سرمایہ معاشی ترقی کا اہم ترین عامل ہے۔سرمائے سے مراد کارخانے‘ مشینری ‘عمارات ‘سڑکیں ‘پل اور ہوائی اڈے وغیرہ ہیں۔ ملک کی پیداوار میں اضافہ کرنے کی خاطر فیکٹریوں ،مشینری اور آلات کی صورت میں براہ راست سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ملک کے سماجی اور معاشی ڈھانچے مثلاً سڑکوں‘پلوں‘ بجلی پیدا کرنے کے کارخانوں‘پانی اور صفائی کی سہولتوں اور ذرائع رسل و رسائل میں سرمایہ کاری بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ معاشی سرگرمیاں زیادہ سہولت سے جاری رکھی جا سکیں۔اسی طرح تعلیم اور صحت کی سہولتیں بڑھا کر اور ملازمت کے دوران تربیت کی سہولتیں مہیا کر کے محنت کشوں کی مہارت اور پیداواری قوت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ملک کے سماجی اور معاشی ڈھانچے کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں جو سرمایہ کاری ہوتی ہے‘یا کی جاتی ہے اس سے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور نشو و نما ہوتی ہے۔ بہت سے اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ غریب ممالک انفراسٹرکچر کی کمی/کمزوری کی وجہ سے غریب ہیں۔ اگر ایسے ممالک اپنے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور نشوونما کر سکیں تو وہ اپنی پیداواری قوت میں اضافہ کر کے اپنی غربت کم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔قومی پیداوار کا جتنا بلند تناسب انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے وقف کر دیا جائے‘ اتنی ہی تیز رفتاری سے معاشی ترقی وقوع پذیر ہوتی ہے۔
پاکستان کا انفراسٹرکچر بہت ہی کمزور اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنے انحطاط پذیر انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے اپنی جی ڈی پی کا کم از کم 10فیصد خرچ کرنا چاہیے جبکہ اس وقت ہم انفراسٹرکچر پر جی ڈی کا صرف 3فیصد خرچ کر رہے ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مطلوبہ مقدار میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کی بڑی وجہ ہمارا کمزور اور بوسیدہ انفراسٹرکچر ہے۔پاکستان کے لیے اپنے انفراسٹرکچر پر اتنی بھاری رقم خرچ کرنا مشکل لگتا ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ پر بھی بھاری اخراجات کرنے پڑ رہے ہیں۔پچھلے د و سیلابوں سے انرجی اور کمیونی کیشن سیکٹرز کے علاوہ سڑکوں اور انڈسٹری کے انفراسٹرکچر کو تقریباً 20ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ سے 100ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔صرف انرجی سیکٹر کے انفراسٹرکچر کے لیے جی ڈی پی کا 6فیصد چاہیے ۔ٹرانسپورٹ ٹیلی کمیونی کیشن اور آبپاشی کے انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے بالترتیب جی ڈی پی کا 1.2فیصد0.71فیصد اور 0.83فیصد درکار ہو گا۔اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اگر اپنے انفراسٹرکچر پر 20ارب ڈالر سالانہ خرچ کرے تو بھی کم ہو گا‘ لیکن ہمارے وسائل بہت ہی محدود ہیں۔ٹیکس جی ڈی پی کا تناسب 9فیصد کی پست ترین سطح پر ہے اور ہم بجٹ سپورٹ کے لیے بیرونی وسائل کی آمد پر انحصار کر رہے ہیں۔ وسائل میں اضافہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس جی ڈی پی کا تناسب 15فیصد تک بڑھایا جائے۔
انفراسٹرکچر کی ٹوٹ پھوٹ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ امریکہ‘یورپ اور کئی دوسرے ممالک بھی اپنے انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کے نئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ملک کے انفراسٹرکچر پر ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ معاشی ترقی کو تحریک دی جا سکے‘ کروڑوں کی تعداد میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جا سکیں اور نئی ابھرنے والی مڈل کلاس کے معیار زندگی میں بہتری لائی جا سکے۔پاکستان کا منصوبہ بندی کمشن ملکی انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے منصوبہ تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ اس منصوبے کے بارے میں معلومات ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ اگر پاکستان نے اپنے انفراسٹرکچر پر مطلوبہ مقدار میں فنڈز خرچ کرنے ہیں تو ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنا ہو گا۔
اچھی خبر یہ ہے کہ چین‘ملائشیا اور ترکی نے ہمارے انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو میں مدد دینے کی پیش کش کی ہے ۔ملائشیا ہائوسنگ‘ٹرانسپورٹ ‘ کمیونی کیشن اور سڑکوں کی تعمیر میں دلچسپی لے رہا ہے۔ یہ امید افزا پیشکش ہے‘ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ ہماری اکثر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور بڑے شہروں میں سڑکوں کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے مثلاً کراچی کی آبادی 20ملین ہے اور یہ شہر 3500مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے‘ لیکن ناقص منصوبہ بندی کا شکار ہے۔تقریباً آدھی آبادی جھگیوں میں آباد ہے‘ جہاں پکی سڑکیں اور سیوریج ناپید ہے ۔پاکستان روایتی طور پر امریکہ کا اتحادی رہا ہے لیکن امریکہ نے ہمارے انفراسٹرکچر کی بہتری میں کبھی دلچسپی نہیں لی۔جب پریسلر اور سمنگٹن ترامیم کے تحت پاکستان پر پابندیاں عائد ہوئیں تو پاکستان نے مجبوراً چین کی طرف دیکھنا شروع کیا۔چین نے مالی امداد دینے میں زیادہ گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا؛ تاہم اس نے انفراسٹرکچر کے چند منصوبوں میں ہماری مدد کی۔اس وقت چین کے تقریباً دس ہزار ورکرز اور انجینئر انرجی سیکٹر‘سڑکوں اور تکنیکی شعبوں کے 100منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ان منصوبوں پر 18ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی۔چینی ماہرین پاور پروجیکٹس پر بھی کام کر رہے ہیں۔جن میں ہائیڈل ‘تھرمل اور نیو کلیر منصوبے شامل ہیں۔ ان کی تکمیل سے پاکستان کو بجلی کی کمی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔اس وقت دونوں ملکوں میں باہمی تجارت کا حجم 12ارب ڈالر ہے اور اگلے تین سالوں میں چین اس کو بڑھا کر 15ارب ڈالر تک لے جانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
پچھلے کئی سالوں سے ہماری معاشی ترقی کی شرح نمو3فیصد ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے انفراسٹرکچر کی کمزوری ہے۔ سکیورٹی کی غیر تسلی بخش صورت حال اور غیر مستقل معاشی پالیسیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کم ہونے میں بڑا کردار ادا کیا ہے؛ تاہم کمزور انفراسٹرکچر بھی سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بنا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو 7یا 8فیصد سالانہ معاشی ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جن کی آمدنی فی کس 1.25ڈالر روزانہ سے بھی کم ہے؛ تاہم حالات بہتری کی طرف مائل ہیں ۔
ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے۔مالیاتی خسارہ قابو میں ہے۔اس سال کے پہلے دس ماہ میں برآمدات میں 6فیصد اور ترسیلات زر میں 11فیصد اضافہ ہوا ہے موڈیز اور سٹینڈرڈ اور پورز نے پاکستان کی ریٹنگ بڑھا دی ہے۔ معاشی صورت حال میں مزید بہتری آنی چاہیے۔کلیاتی معاشی مظاہر اور سرمایہ کاری دونوں میں بہتری کی امید ہے۔ آئی ایم ایف‘ عالمی بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے پاکستان کی معیشت کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان عالمی اداروں سے مالی اور تکنیکی امداد حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں دو چند کر دے تاکہ ملک کے بوسیدہ انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کی جا سکے ۔لیکن جب تک ملک کے متمول طبقات سے ٹیکس حاصل کر کے ملکی ریونیو میں اضافہ نہیں کیا جاتا بالخصوص لینڈ لارڈز‘خدمات کے شعبے اور بڑے تجارتی اور صنعتی گروپس کو اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے کا پابند نہیں کیا جاتا کوئی بھی حکومت انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے مطلوبہ مقدار میں فنڈز مہیا نہیں کر سکتی۔ اس بات پر ماہرین میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان اپنے ملکی وسائل سے معاشی ترقی کے لیے کافی فنڈز حاصل کر سکتا ہے بشرطیکہ حکومت پختہ سیاسی عزم کا اظہار کرے اور اچھی حکمرانی کے اصولوں پر مصلحت سے کام نہ لے۔حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیاں اس بات کا احساس کریں کہ کمزور ریاستی اداروں اور مفلوج ایڈمنسٹریشن کے ساتھ بوسیدہ مادی اور سماجی انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو ممکن نہیں۔ملک کے کلیدی معاشی معاملات سیاست کی نذر نہیں ہونے چاہیے۔ ملکی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ سول اور ملٹری لیڈر شپ ایک سطح پر ہوں۔اس مقصد کے لیے وزیر اعظم کو پہل کرنی چاہیے۔اگر موجودہ کشمکش جاری رہتی ہے تو حکومت ملک سے غربت ختم کرنے‘ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور پاکستان کو توانا معیشت بنانے کے معاشی ایجنڈے کا وعدہ پورا نہیں کر سکے گی۔