کچھ اچھی بُری خبریں

ترقی پذیر ممالک کی اکثر حکومتیں اپنی معاشی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہیں۔ہماری حکومت بھی اس سے مبرا نہیں، تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ معیشت کے بارے میں غیر یقینی صورت حال ختم ہوتی نظر آ رہی ہے اورپچھلے کچھ عرصے سے معیشت میں جو گراوٹ آ رہی تھی، وہ رک گئی ہے اور کلیاتی معاشی مظاہر میں بہتری کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔بڑے پیمانے کی مینو فیکچرنگ میں سرگرمی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں اور رواں مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں اس سیکٹر نے 6.8فیصد کی شرح سے ترقی کی ہے۔آئی ایم ایف نے پہلے سہ ماہی جائزے کے بعد پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 3فیصد کے قریب رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ اس پر نظر ثانی کی ہے اور اب اس کے 3.5اور 4.5فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قد ر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگلے بجٹ تک روپے کی قدر 100روپے فی ڈالر کے قریب مستحکم ہو سکتی ہے۔مالیاتی خسارہ ابھی تک کے ہدف سے تجاوز نہیں کر سکا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افراط زر بھی قابو میں رہا ہے۔اگرچہ جاری ادائیگیوں کا خسارہ بڑھ رہا ہے،لیکن ابھی تک یہ بھی جی ڈی پی کے ایک فیصد سے کم ہے اور ناقابل برداشت نہیں۔ جی ایس پلس کا سٹیٹس ملنے کی وجہ سے برآمدات میں قابل ذکر اضافے کی توقع ہے۔سعودی عرب سے 1.5ارب ڈالر کا تحفہ ملنے، ترسیلات زر میں بلند شرح اضافہ اور عالمی مارکیٹ میں بانڈز کی فروخت سے 2ارب ڈالر ملنے سے حکومت کو کچھ مہلت ملی ہے‘ اگرچہ یورو بانڈز پر یونان کی نسبت دوگنا منافع دینا پڑے گا۔ اس سے ملکی قرض پر کسی قدر کم انحصار کرنا پڑے گا اور پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کی فراہمی میں اضافہ ہو گا۔ ایس ای سی پی میں نئی کمپنیاں رجسٹر ڈہو رہی ہیں اور یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ٹیکس چوری میں ملوث افراد کے نام تو ظاہر نہیں کیے گئے لیکن ٹیکس ادا کرنے والوں کی ڈائریکٹری شائع کر دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ ایف بی آرکو ٹیکس ریونیو کا نظرثانی شدہ ہدف حاصل کرنے کے لیے بار بار ہدایت کر رہے ہیں۔ 
حکومت آئی ایم ایف کی اکثر شرائط پر عملدرآمد کرنے میں کامیاب رہی ہے۔آئی ایم ایف نے اپنے دونوں سہ ماہی جائزوں میں معیشت کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔کلیاتی معاشی مظاہر میں بہتری دکھانے کے لیے استعمال کیے گئے طریقہ کار سے اختلاف کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر خزانہ بڑی محنت اور تندہی سے کام کر رہے ہیں اور اس کوشش میں مصروف ہیں کہ معیشت کی بحالی کے لیے ن لیگ نے جو وعدے کیے تھے، ان پر کسی حد تک عملدرآمد کرا سکیں۔ 
بری خبر یہ بھی ہے کہ کلیاتی معاشی مظاہر میں بہتری کے جو آثار نمو دار ہو رہے ہیں،اس کے فوائد عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ روپے کی قدر میں اضافے سے جو فائدہ ہوا ہے،اس کی وجہ سے پٹرولیم پروڈکٹس کی قیمتیں کم کر کے عوام کو ریلیف پہنچایا جائے،لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ابھی تک کوئی کمی نہیں کی گئی۔18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سوشل سیکٹرز کی صوبوں کو منتقلی بغیر کسی تیاری اور ہوم ورک کے نہایت عجلت میں کی گئی تھی۔ فوڈ سکیورٹی کے بارے میں ڈبلیو ای او اور ایف اے او کی مشترکہ رپورٹ بیوروکریٹک رکاوٹوں کی وجہ سے ابھی تک شائع نہیں ہو سکی۔اس کے جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی آدھی آبادی فوڈ انسکیورٹی کا شکار ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان کی غذائی اشیاء کی پیداوار بڑھی ہے لیکن گرانی کی وجہ سے غریب اور محروم طبقات کی خوراک تک رسائی کم ہو رہی ہے۔ 
افراط زر اور روزگار کے مواقع کی کمی بھی بہت بڑے چیلنج ہیں۔مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے ملک کی کل آبادی اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں؛ تاہم عالمی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کل آبادی کے پچاس فیصد سے زیادہ ہے اور گرانی کی موجودہ لہر اور بے روزگاری کی وجہ سے ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور متوسط طبقہ یا مڈل کلاس تیزی سے سمٹ رہی ہے۔ اس وقت ملک میں دو کیٹگریز کے لوگ رہتے ہیں۔اقلیتی اشرافیہ جو ہر قسم کی مراعات سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہی ہے۔یہ لوگ ملک کے 90فیصد وسائل پر قابض ہیں،لیکن ٹیکس ادا کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں اور ملکی آبادی کی غالب اکثریت زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ 2008ء میں جب اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ شوکت عزیز حکومت نے غربت کے اعداد و شمار گھٹا کر دکھائے تھے‘ موسمی اورماحولیاتی تبدیلیوں سے ہماری معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ اس اہم ایشو کو ہم نے یکسر انداز کر رکھا ہے اور پاکستان کی کیبنٹ میں ماحولیات کی وزارت ہی نہیں، جو ماحولیاتی مسائل پر قابوپانے کے لیے حکمت عملی تیار کر سکے۔ اگر پاکستان پروٹیکشن بل مجوزہ شکل میں منظور ہو گیا تو یہ ایک اور بری خبر ہو گی۔ اس سے شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق کی نفی ہو گی اور این جی اوز کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔بالخصوص حکمرانی‘ جمہوریت اورانسانی حقوق کے دائرہ کار میں ان کی سرگرمیاں محدود کر دی جائیں گی۔ماحولیات کے اثرات کو نظر اندازکرنے اور انسانی حقوق پر قدغن لگانے سے جی ایس پلس سٹیٹس پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ 
مندرجہ بالا حقائق کے منفی اثرات بالکل عیاں ہوں گے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی حکمت عملی اپنائے، جس سے نہ صرف کلیاتی معاشی افزائش اور بالیدگی میں اضافہ کیا جا سکے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو معاشی ریلیف بھی پہنچایا جا سکے تاکہ معاشی ترقی کے ثمرات نچلی سطح تک بھی پہنچائے جا سکیں۔سماجی خدمات کے شعبے میں حکومتی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ہے۔انسانی حقوق‘فوڈ سکیورٹی‘تعلیم اور صحت کے شعبے میں حکومتی کوتاہیاں جاری ہیں۔اس سال بجٹ میں ٹیکس ریونیو کا ہدف2475ارب روپے رکھا گیا تھا، اس پر نظر ثانی کر کے اسے 2380ارب کر دیا گیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ایف بی آر یہ ہدف بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنے اور ٹیکس چھوٹوں اور سبسڈیز کو ختم کرنے کے سلسلے میں بھی کچھ نہیں کیا گیا۔ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں پائے جانے والے بگاڑ کی اصلاح کی گئی ہے۔ غیر حاضر لینڈ لارڈز،تاجر، تھوک اور پرچون فروش بدستور ٹیکس نیٹ کا منہ چڑا رہے ہیں۔ حکومت عالمی اداروں،عالمی مارکیٹ اور دوست ممالک سے قرض حاصل کر کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کر رہی ہے۔حکومت نے 3Gاور 4Gکی نیلامی سے 1.1ارب ڈالر حاصل کئے ہیں اور حکومتی اداروں کی نجکاری سے بھی کچھ رقم حاصل کرنے کی توقع رکھتی ہے۔اس سے کچھ عرصے کے لیے ایکسچینج ریٹ کو مستحکم رکھا جا سکتا ہے اوربجٹ خسارہ کم کرنے میں بھی کچھ مدد مل سکتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ معیشت کی بحالی کے لیے کافی نہیں ہے۔معیشت کو بنیادی مسائل درپیش ہیں۔ جب تک سٹرکچرل اصلاحات کے ذریعے ان کا حل نہیں ڈھونڈا جاتا،نہ تو معیشت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتااور نہ ہی ایکسچینج ریٹ لمبے عرصے تک مستحکم رہ سکتا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں