حکومت معاشی ترقی کی شرح میں تیزی لانے پر زور دے رہی ہے۔ اس سے کوئی اختلاف نہیں کیاجاسکتا، لیکن معاشی ترقی کی تعریف اور اس کے دائرہ عمل کے بارے میں حکومتی سوچ سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ حکومت جی ڈی پی کی شرح میں اضافے کو معاشی ترقی کا نام دیتی ہے جبکہ جی ڈی پی میں اضافے سے معاشی افزائش حاصل ہوتی ہے جو معاشی ترقی کا ایک جزو ہے، لیکن ملک میں پائی جانے والی غربت و افلاس، آمدنی کی تقسیم کی عدم مساوات اور بے روزگاری کا خاتمہ یا اس میں کمی لائے بغیر معاشی ترقی کا حصول ممکن نہیں۔ اگر ان تینوں مسائل میں کمی آرہی ہے تو بلاشبہ ملک ترقی کررہا ہوگا۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دو مسئلے پہلے سے سنگین ہوتے جائیں یا تینوں مسئلے ہی بگڑتے جائیں تو ملک کی جی ڈی پی اور فی کس آمدنی دگنی ہونے کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملک معاشی لحاظ سے ترقی کررہا ہے۔ معاشی ترقی کے تین بنیادی مقاصد ہوتے ہیں ۔(1)خوراک ، رہائش، صحت اور حفاظت جیسی زندگی برقرار رکھنے والی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں اضافہ اور ضروریات زندگی کی تقسیم میں توسیع۔(2)لوگوں کے معیارزندگی میں بہتری ،جس میں بلند آمدنیوں کے حصول کے علاوہ زیادہ روزگار کے مواقع کی فراہمی، بہتر تعلیم کا حصول اور ثقافتی اور انسانی اقدار پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا بھی شامل ہے، کیونکہ ان کی بدولت نہ صرف مادی خوشحالی کی افزائش ہوتی ہے بلکہ انفرادی اور قومی خود داری میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔(3)افراد اور قوموں کو حاصل معاشی اور سماجی انتخابات(Choices)کے سلسلے میں توسیع تاکہ انہیں نہ صرف دوسرے لوگوں اور دوسری قوموں کی غلامی اور ان پر انحصار کرنے سے آزادی میسر آئے بلکہ جہالت اور انسانی خستہ حالی سے نجات بھی ملے ۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ آمدنی کی تقسیم میں ناہمواریاں بڑھ رہی ہیں۔ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور ملک بیرونی قرضوں پر انحصار کررہا ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان معاشی لحاظ سے ترقی کررہا ہے۔ بجٹ میں معاشی ترقی کے لیے جو وسائل مختص کیے جاتے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت معاشی ترقی کے سلسلے میں کتنی سنجیدہ ہے، تاہم یاد رہے کہ ترقیاتی اخراجات کی سطح معاشی ترقی پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں سے ایک ہے۔ معاشی ترقی کی مقدار اور کوالٹی کو جانچنے کے لیے یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ اخراجات کن منصوبوں پر اور کتنے موثر طریقے سے کیے جارہے ہیں۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کامعاشی وژن اور کارکردگی زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ وزیراعظم پبلک سیکٹر میں انفراسٹرکچر کے میگا پروجیکٹس کو معاشی ترقی کی علامت سمجھتے ہیں۔ جدید ایئرپورٹس ، ملٹی لین موٹرویزے ، بلٹ ٹرین اور مغربی طرز کے ٹرانسپورٹ سسٹم جیسے پُروقار میگا پروجیکٹس پر کامیاب وسائل خرچ کرنے اور تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو مطلوبہ ترجیح نہ دینے اور ورک فورس کی مہارتوں میں اضافہ کرنے پر توجہ نہ دینے سے معاشی ترقی کو فروغ نہیں ملے گا۔ اگر میگا پروجیکٹس پر اٹھنے والے اخراجات کو جی ڈی پی میں شمار کرلیاجائے اور اس سے معاشی افزائش میں اضافہ ہوجائے تو بھی ملکی آبادی کی اکثریت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت لاہور سے کراچی اور گوادر سے چین کو ملانے والی موٹرویز کو ترقی کی علامت سمجھتی ہے لیکن اس سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ جو وسائل ان میگا پروجیکٹس پر خرچ ہوںگے، ان کا اس سے بہتر استعمال کیاجاسکتا ہے جن سے عوام کی فلاح و بہبود میں اضافہ ہو۔ حکومت کا یہ کہنا درست ہے کہ پرائیویٹ سرمایہ کاری کا بڑھنا معاشی ترقی کے لیے نہایت اہم اور اثر انگیز عامل ہے لیکن یہ بھی اہم ہے کہ سرمایہ کاری میں اضافہ کیسے ہوتا ہے۔ حکومت کاروباری برادری کی ناز برداری میں مصروف ہے اور انہیں ٹیکس چھوٹوں ، سستے کریڈٹ کی فراہمی اور کالا دھن سفید کرنے کے لیے ایمنسٹی سکیموں سے نواز رہی ہے۔ اس سے معاشی ترقی کو کیسے فروغ ملے گا؟
معاشی ترقی جی ڈی پی یا فی کس آمدنی میں اضافے کا نام نہیں بلکہ ایسے معاشی اور سماجی مظاہر کا نام ہے جو عوام کی اکثریت کی زندگیوں میں مثبت پیشرفت کا باعث بنتے ہیں۔ ملکی آبادی کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ بے روزگاری اور افراط زر نے عوام کو پریشان کررکھا ہے۔ غذائی اشیا کی فراہمی یقینی نہیں ، تعلیم ، صحت ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور پبلک ٹرانسپورٹ پر بہت کم خرچ کیاجارہا ہے۔ ان حالات میں میگا پروجیکٹس کے لیے بھاری مقدار میں فنڈز مختص کرنے کا حکومتی فیصلہ معاشی طور پر غلط ، سماجی لحاظ سے نقصان دہ اور سیاسی لحاظ سے ناقابل دفاع ہے۔ اس سے معاشی ترقی کے حکومتی دعووں کی نفی ہوتی ہے۔ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایسے منصوبوں پر کام کرے جن سے بھوک ، ناقص غذائیت، جہالت اور غربت سے چھٹکارا حاصل کیاجاسکے ۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا۔ اگر حکومت اپنی ترجیحات بدلے ۔
پائیدار معاشی ترقی کے لیے وسائل حاصل کرنے کے ذرائع بھی اہمیت کے حامل ہوتے ۔ سردست حکومت تین ذرائع سے وسائل حاصل کررہی ہے۔(1)براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں سے جن کا زیادہ بوجھ غربا کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔(2)کرنسی نوٹ چھاپ کر، اس سے افراط زر کو ہوا ملتی ہے جو غریبوں پر ایک قسم کا پوشیدہ ٹیکس ہے۔(3)بیرونی ذرائع سے قرض حاصل کرکے، جن کی خدمت اور واپسی کا انتظام عوام سے ٹیکس اکٹھا کرکے کیا جارہا ہے؍ جائے گا۔ یہ تینوں طریقے معاشی ترقی کے عمل میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ایک منصفانہ اور پروگریسو ٹیکس نظام کے ذریعے وسائل حاصل کرنے پر انحصار کیاجائے، جس کے ذریعے ہر کسی سے اس کی استعداد کے مطابق ٹیکس اکٹھا کیاجائے اور یہ انصاف اور مساوات کے افقی اور عمودی تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ اس سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے مالیاتی ماہرین کی ضرورت ہوگی اور یہ کام اکائونٹس اور انتظامی افسران کے سپرد نہیں ہونا چاہیے۔
افقی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام اشخاص سے برابر کا ٹیکس وصول کیاجائے جن کی آمدنی Taxable Limitسے زیادہ ہو۔ آمدنی کاذریعہ خواہ کچھ بھی ہو عمودی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے آمدنی بڑھتی جائے ٹیکس ریٹ میں بھی اضافہ ہوتا جائے ۔ اس وقت ٹیکسوں کا بھاری بوجھ غربا اور لوئر مڈل کلاس کے تنخواہ دار افراد کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ ریگریسو ٹیکسوں کے بوجھ کے علاوہ افراط زر کی وجہ سے بھی ان کی قوت خرید سکڑتی رہتی ہے۔پاکستان کی ہر حکومت نے امرا اور طاقتور افراد سے ٹیکس وصول کرنے سے گریز کیا اور منصفانہ اور جامع ٹیکس پالیسی نافذ کرنے کی بجائے کرنسی نوٹ چھاپ کر افراط زر کو ہوا دی ہے۔ افراط زر سے دولت کی تقسیم میں ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں اور اچھی حکمرانی اور معاشی ترقی کے عمل میں حائل ہوتا ہے۔ معاشی ترقی کو تحریک دینے کے لیے پرائیویٹ سرمایہ کاری اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری کو استعمال کیاجانا چاہیے۔بھاری مقدار میں بیرونی ذرائع سے قرض حاصل کرنے سے بیرونی ادائیگیوں کے توازن کے لیے خطرات پیدا ہوجائیں گے جس سے معاشی ترقی کا عمل متاثر ہوگا اور مستقبل میں معاشی ترقی کی رفتار کم کرنے کا باعث بنے گا ۔ اس وقت پاکستان کے بیرونی قرض اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ معاشی ترقی کو تحریک دینے کے بجائے معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ن لیگ نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ بیرونی قرض پر انحصار نہیں کرے گی، لیکن ابھی تک اس کے برعکس عمل کررہی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو معاشی مشکلات اور دہشت گردی کے خلاف دو جنگوں کا سامنا ہے ۔پاک فوج نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ضرب عضب آپریشن شروع کردیا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ حکومت معاشی مسائل کے حل کے لیے بھی پروفیشنل اپروچ اپنائے تاکہ پائیدار معاشی ترقی کا حصول ممکن ہوسکے۔