آئی ایم ایف کی جائزہ رپورٹ

پچھلے نو ماہ سے کلیاتی معاشی مظاہر میں قدرے بہتری آئی ہے۔ افراط زر کے دبائو میں کمی آئی جبکہ بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ کی ترقی کی شرح میں قابل ذکر اضافہ ہوا۔ مالیاتی خسارہ قابو میں رہا‘ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں اور روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق کاروباری افراد اور صارفین کے اعتماد میں بہتری آئی ہے۔ اسی طرح سابق حکومت نے جب 2008ء میں آئی ایم ایف سے 11 ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی پیکج کے تحت قرض لیا تھا تو اس کے چند ماہ بعد بھی اسی قسم کی بہتری کے آثار دیکھے گئے تھے۔ آئی ایم ایف نے ابتدا میں سابق حکومت کی کارکردگی کو بھی سراہا تھا‘ لیکن معاشی بحالی کا خواب بہت جلد ٹوٹ گیا۔ آئی ایم ایف نے سابق حکومت کو بار بار خبردار کیا تھا کہ سٹینڈ بائی پیکج کے ابتدائی مہینوں میں جو بہتری ہوئی ہے اسے جاری رکھنے کے لیے مالیاتی اصلاحات کی ضرورت ہے‘ لیکن سابق حکومت آئی ایم ایف سے طے شدہ ریفارم ایجنڈے پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہی اور سٹینڈ بائی پیکج چند اقساط کے بعد وقت سے پہلے ختم کر دیا گیا۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مالیاتی اصلاحات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
آئی ایم ایف نے دوسری سہ ماہی کی معاشی کارکردگی کا جائزہ 24 مارچ کو مکمل کر لیا اور 556.6 ملین ڈالر کی تیسری قسط جاری کر دی۔ اگرچہ پہلے چھ ماہ کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر اور سٹیٹ بینک آف پاکستان سے قرض لینے کی مقدار کے جو ہدف مقرر کئے تھے حکومت انہیں حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ آئی ایم ایف نے ان شرائط میں اس امید کے ساتھ نرمی کر دی کہ اگلی سہ ماہی میں ان اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ آئی ایم ایف نے اپنی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت نے معیشت کو سٹیبلائز کرنے کے سلسلے میں قابل تحسین پیشرفت کی اور چند اہم سٹرکچرل اصلاحات کا آغاز کیا ہے۔ مالیاتی خسارہ پہلے چھ ماہ کے ہدف سے بڑھا نہیں‘ لیکن ابھی تک جو مالیاتی بہتری ہوئی ہے‘ اس کے لیے ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص فنڈز میں کمی کی گئی ہے اور ٹیکس اصلاحات نہیں کی گئیں۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے؛ تاہم چند ابتدائی توصیفی کلمات کے بعد آئی ایم ایف نے معیشت کی کارکردگی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور نہایت کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ ای ایف ایف پروگرام کو جاری رکھنے اور معیشت کی بنیادی خامیوں پر قابو پانے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ معیشت کو ابھی بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنے‘ ٹیکس ایڈمنسٹریشن کی کارکردگی میں بہتری لانے اور ٹیکس چوری پر قابو پانے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے۔ دسمبر 2013ء میں سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کے لیے جو ٹیکس ایمنسٹی سکیم شروع کی گئی‘ وہ ٹیکس نیٹ وسیع کرنے اور ٹیکس مشینری کی کارکردگی بہتر بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پبلک قرض کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے بھی بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے ایکسچینج ریٹ کو مزید لچکدار بنانا اور پالیسی ریٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔ مالیاتی سیکٹر کو درپیش خطرات پر قابو پانے کے لیے پالیسی اصلاحات پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ کمرشل بینکوں کے نان پرفارمنگ قرضہ جات میں کمی لانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ علاوہ ازیں گیس کے ٹیرف میں اضافہ کرنا اور انرجی سیکٹر کے ریگولیٹری نظام کو مضبوط بنانا ہو گا۔ حکومتی کنٹرول میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کے عمل میں تیزی لانی ہو گی۔ کاروباری ماحول کو سازگار بنانے اور تجارتی پالیسیوں میں بہتری لانے کے لیے اعلیٰ پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہو گی۔ ملکی آبادی کے محروم اور غیرمحفوظ طبقات کو کیش منتقل کرنے کے اہداف میں لغزش نہیں ہونی چاہیے۔ ای ایف ایف پروگرام کی تیسری قسط کا اجرا ملک کے لیے بہت سود مند ہو گا۔ اس سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا بلکہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو پیغام جائے گا کہ اس پروگرام پر مثبت پیشرفت جاری ہے۔ آئی ایم ایف سے حکومتی پالیسیوں کی منظوری کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں اور دیگر ڈونرز کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے سلسلے میں حوصلہ افزائی ہو گی۔ اس سے معیشت کی ترقی کے امکانات بڑھ جائیں گے اور حکومت ای ایف ایف پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے طے شدہ ریفارم ایجنڈے پر عملدرآمد کے سلسلے میں زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کرے گی۔ بلاشبہ ملکی آبادی کی اکثریت کے معیار زندگی میں بہتری لانے اور پائیدار معاشی ترقی کے حصول کے لیے اسی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ 
آئی ایم ایف کے پیکیج کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ریفارم ایجنڈے پر عملدرآمد کے دوران جو مشکلات پیش آئیں‘ آئی ایم ایف کچھ وسائل مہیا کر کے ان کا بوجھ کم کر دے تاکہ ملک نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے بلکہ آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرض بھی معینہ مدت میں واپس ہو جائے۔ اسی لیے آئی ایم ایف نے اپنی جائزہ رپورٹ میں حکومت کو یاد دہانی کرائی ہے کہ وہ کئی اصلاحات سے روگردانی کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا بورڈ مالیاتی صورت حال سے مطمئن نہیں۔ اس نے پبلک قرض کے بندوبست‘ زری پالیسی‘ سٹیٹ بینک کی خود مختاری کے لیے قانون سازی نہ کرنے‘ مالیاتی خسارے کی صورتحال‘ انرجی سیکٹر کے ریگولیٹری فریم ورک‘ حکومتی کنٹرول میں چلنے والے اداروں کی نجکاری، تجارتی پالیسیوں اور کاروباری ماحول کو سازگار نہ بنانے کے سلسلے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ مخصوص طبقات کو کیش ٹرانسفر کرنے اور ٹیکس نظام میں شفافیت نہ لانے کے سلسلے میں بھی حکومتی کارکردگی غیرتسلی بخش قرار دی گئی ہے۔ عام طور پر اگر کوئی ملک اتنی زیادہ پالیسی اصلاحات پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہے تو آئی ایم ایف نہایت سخت الفاظ میں حکومت کی سرزنش کر دیتا ہے اور قرض کی بقیہ اقساط جاری کرنے سے انکار کر دیتا ہے لیکن پاکستان کے بارے میں اس نے نہ صرف پروگرام پر عملدرآمد کے سلسلے میں پائی جانے والی کمزوریوں کو نظر انداز کر دیا ہے بلکہ کارکردگی معیار پر پورا نہ اترنے سے بھی چھوٹ دے دی ہے۔ اس کی وجہ آئی ایم ایف کا ہمدردانہ رویہ اور یہ امید ہے کہ پاکستان پروگرام کی اگلی مدت میں اپنی کارکردگی میں بہتری لائے گا‘ لیکن آئندہ آئی ایم ایف سے اس قسم کے نرم رویے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ وہ عام طور پر پروگرام سے منسلک شرائط پر عملدرآمد نہ ہونے کو آسانی سے برداشت نہیں کرتا‘ اور کسی بھی بہانے سے پروگرام کینسل کر سکتا ہے۔ اس کے معیشت پر بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ آئی ایم ایف کے بڑے شیئر ہولڈرز امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مثبت رویے کا انحصار کئی معاشی اور غیرمعاشی عوامل پر ہو گا۔ حکومت کا فرض ہے کہ ریفارم ایجنڈے پر مکمل عملدرآمد کرے کیونکہ اس کے بغیر بیرونی وسائل کی آمد ممکن نہ ہو گی۔ دوست ملک کی طرف سے 1.5 ارب ڈالر ملنے اور مزید بیرونی وسائل کی آمد سے زرمبادلہ کے ذخائر میں جو اضافہ ہو گا، اس سے حکومت کو اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ معیشت نے معاشی ترقی کے سفر کا آغاز کر دیا ہے اور سٹرکچرل کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے مزید کوشش کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کی سوچ سے مستقبل میں بہت مشکلات پیدا ہوں گی‘ بالخصوص جب مختلف ذرائع سے حاصل کئے گئے قرض کی واپسی کا مرحلہ آئے گا۔ ریفارم ایجنڈے پر عملدرآمد جاری رہنا چاہیے۔ بے شک اس سے وقتی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ‘ لیکن یہ جاری رہنا چاہیے۔ آئی ایم ایف کے نرم رویے کی وجہ سے زری اور مالیاتی پالیسیوں میں نرمی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ روپے کی قدر میں اضافے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ سٹرکچرل رکاوٹوں کو دور کرنے‘ سکیورٹی اور انرجی کی صورت میں بہتری اور ملکی اور بیرونی پرائیویٹ سرمایہ کاری میں اضافے سے ہی معاشی ترقی کا عمل برقرار رکھا جا سکے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں