ٹیکس وصولی میں بہتری کے لیے تجویز

ہر طرح کے جابرانہ ٹیکسوںکے نفاذ کے باوجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس کا حقیقی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستانی ٹیکس ادا کرنے کے روادار نہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ طاقتور اور متمول افراد اتنا ٹیکس ادا نہیں کرتے جتنی مراعات اور فوائد حاصل کر لیتے ہیں۔ کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ وہ بزنس لین دین پر سیلز ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ویلیو ایڈڈ ٹیکس (ویٹ) پاکستان کے مخصوص کاروباری ماحول میں قابل قبول نہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے صرف طاقتور اور بددیانت تاجروں، ٹیکس افسران اور مشیروںکا مافیا وجود میں آیا۔ اس مافیا کی ''مہربانی‘‘ کی وجہ سے ٹیکس کے حصول کی شرح صرف 3.7 فیصد ہے جبکہ اسے سترہ فیصد ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ویٹ پاکستان میں درست طریقے سے رائج نہیں ہو سکا بلکہ اس کی اونچی شرح اور غیر لچک دار ضابطوں کی وجہ سے ان افراد کو خاصی دقت کا سامنا ہے جو پہلے ہی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان پر دبائو میں اضافہ ہوگیا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے تحت اس ٹیکس کا بوجھ حتمی صارف پر منتقل ہو گیا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امیر افراد زیادہ دولت مند ہو گئے۔
2014-15ء کے بجٹ میں حکومت کو چاہیے کہ وہ سنگل سٹیج سیلز ٹیکس کو پانچ فیصد کی شرح سے سب پر نافذکر دے۔ اس سے اس کے خزانے میں موجودہ نظام سے حاصل کردہ رقم سے زیادہ محصولات جمع ہو جائیں گے کیونکہ موجودہ نظام میں ٹیکسوں کی رقوم کا ایک بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس دوران ہر قسم کی چھوٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے ہر کسی سے واجب انکم ٹیکس وصول کیا جائے اور اس سلسلے میںکسی نرمی یا سمجھوتے سے کام نہ لیا جائے۔ ضروری ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 111(4) کے تحت دی جانے والی چھوٹ کا خاتمہ کر دیا جائے اور حکومت غیر ٹیکس شدہ اثاثوں کو ضبط کرنے کے لیے قانون سازی کرے۔ اگر حکومت ٹیکس کی وصولی کو بڑھانا چاہتی ہے تو اسے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ ٹیکس کا نظام جتنا مرضی اچھا بنا لیں، اگر اسے نافذ کرنے کے سخت قوانین نہ ہوں تو سب کاوش اکارت جائے گی۔ کوئی بھی اپنے مرضی سے ٹیکس ادا کرنا پسند نہیں کرتا، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی وصولی کو یقینی بنائے اور اس مقصد کے لیے غیر لچک دار نظام وضع کرے۔ وہ تمام اثاثے جن پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا اور وہ بیروِن ملک جمع ہیں، ان کو ضبط کرنے کے لیے چارہ جوئی کی جائے۔ اسی سے جمہوری عمل کے ذریعے گزشتہ چھ عشروں سے جاری لوٹ مار اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے بلاروک ٹوک سرگرمی کا خاتمہ ہو سکے گا۔ 
ٹیکس پالیسی کا بنیادی مقصد عوامی فلاحی منصوبوں اور دیگر اخراجات کے لیے حکومت کو محصولات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس مشینری کی اصلاح کی جائے اور دولت کی تقسیم میں موجودہ خوفناک عدم مساوات کو جہاں تک ممکن ہو کم کیا جا سکے۔ معاشی ناہمواری کم کرنے کے لیے انکم ٹیکس کی اونچی شرح، سرمائے کی منتقلی پر بھاری ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کو سختی سے وصول کیا جائے۔ مغربی ممالک میں تمام حکومتیں اس ضمن میں غیر لچکدار رویہ اپناتی ہیں تاکہ معاشرے میں بے چینی کا خاتمہ کر سکیں، لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اس میں وہ لوگ زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جن کی آمدنی کم ہے جبکہ زیادہ اثاثے رکھنے والے ٹیکس بچانے میںکامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں معاشی ناہمواری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں، چاہے وہ سول ہوں یا فوجی، عوام کو جان و مال کا تحفظ دینے اور فلاحی منصوبوں، جیسا کہ تعلیم، صحت، ہائوسنگ اور روزگار، سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ جب حکومت ٹیکس وصول نہیںکر پاتی تو وہ اخراجات کے لیے قرض لیتی ہے اور وصول ہونے والا تھوڑا بہت ٹیکس اس قرضے کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مزید قرض او ر مزید ادائیگی۔ یہ چکر گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ موجودہ مالی سال کے دوران اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی شرح ٹیکس کی وصولی (1500 بلین روپے) کا چھیاسٹھ فیصد ہے۔ 
یہ بات تقریباً طے ہے کہ پاکستان میں موجودہ غربت اور ٹیکس کے ناقص نظام میں براہ ِ راست تعلق ہے۔ 1991ء کے بعد سے یہ صورت حال زیادہ سنگینی کی طرف گامزن ہے کیونکہ اس دور میں انکم ٹیکس کی آڑ میں بالواسطہ ٹیکس کا نظام متعارف کرایا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک ٹیکس کا تمام تر بوجھ غریب آدمی نے اٹھایا ہوا ہے جبکہ دولت مند اور وڈیرے ٹیکس اداکرنے سے انکاری ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق غریب عوام 38 فیصد تک ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ دولت مند افراد صرف اٹھارہ فیصد۔ اس کی وجہ سے دولت میں تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرے میں موجودہ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی ذمہ داری بھی زیادہ تر اسی ناہمواری پر عائد ہوتی ہے۔ ایف بی آر نے اپنی ایئر بک 2012-13ء میں دعویٰ کیا کہ براہ راست ٹیکسز کی شرح میں اڑتیس فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن حقائق اس کی نفی کرتے ہیں۔ دراصل دعویٰ کرتے ہوئے متوقع براہ راست ٹیکس کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اگر اس متوقع ٹیکس کو منہا کر دیا جائے تو براہ راست ٹیکسز بمشکل پچیس فیصد تک رہ جاتے ہیں۔ 
ہمارے ٹیکس کے نظام میں پائے جانے والے ان نقائص کی وجہ سے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ان میں تبدیلی کا تقاضا کرتے رہتے ہیں لیکن وہ اس کے لیے زیادہ دبائو نہیں ڈالتے حالانکہ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دولت مند اپنا دامن بچا جاتے ہیں جبکہ غریب آدمی پس رہا ہے۔ ان اداروں کی واحد دلچسپی عوام کی فلاح نہیں بلکہ اپنی رقوم اور سود کی وصولی میں ہوتی ہے۔ سول اداروںکے نقائص اور کمزور جمہوریت کی وجہ سے گزرنے والے سالوں میں ہمار ا ٹیکس کا نظام زیادہ سے زیادہ خرابیوں سے دوچار ہو رہا ہے؛ چنانچہ اب جبکہ ملک جمہوریت کے راستے پر چل نکلا ہے، ضرورت اس امرکی ہے کہ عوام بھی جمہوری فوائد سے لطف اندوز ہوں۔ اس کے لیے سب سے اہم قدم ٹیکسز کا منطقی اور شفاف نظام ہے۔ دراصل یہ جمہوریت کی ذمہ داری ہے کہ وہ محصولات کی وصولی ممکن بنائے اور غریب عوام کو سہولیات فراہم کرے۔ ویٹ اور سیلز ٹیکس پر زیادہ دارومدار مزید خرابیوں کا باعث بنے گا۔ 
حکومت کو چاہیے کہ تاجروں اور صنعتکاروں کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے پانچ فیصد سنگل سٹیج سیلز ٹیکس کی تجویز دو شرائط پر مان لے۔ پہلی شرط یہ کہ وہ اپنی درست آمدنی پر انکم ٹیکس ادا کریں گے اور دوسری یہ کہ ٹیکس کی رقم کو ری فنڈ نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح کا ٹیکس نظام بہت سے ممالک، بشمول امریکہ، میں رائج ہے۔ ہم بھی مغربی ممالک کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر اپنی حالت بہتر کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے سیاسی قوتِ ارادی درکار ہے۔ جس طرح حکومت بجلی اور گیس چوروں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، ٹیکس چوروںکے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں