پچھلے کئی برسوں سے پاکستان کی معیشت جمود کا شکار ہے۔ اس کی وجوہ میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ‘ امن عامہ کی خراب صورتحال‘ انرجی کا بحران اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں ۔ان کے علاوہ سیاستدانوں کی حکمت عملیوں اور پالیسیوں میں واضح اختلافات پائے جاتے ہیں اور ملک کسی بھی واضح سیاسی‘ سماجی اور معاشی پروگرام کے بغیر چل رہا ہے۔اس ساری صورتحال کا فائدہ نوکر شاہی اٹھاتی ہے۔ ایک طرف تو نوکر شاہی کے کارندوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے‘ دوسری طرف انتظامی اخراجات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ملک کا ٹیکس نظام انتہائی پیچیدہ ہے۔ٹیکس چوری عام ہے اور رشوت ستانی تو پانچواں پیداواری عامل بن چکی ہے۔اس صورتحال میں نہ صرف ٹیکسوں سے محدود آمدنی حاصل ہوتی ہے‘بلکہ ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف بھی پورا نہیں ہوتا۔ملک کی معاشی ترقی میں صرف معاشی عوامل ہی کردار ادا نہیں کرتے بلکہ سماجی حالات‘اداراتی انتظامات اور انتظامی اقدامات بھی بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سماجی صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ دولت کی تقسیم میں پائی جانے والی ناہمواریوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور علاقائی عدم مساوات کا پودابھی جوان ہو چکا ہے۔ ملک کے چند ایک علاقے اور شہر تو ترقی یافتہ ہیں‘ جبکہ ملکی آبادی کا بیشتر حصہ ایسے علاقوںمیں رہائش پذیر ہے‘ جہاں ذرائع نقل و حمل‘ رسل و رسائل‘ تعلیم‘ صاف پانی کی فراہمی اور علاج معالجے کی سہولتوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا؛ جیسے جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں‘ بلوچستان‘ اندرون سندھ اور خیبر پختون خوا کے دور دراز علاقوں میں نہ تو صنعتی ترقی کا عمل شروع ہوا ہے اور نہ سماجی خدمات کی فراہمی ہی ممکن ہوئی ہے۔ملکی آبادی میں سے 100ملین سے زیادہ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ہمارے ہاں خواندگی کی شرح ایشیا میں پست ترین ہے۔پچھلے ایک سال میں یوٹیلٹیز کے بلوں میں ہونے والے پے درپے اضافوں سے عوام تنگ آ چکے ہیں‘ جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں اور افراط زر کی وجہ سے ان کی قوت خرید مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کیے جائیں‘ جن سے معیشت کے پہیے کو تحریک دی جا سکے۔ ترقی یافتہ ممالک عوام کی قوت خرید میں اضافہ کر کے معاشی سرگرمیوں میں تحریک پیدا کرتے ہیں۔جب نقدیت خرچ کی جاتی ہے تو معاشی سرگرمیوں کو تحریک ملتی ہے اور اگر نقدیت خرچ نہ ہو تو معیشت کا پہیہ جام ہو جاتا ہے۔ اگر عوام کو خرچ کرنے کے لیے پیسہ دیا جائے تو اس کے عوض معیشت میں زیادہ پیسہ وجود میں آتا ہے اور یہ ٹیکسوں‘ ڈیوٹیوں اور بچتوں کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اگر حکومت بالواسطہ ٹیکسوں‘ یوٹیلیٹی بلوں اور افراط زر کی شکل میں ان کی قوت خرید نچوڑتی رہے تو تجارت اور صنعتی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ورکنگ کلاسز زر اور اشیاء پیدا کرتی ہیں لیکن قومی دولت کا جو حقیر سا حصہ انہیں ملتا ہے‘ اس سے وہ بمشکل جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھ سکتی ہیں‘ جبکہ تاجر اور صنعت کار ہر قسم کی مراعات حاصل کر لیتے ہیں اور پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ چونکہ صنعتی ٹائیکون اور تاجر پوری معیشت پر حاوی ہوتے ہیں لہٰذا وہ پیسے اور وسائل کا رخ اپنی جیبوں کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ لیکن ملک جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے‘ اس میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان میں سے کئی اپنے سرمائے کے ساتھ بیرون ملک فرار ہو رہے ہیں اور جو ملک میں رہ رہے ہیں‘ انہوں نے بھی مزید سرمایہ کاری سے ہاتھ روک رکھا ہے۔ہر حال میں ورکنگ کلاس ہی گھاٹے میں رہتی ہے۔عوام کی مشقت سے کمائی ہوئی آمدنی کے اربوں روپے عمارتوں اور رہائش گاہوں کی تعمیر‘ مرمت اور دیکھ بھال پر خرچ کر دیے جاتے ہیں‘ جیسا کہ پریذیڈنسی‘ پرائم منسٹر ہائوس‘ گورنر ہائوسز‘ چیف منسٹر ہائوسز اور چمبہ ہائوسز وغیرہ۔برطانیہ کا وزیر اعظم ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہ سکتا ہے تو ہمارے حکمران کیوں اس جیسی عالی ظرفی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے‘جس سے اخراجات میں کمی ہو؟ گورنر کا پبلک افیرز سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تو اتنے بڑے گورنر ہائوسزMaintainکرنے کا کیا فائدہ‘ جن پر ہر صوبے میں ہر سال اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔اسی طرح اربوں روپے مالیت کے سرکاری وہیکلز ملکی سڑکوں پر چلتے نظر آتے ہیں اور ہر روز کروڑوں روپے کا پٹرول ضائع کرتے ہیں۔حکومت ہر سال غیر ملکی وفود کو مدعو کرتی ہے۔ان پراربوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ان تمام کاموں کے لیے وسائل ٹیکس ادا کرنے والوں سے اور بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے غریبوں کو نچوڑ کر حاصل کیے جاتے ہیں۔مہمانوں کو خوش آمدید ضرور کہنا چاہیے لیکن پبلک فنڈز سے ان پر فضول خرچی کرنا ٹھیک نہیں اور مہمان بھی اتنے ہی بلائے جائیں‘ جن سے کوئی فائدہ لیا جا سکے۔ ہمارے 'محبوب‘حکمران ملکی خزانے سے خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ ملک میں رہ کر قوم کے لیے کوئی مثبت کام سرانجام دیں۔ غیر ملکی دوروں اور حج و عمرہ کے لیے پبلک فنڈ خرچ کرنے کے رویے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ملک سے مخلص نہیں ہیں۔بیرون ملک سفارتخانے اور مشن ضروری تو ہوتے ہیں لیکن ان کا کام صرف پریس بیان جاری کرنے او ر اپنے عزیز و اقارب کے لیے سہولتیں اور مواقع پیدا کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ بیرونی مشن میں کام کرنے والے ہر محکمے کے لوگوں کو ٹارگٹ دیے جانے چاہئیں جیسا کہ کمرشل اتاشی کو برآمدات میں اضافے کا ہدف دیا جاتا ہے۔ آج کل ڈپلومیسی میں تجارت اور سرمایہ کاری زیادہ اہمیت حاصل کر چکی ہے۔سیاسی اور ثقافتی روابط کی بجائے کاروباری تعلقات کی جڑیں زیادہ مضبوط ثابت ہوتی ہیں۔ملک کے تمام اداروں میں کرپشن جڑ پکڑ چکی ہے ‘ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کرپشن نے ادارہ جاتی حیثیت حاصل کر لی ہے۔سرکاری ملازمین کے موجودہ پے سکیل ناکافی ہیں اور وہ تنخواہ میں گزارہ نہیں کر سکتے۔ضرورت سے کم تنخواہ پانے والے ملازمین کو بے پناہ اختیارات دینے سے اداروں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ملتا‘ جیسا کہ بجلی اور گیس کی چوری روکنے کے سلسلے میں سرکاری اہلکاروں کو قانون سازی کے ذریعے اختیارات دیے گئے ہیں‘ ان سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘بلکہ رشوت کے ریٹ بڑھ جائیں گے۔ پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘جتنی زیادہ آبادی ہو گی اتنی زیادہ خوراک کی ضرورت ہو گی۔اسی طرح رہائش گاہوں اور اقامت گاہوں کی بھی ضرورت ہو گی اور دیگر انسانی ضروریات بھی درکار ہوں گی۔ انسانی وسائل ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔انسانی وسائل کی مدد سے معیشت میں متحرکہ قوتیں عمل پذیر ہوتی ہیں لیکن پاکستان کے انسانی وسائل کو کئی ایک مشکلات درپیش ہیں۔تعلیم و تربیت کی مناسب سہولتیں میسر نہیں۔ صحیح خوراک حاصل نہیں ہوتی۔رہائش کی مناسب سہولتیں حاصل نہیں۔انہیں فراہمی اور نکاسی آب کی ناکافی سہولتیں حاصل ہیں۔ یہ تمام مسائل انسانی وسائل کی استعداد کار کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔پاکستان کے انسانی وسائل کی نشو و نما اور ان کی مہارتوں میں اضافہ کر کے پاکستان خوشحالی کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔ایسی رپورٹیں منظر عام پر آ چکی ہیں کہ پاکستانیوں کے اربوں ڈالر بیرون ملک بنکوں میں پڑے ہیں۔ حکومت کو چاہیے‘ انہیں واپس لانے کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرے۔زر اگر رواں دواں رہے تو خوشحالی میں اضافہ ہوتا ہے۔اگر زر جمع ہوتا رہے تو معاشی جمود کا باعث بنتا ہے۔زرکو معیشت کے خون کی حیثیت حاصل ہے‘ اس لیے حکومت کا فرض ہے کہ وہ اسے ملک کے دور دراز علاقوں سمیت ہر کسی تک پہنچانے کا اہتمام کرے۔کسی ایک عضو کی موت پورے جسم کی موت ہوتی ہے۔معیشت میں جتنی زیادہ قوت خرید ہوگی‘ معاشی سرگرمیوں میں اتنا زیادہ اضافہ ہو گا۔