سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 10جولائی کو پاکستان کی معیشت کی کارکردگی کے بارے میں تیسری سہ ماہی رپورٹ جاری کی۔ اس میں معمول کے مشاہدات کے علاوہ کوئی نئی چیز نہیں۔ ایس بی پی نے معیشت کو درپیش چند ایسے چیلنجز کا ذکر کیا ہے‘جو کئی بار دہرائے جا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی برس بعد کاروباری ماحول ساز گار اور کاروباری برادری کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کارڈ کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے ۔مالیاتی خسارے کو محدود کیا گیا ہے۔افراط زر قابو میں رہا ہے ۔زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔روپے کی قدر بڑھی ہے اور مستحکم ہے۔ انرجی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومتی مستقل مزاجی‘ تھری جی اور فور جی لائسنسز کی نیلامی اور 2ارب ڈالر کے یورو بانڈز کی فروخت سے بیرونی وسائل کی آمد نے اس رجحان کو تقویت بخشی۔ان مثبت تبدیلیوں نے پائیدار معاشی ترقی حاصل کرنے کے لیے پلیٹ فارم کی بنیاد رکھ دی ہے؛ تاہم اس بہتری کے باوجود معیشت کو جن چیلنجز کا سامنا ہے‘ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ لہٰذا انتہائی اہم اور ضروری سٹرکچرل ریفارمز کے لیے کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ معاشی سرگرمیوں کی بحالی ایک اہم واقعہ ہے‘ جس کی وجہ سے 2013-14ء میں معاشی ترقی کی شرح نمو4.1فیصد ہو گئی جو پچھلے پانچ برسوں کی بلند ترین شرح ہے‘ قوت محرکہ صنعتی سیکٹر تھا‘ جو 5.8فیصد کی شرح سے بڑھا جبکہ پچھلے پانچ برسوں میں صنعتی سیکٹر کی ترقی کی اوسط شرح صرف 1.3فیصد رہی تھی۔ جولائی تا مارچ افراط زر کی اوسط شرح 8.6فیصد رہی جو پچھلے سال اسی عرصے میں 8فیصد تھی؛ تاہم نومبر کے بعد افراط زر میں کمی ہونے لگی اور پورے سال کے لیے 8اور 9فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔اگر عالمی مارکیٹ میں تیل اور کموڈٹی کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہواتو اگلے سال افراط زر کے دبائو میں مزید کمی آئے گی۔اس سال کے پہلے نو ماہ میں مالیاتی خسارہ 3.2فیصد رہا جو پچھلے پانچ سال کے رخنوں سے کہیں کم ہے؛ تاہم مالیاتی خسارے کے حجم کا دارو مدار سرکلر قرض کی ادائیگی پر ہو گا ۔جیسا پچھلے سالوں میں ہوتا رہا ہے‘ پبلک قرض جی ڈی پی کے 60فیصد سے تجاوز کر گیا‘ جو ایف آر ڈی ایل ایکٹ 2005ء کی خلاف ورزی ہے۔
سٹیٹ بینک نے حکومتی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اصلاحاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کرنے اور معیشت کی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے مشورہ دینے سے صرف نظر کیا ہے یا گریز کیا ہے۔یہ ماضی کی روایت کے بالکل برعکس ہے۔ ایس بی پی نے حکومتی دعوے کی تصدیق کی ہے کہ معاشی ترقی کی شرح نمو4.1فیصد رہی ہے جبکہ سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہ 3.5فیصد سے بھی کم ہے ۔حال ہی میں وزیر خزانہ نے اپنے دستخطوں سے آئی ایم ایف کو جو لیٹر آف انٹینٹ بھیجا ‘ اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ معاشی ترقی کی شرح 3.3فیصد رہی ہے جو پچھلے پانچ برسوں کی کم ترین سطح ہے۔ اسی طرح ایس بی پی نے اپنی رپورٹ میں کئی دفعہ کاروباری ماحول میں بہتری کا ذکر کیا ہے‘ لیکن نظر آنے والے مظاہر سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی‘ جیسا کہ اس رجحان کو اجاگر کرنے کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوا اور بچتوں کی شرح بھی بہت پست ہے۔پرائیویٹ سیکٹر کو کریڈٹ کی فراہمی میں جو اضافہ ہوا‘ وہ موجودہ یونٹس کے لیے ورکنگ کیپیٹل کی مد میں ہوا ہو گاکیونکہ جب حکومت بینکاری نظام سے بھاری مقدار میں قرض لے رہی تھی تو پرائیویٹ سیکٹر کو ورکنگ کیپیٹل کے لیے کریڈٹ دستیاب نہ تھا۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہی پرائیویٹ سیکٹر کریڈٹ میں اضافہ ہوا ہے۔بیرونی سیکٹر میں بہتری ترسیلات زر میں بڑے اضافے اور بیرونی ذرائع سے حاصل ہونیوالے وسائل کی آمد سے ہوئی ہے‘ جو بلند شرح سود پر حاصل کیا گیا‘ جس سے قرض کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ان وسائل کی آمد پائیدار نہیں اور ان قرضوں کی وجہ سے قرضوں کی خدمت پر اٹھنے والے اخراجات میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہو جائے گا۔لیکن ایس بی پی نے اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کہا اور نہ ہی فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ کی ضرورت اور روپے کی قدر میں کمی کرنے کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کیا ہے‘ حالانکہ جاری ادائیگیوں کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ ایس بی پی نے پبلک قرض جی ڈی پی کے 60فیصد سے زیادہ ہونے کا سرسری ذکر کیا ہے حالانکہ اس سلسلے میں حکومت کو تاکید کی جانی چاہیے تھی کہ 60فیصد کی حد عبور نہیں ہونی چاہیے اور حکومت کی توجہ اس طرف بھی دلانی چاہیے تھی کہ بیرونی قرض حاصل کر کے ملکی قرض واپس کرنا زیادہ خطرناک آپشن ہے۔ یہ حیرانی کی بات ہے کہ ایس بی پی نے وزیر خزانہ کے بیان کو من و عن دہرایا ہے۔ ایس بی پی مالیاتی اور زری پالیسی کی موجودہ صورتحال سے مطمئن لگتا ہے۔ ایس بی پی نے ریونیو سائیڈ پر ٹیکس چھوٹ اور رعایتیں ختم کرنے پر زور دیا ہے اور کرپشن پر قابو پانے اور ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس قسم کی سفارشات ہر موقع پر دی جاتی ہیں تاہم ہر کوئی جانتا ہے کہ پالیسی ساز اس قسم کی تجاویز کا کیا حشر کرتے ہیں۔ڈار صاحب نے پچھلے بجٹ میں ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کے بارے میں چند تجاویز پیش کی تھیں لیکن کاروباری برادری کے دبائو پر واپس لے لی تھیں۔اس دفعہ بھی ٹیکس وسیع کرنے کے بارے میں حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے مالیاتی خسارہ بھی بڑھ سکتا ہے۔ایس بی پی کو براہ راست ٹیکسوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کا مشورہ دینا چاہیے تھا اور یہ کہ معاشی ترقی کے ثمرات سے عوام بھی فیض یاب ہوں۔پیداواری گنجائش میں اضافہ کیا جائے اور صنعتی پالیسی کے ذریعے روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے جائیں‘ جیسے مشورے /سلوگن ایس بی پی کے مشوروں کی بجائے سیاسی پارٹیوں کے منشور میں اچھے لگتے ہیں۔ ایس بی پی نے ای ایف ایف ایس اور ایل ٹی ایف ایف پر مارک اپ کم کر دیا اور کہا ہے کہ اس سے شرح سود کا پس منظر تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ آئی ایم ایف کے تیسرے سہ ماہی جائزے میں دیئے گئے بیان کے بالکل برعکس ہے‘ جس میں آئی ایم ایف نے کہا کہ پالیسی ریٹ اس طرح مقرر کیا جائے کہ اس سے افراط زر میں کمی ہو۔زری پالیسی کے بارے میں ایس بی پی کا نقطہ نظر 19جولائی کو معلوم ہو سکے گا‘ جب زری پالیسی کا اعلان کیا جائے گا؛ تاہم ایس بی پی کو چاہیے کہ وہ کاروباری افراد یا دیگر پریشر گروپس کے دبائو میں نہ آئے اور زری استحکام کو یقینی بنائے اور فنانشل Intermediationکو پروان چڑھانے میں مدد کرے تاکہ معیشت کو پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکے۔ ایس بی پی کی سہ ماہی اور سالانہ رپورٹیں انتہائی اہم دستاویز ہوتی ہیں۔ ان کے ذریعے ایس بی پی معیشت کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کرتا ہے۔ ایس بی پی کا فرض تھا کہ وہ انرجی کے بحران اور معیشت کو درپیش دیگر مسائل کی جانب حکومت کی توجہ دلاتا‘ لیکن اس کی رپورٹ وزارت خزانہ کے اکنامک سروے کی من و عن نقل محسوس ہوتی ہے۔ ایس بی پی کی رپورٹس عام طور پر صائب‘ معروضی اور غلطی سے پاک ہوتی ہیں اور ان میں معیشت کی صورتحال کا بے لاگ جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔ اور ان تمام عوامل کا ذکر کیا جاتا ہے جو معیشت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔زری اور مالیاتی صورتحال کے بارے میں تمام امکانی غیر یقینیوں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ مالیاتی پالیسیوں کے بارے میں تعمیل طلب اقدامات اور معیشت کو درپیش غیر یقینی عوامل کے بارے میں بھی حکومت کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے اس دفعہ ایس بی پی ایسا کرنے میں ناکام رہا ہے۔