ٹیکس چوری کی حقیقت

پاکستان کا ٹیکس جی ڈی پی تناسب 1980ء کی دہائی میں 13فیصد تھا۔ جو 2012-13ء میں گر کر 9فیصد کی پست ترین سطح سے بھی کم ہو گیا ہے۔مالی وسائل کی کمیابی کی وجہ سے ملک کی سماجی خدمات گراوٹ کا شکار ہیں اور انفراسٹرکچر شکستہ اور چور چور۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور سماجی خدمات میں بہتری لانے کے لیے کثیر مالی وسائل کی ضرورت ہے ۔ موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ آئندہ پانچ سالوں میں ٹیکس جی ڈی تناسب کو 15فیصد تک بڑھائے گی۔ سال رواں میں ٹیکس جی ڈی پی تناسب میں کم از کم ایک فیصد اضافے کا ہدف تھا۔اس مقصد کے لیے حکومت نے سیلز ٹیکس بڑھایا‘ انکم ٹیکس کی بلند ترین سلیب میں 10فیصد اضافہ کیا اور ود ہولڈنگ ٹیکسوں کی شرح بڑھائی۔ اس کے باوجود ٹیکس جی ڈی پی تناسب میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہو سکے گا۔ وجہ یہ ہے کہ معیشت کے وہ بڑے سیکٹر‘ جو ٹیکس ریونیو میں اضافہ کر سکتے ہیں‘ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ن لیگ کے اقتدار میں آنے سے پہلے کچھ لوگوں نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان میں ٹیکس لاز کے بھرپور نفاذ کا بہت کم امکان ہو گا کیونکہ ن لیگ نے اپنے سابق ادوار میں بھی تاجروں کی دلجوئی کی ہر ممکن کوشش کی تھی اور ٹیکس چوروں کو تحفظ فراہم کیا تھا۔
یہ پیش گوئی 23ستمبر کو صحیح ثابت ہوئی‘ جب وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ تاجروں کے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ اس کے بعد ٹیکس ریٹرنز فائل نہ کرنے والوں کے لیے خود وزیر اعظم نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر دیا۔اس سے ایف بی آر کی اتھارٹی کو مزید دھچکا لگا۔حسب سابق تاجر برادری نہ تو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کو تیار ہے‘ نہ ہی سیلز ٹیکس ادا کرنا چاہتی ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں سٹیک ہولڈرز نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ 21مارچ تک صرف 3000لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور انہوں نے کل 88ملین روپے ادا کیے۔ تاجر برادری کے مایوس کن رویے کی وجہ سے یہ سکیم ناکام ہو گئی جس کے بعد اس کا دورانیہ 28فروری سے 30اپریل تک بڑھا دیا گیا‘ لیکن تاجر حضرات نے مثبت ردعمل ظاہر نہ کیا۔ ملک میں ٹیکس کلچر پروان نہ چڑھ سکا۔بڑے بڑے اداروں اور متمول افراد کے پاس دولت کے انبار ہیں‘ لیکن وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے اور ٹیکس چوری کر کے کروڑوں /اربوں روپے بچا لیتے ہیں۔ امراء اور طاقتور افراد اپنے اربوں روپے مالیت کے اثاثے بیرون ملک رکھتے ہیں۔الیکشن کے موقع پر تاجر اور دیگر کاروباری افراد اپنی پسندیدہ پارٹی اور سیاستدانوں کو دل کھول کر چندہ دیتے ہیں ۔سیاستدان الیکشن میں کامیاب ہو کر ان کو ٹیکس ایمنسٹی اور ایس آر اوزکے ذریعے اربوں روپے کا فائدہ پہنچاتے ہیں۔ دونوں مل کر ٹیکس چوری سے اربوں روپے بٹور لیتے ہیں اور اس کا بڑا حصہ بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں۔ تاجر اور دیگر کاروباری افراد پاکستان اور دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں اربوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ وہ یا تو سرے سے انکم ٹیکس دیتے ہی نہیں یا برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق انکم ٹیکس میں تاجروں کا حصہ صرف 0.5فیصد اور سیلز ٹیکس میں ایک فیصد ہے۔غیر حاضر لینڈ لارڈز کی طرح تاجر بھی برائے نام ٹیکس دیتے ہیں تاہم وہ اپنے اثرورسوخ اور سیاسی حمایت کی وجہ سے ایف بی آر کی گرفت میں نہیں آتے۔حکمران اکثر تاجروں کی شٹر ڈائون کی دھمکیوں اور احتجاج سے خوف زدہ ہو کر ان کے مطالبات مان لیتے ہیں‘ اسی لیے ٹیکس لاز ترامیم سے بھرے پڑے ہیں۔فوجی اور سول حکومتیں ٹیکس چوروں کو ایمنسٹی سکیموں کے ذریعے کالا دھن سفید کرنے کے مواقع مہیا کرتی ہیں جیسا کہ 1970ء کی دہائی میں سیلف اسیسمنٹ سکیم اور سپیشل نیشنل فنڈ بانڈز اور 1980ء کی دہائی میں سمپلیفائڈ سیلف اسیسمنٹ سکیم اور فارن کرنسی اکائونٹ اور 1990ء کی دہائی کے فارن ایکسچینج بیئرر سرٹیفکیٹ اور کئی استثنائی سکیمیں اور انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق 114وغیرہ ۔سوال پیداہوتا ہے کہ تاجر انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے اور سیلز ٹیکس ادا کرنے سے کیوں گریزاں رہتے ہیں۔ اس سوال کا کوئی شافی جواب نہیں کیونکہ اس کے کئی عوامل ہیں۔ ان میں چند ایک دنیاوی ہیں اور دیگر ملا کریسی کے پیدا کردہ ہیں۔ اسلام میں ذخیرہ اندوزی اور دولت کے ارتکاز کو منع کیا گیا ہے لیکن اس کے برعکس تعلیم دی جاتی ہے۔ نتیجتاً تاجر تمام سماجی اور اخلاقی اقدارکو بالائے طاق رکھ کر دولت جمع کرنے کے خبط میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور غذائی اشیاء میں ملاوٹ کرنے‘ ناپ تول میں ڈنڈی مارنے‘ گھٹیا اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت‘ گاہکوں سے دھوکہ دہی‘ حکومتی اور تجارتی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے اور ٹیکس چوری میں ملوث ہونے کو غیر اخلاقی اور غیر پروفیشنل نہیں سمجھا جاتا۔پیسہ جس طریقے سے بھی آتا ہے اسے جائز سمجھا جاتا ہے۔ ٹیکس ادا نہ کرنے کے بارے میں تاجروں کو متعلقہ حکام کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے۔ تاجر رسمی عبادات کی پابندی کو تو لازمی سمجھتے ہیں لیکن قومی ذمہ داریوں اور عوام کے حقوق کے سلسلے میں اتنی گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔جو تاجر ٹیکس چوری میں ملوث ہوتے ہیں وہ مساجد اور مدارس کو بڑے بڑے عطیات دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان نیک کاموں کی وجہ سے وہ آخرت میں سرخرو ہوں گے اور جنت کے حق دار ٹھہریں گے۔ 
پاکستان میں ٹیکس چوری ایک بھیانک حقیقت ہے۔ریاست اپنی ذمہ داریوں کی بجا آوری سے قاصر ہے۔ نہ تو عوام کی جان و مال محفوظ ہے اور نہ ہی وہ عوام کو تعلیم ‘صحت ‘رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات بہم پہنچانے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ حکومتی اداروں کی نسبت مدارس زیادہ بچوں کو پرائمری تعلیم کی سہولت مہیا کر رہے ہیں۔زیادہ انرولمنٹ پرائیویٹ اداروں میں ہے اور مدارس کی انرولمنٹ میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ چند دہائیاں پہلے شہری اور سماجی فرائض کی ادائیگی‘ انسانیت کا احترام‘ قانون کی پاسداری‘ رواداری اور تحمل پرائمری سکول کے سلیبس کا لازمی حصہ ہوتے تھے۔ بدقسمتی سے اس کی جگہ خبطِ عظمت نے لے لی ہے۔ ضیاء الحق کے زمانے سے عام آدمی کی اخلاقی اقدار پر شدت پسندی والی سوچ غالب آ گئی ہے‘ جس میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا عارضی قیام گاہ ہے جہاں ملکی قوانین اور قواعد و ضوابط کی مزاحمت کرنا اتنی بڑی برائی نہیں۔لیکن ان کو چندہ نہ دینا ناقابل معافی گناہ ہے۔ وہ متمول افراد کو عوام کی فلاح کے لیے وقف ادارے قائم کرنے کی ترغیب نہیں دیتے‘ حالانکہ پہلے ادوار میں محروم طبقات کے لیے ایسے وقف ادارے قائم کرنے میں مسلمان معاشروں کا نمایاں مقام ہوتا تھا۔ ہمارے خصوصی حالات میں اس امر کی ضرورت ہے کہ حکومت عوام کی تعلیم و تربیت کا اہتمام اسی پلیٹ فارم سے کرے جسے نام نہاد مذہبی عناصر استعمال کرتے ہیں۔ مساجد حکومت کے کنٹرول میں ہونی چاہئیں اور تعلیم یافتہ افراد کے سپرد کی جانی چاہئیں جن کو معقول تنخواہ ملنی چاہیے۔ اکثر مسلمان ملکوں میں یہی ماڈل رائج ہے۔ پرائمری تعلیم مساجد سے شروع ہونی چاہیے۔ اس سے تعلیم یافتہ اور ہونہا ر نسل پیدا کرنے کے عمل کا آغاز کیا جا سکتا ہے‘ جس میں رواداری‘ تحمل‘ قانون کی اطاعت اور ملکی قواعد و ضوابط کا احترام کرنے کی تربیت دی جاسکے گی اور ذمہ دار شہریوں کے فرائض ادا کرنے کے رویے کی حوصلہ افزائی کی جا سکے گی۔ٹیکس ادا نہ کرنے کے سلسلے میں تاجر ملا گٹھ جوڑ اور مدارس کے لیے بھاری رقوم کے عطیات دینے کے معاملات پر کھلی بحث ہونی چاہیے۔ یہ ہمارے جمہوری سروائیول کے لیے انتہائی اہم ایشوز ہیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں