڈالر خریدتا اور روپے کی قدر کو مستحکم ہونے دیتا تاکہ روپے کی قدر میں بتدریج اضافہ ہوتا۔ پالیسی ریٹ کو موجودہ سطح پر برقرار رکھ کر سٹیٹ بینک یہ سمجھ رہا ہے کہ روپے کی قدر میں موجودہ اضافہ عارضی ہے۔ جلد یا بدیر برآمدات میں کمی ہوگی‘ درآمدات بڑھیں گی‘ اس سے جاری ادائیگیوں کے خسارے اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوگا اور زرمبادلہ کے ذخائر دبائو میں آئیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ موثر ایکسچینج ریٹ جون 2013ء سے اب تک دس فیصد بڑھا ہے جبکہ 1.5ارب ڈالر ملنے کے بعد بھی زرمبادلہ کے ذخائر میں 25فیصد کمی ہوئی ہے۔ سٹیٹ بینک موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مستحکم ہونے کے بارے میں مشوش ہے۔ اگر پالیسی ریٹ میں کمی کی جاتی تو مجموعی طلب میں اضافہ ہوتا اور ادائیگیوں کے توازن کے لیے خطرات پیدا ہوجاتے ۔ اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں اضافے کارجحان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روپیہ اپنی حقیقی قدر سے اوپر ٹریڈ کررہا ہے اس لیے سٹیٹ بینک نے محتاط رویہ اختیار کیا ہے اور پالیسی ریٹ میں کوئی کمی نہیں کی۔