نیا بجٹ… ایک اور رسمی کارروائی

زیادہ تر پاکستانیوں کو تین جون 2014ء کو بجٹ کی تقریر سن کر مایوسی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس بجٹ میں غریب افراد کے لیے کوئی ریلیف نہیں ۔درحقیقت دولت مند افراد کی حامی حکومت سے اس بات کی توقع تھی بھی نہیں کہ یہ غریبوں کو سکون کا سانس لینے دے گی۔ دراصل مایوسی کی وجہ دولت مند افراد پر ٹیکس عائد نہ کرنے کی روش ہے۔ دوسری طرف بالواسطہ ٹیکسز کا تمام بوجھ آخرکار غریب افراد پر ہی پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت بیمار معیشت کی رگوں میں تازہ خون دوڑانے کا منصوبہ پیش کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ 
آزاد ماہرینِ معیشت اس رائے سے اتفاق کرتے ہیںکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے دوسرے بجٹ میں معاشی چیلنج سے عہدہ برآ ہونے میں ناکام رہی ۔ ایک سال کے بعد بھی معیشت سے متعلق عام مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دیے۔ حکومت نہ تو معیشت کی بہتری کے لیے درکار بنیادی اصلاحات لاپائی اور نہ ہی توانائی کے بحران کے خاتمے کے کوئی آثار ہویدا ہوئے۔ اس لیے حالیہ بجٹ کو 67 واں سرکاری افسروں کا پیش کردہ بجٹ کہا جاسکتا ہے ۔حسب ِ معمول معیشت کی بحالی اور ترقی کے دعوے کیے گئے ہیں لیکن نتیجہ وہی... ڈھاک کے تین پات۔ 
موجودہ حالات میں کس طرح کا بجٹ پیش کیا جانا چاہیے تھا؟یہ سوال نہ تو عوامی سطح پر اور نہ ہی حکمران جماعت کے اندر زیر ِ بحث لایا گیا ۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے ابھی یہ نہیں سیکھا کہ وہ مختلف امور کو کچھ افراد کی صوابدید پر چھوڑنے کی بجائے 
کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ ان میں سوچنے کا عمل ترویج پاتے ہوئے ایک پالیسی کی شکل اختیار کرے۔ چونکہ پی ایم ایل (ن) کی صفوں میں اس عمل کی گنجائش نہیں، اس لیے موجودہ بجٹ کو سابق روایت کے مطابق ہی بنایا گیا ۔ اس اہم مسودے کو تیار کرتے ہوئے کسی نے بھی اس بات کا احساس نہیں کیا کہ اس نازک دور میں پاکستان کو افراتفری، سماجی کشمکش، لاقانونیت اور مذہبی تنگ نظری سے بچنے کے لیے طبقاتی استحکام کی ضرورت ہے۔ بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ، دفاعی بجٹ، مہنگائی، غیر پیداواری اخراجات ، کساد بازاری، اور بد نظمی میں اضافہ ہمارے بقا کے لیے ایک سنگین چیلنج کے مترادف ہے۔ تاہم پیش کیے گئے بجٹ میں ایسی کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی ۔ اس کے بجائے بجٹ بنانے والوں کی توجہ ادھر اُدھر سے اعدادوشمار اکٹھے کرکے عوام کو چکما دینے کی طرف زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ 
سب سے پہلے تو یہ بجٹ ٹیکس میں چار ہزار بلین روپے کا خسارہ پورا کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستان میں ٹیکس کا پوٹینشل آٹھ ٹریلین روپوں سے کم نہیں ۔ سادہ سے اعدادوشمار کے مطابق ، فرض کریں پچاس لاکھ افراد کی قابلِ ٹیکس آمدنی پندر ہ لاکھ فی کس ہے تو ان سے حاصل کردہ ٹیکس 1750 بلین روپے ہوگا ۔ اگر ہم انکم ٹیکس کا دائرہ کاروباری اداروںسے بڑھا کر ایسے افراد اور اداروں کو بھی اس کے دائرے میں لاسکیں جن کی آمدنی چار لاکھ سے دس لاکھ کے درمیان ہے تو ان سے 4500 بلین روپے ٹیکس حاصل کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ بجٹ میں براہ ِ راست ٹیکس کا ہدف صرف 1180 بلین روپے مقرر کیا گیا ہے۔ 
سیلز ٹیکس، وفاقی ایکسائز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز میں ہونے والی بہت زیادہ بدعنوانی کی وجہ سے مطلوبہ پوٹینشل کا صرف تیس فیصد ہی حاصل ہوپاتا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسز 3500 بلین روپے سے کم نہیں ، لیکن بجٹ میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ٹیکس میں پائے جانے والے خلاکو کس طرح پورا کیا جائے گا؟ایف بی آر میں بنیادی اصلاحات لاتے ہوئے اسے ٹیکس وصول کرنے والے والا ایک فعال ادارہ بنانے۔۔۔ ایک ایسا ادارہ جسے پیشہ ور ماہرین چلاتے ہوں۔۔۔ کی ضرورت کو نظر انداز کردیا گیا۔ ٹیکس اپلیٹ سسٹم بھی متعارف نہیں کیا گیا حالانکہ اس کے ذریعے ٹیکس دھندگان کو درپیش شکایات کا ازالہ اور اس نظام پر ان کے اعتماد میں اضافہ ہوسکتا ہے اور وہ ٹیکس افسران کے ناروا رویے سے بھی بچ سکتے ہیں۔ لاکھوں افراد کو ٹیکس کے دائرے میں لانے میں ناکام رہنے کے بعد ایف بی آر نے سابق ٹیکس دہندگان کو تنگ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ریٹرن فائل جمع کرانے کے حق میں نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک مرتبہ وہ ''پھنس ‘‘ گئے تو پھر ہمیشہ کے لیے ٹیکس افسران کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ 
اصل معاملہ انتہائی امیر افراد، جو قومی خزانے کے اربوں چھپائے بیٹھے ہیں، پر ٹیکس عائد کرنا ہے۔ اگر حکومت ایسا نہیںکرپاتی تو یہ سب کار ِ لاحاصل ہے۔ فی الحال فنانس بل 2014ء میں اس کی کوئی باز گشت سنائی نہیں دی ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ٹیکس قوانین میں اصلاح کرتے ہوئے ہر اس شخص کو ٹیکس کے دائرے میںلایا جائے جس کی آمدنی چار لاکھ یا اس سے زیادہ ہے،تاہم شواہد بتاتے ہیں فنانس منسٹری کی اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ کئی برسوںسے ایف بی آر آٹھ ٹریلین روپے اکٹھے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس سے صوبوں کا مالیاتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے کیونکہ وہ اپنی مالی ضروریات کے لیے وفاق کی طرف دیکھتے ہیں۔ اس طرح پاکستان ایک طرح کی الجھن کا شکار ہے۔۔۔ وفاقی حکومت صوبوںکو ٹیکس اکٹھا کرنے کا قانونی حق دینے کے لیے تیار نہیں جبکہ وہ خود بھی مطلوبہ ٹیکس حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ وفاق کی طرف سے صوبوں میں تقسیم کی جانے والی رقم اتنی کم ہے کہ اس سے غریب عوام کے لیے صحت اور تعلیم اور دیگر فلاحی منصو بے بنانا دشوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں غریبوں کی حالت ایک سی ہے۔ 
جس چیز نے بجٹ کو مایوس کن بنایا‘ وہ دولت مند افراد سے براہ راست ٹیکس حاصل کرنے کے کسی پلان کی کمی ہے۔ اسی طرح مقامی سطح پر ٹیکس عائد کرکے غریب عوام کے لیے فلاحی منصوبوں کی تکمیل کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ اس وقت کوئی صوبائی حکومت بھی آئین کے آرٹیکل 140A کی شرط پوری کرنے کی اہل نہیں۔۔۔۔ ''ہر صوبے کا فرض ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرتے ہوئے سیاسی، انتظامی اور مالی امور کی ذمہ داری مقامی حکومتوں کے نمائندوں تک منتقل کرے۔‘‘
وفاقی حکومت کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پانچ ٹریلین روپوں سے زائد ٹیکس وصول نہیںکرپائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان قرضوںسے جان نہیں چھڑا پائے گا اور غریب عوام کی حالت مزید بگڑتی جائے گی۔ اگر ہم اس بحران سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ صوبوں اوروفاقی کے درمیان مالیاتی امور پر نظر ِ ثانی کی جائے۔ جب تک صوبوں کے پاس ٹیکس اکٹھا کرنے کا اختیار نہیںہوگا، صوبائی خود مختاری بے معانی رہے گی۔ پاکستان کے موجوہ سیاسی سیٹ اپ میں اس کی امیدنہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ بجٹ 2014-15ء ایک رسمی کارروائی تھی۔ اس سے ملک اور غریب عوام کی مالی حالت پرکوئی اثر نہیں پڑے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں