ریاست اور طبقۂ اشرافیہ

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق۔۔۔''ریاست ہر قسم کے استیصال کا خاتمہ یقینی بنائے گی اور ہر شخص کی صلاحیت اور کام کی نوعیت کے مطابق بنیادی اصولوں کی تکمیل کو مرحلہ وار مکمل کرے گی۔‘‘1973ء سے لے کر آج تک، پاکستانی ریاست اس وعدے کی تکمیل میں ناکام رہی ہے۔ فوجی اور سول حکمرانوں کی طرف سے جو معاشی پالیسیاں بنائی گئیں، ان سے عوام کی بجائے بیوروکریسی، جاگیرداروں،صنعت کاروں اور سیاست دانوںکے محدود گروہ کو فائدہ ہوا۔اس پاک سرزمین نے انتہائی استیصالی طبقے کی پرورش کی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس دہندگان کی رقوم پر پلنے والا طبقہ سیاسی اورمعاشی طور پر مضبوط ہوتا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ 1990ء میں عدالت کی جانب سے زرعی اصلاحات کو ''غیر ا سلامی‘‘ قرار دے دیا گیا۔ آج تک پاکستان کے اشرافیہ طبقے کی طرف سے عوام کا معاشی استیصال، جبر اور حق تلفی کا سلسلہ جاری ہے اور صبح سے شام تک محنت کرنے والے شہری باعزت زندگی کے حق سے محروم ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں کے معیار ِ زندگی میں فرق کی لکیر گہری ہوتی جارہی ہے۔ 
کارل مارکس کے اس نظریہ کہ '' ہر کسی سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لو اور ہر کسی کو اس کی ضرورت کے مطابق دو‘‘ کا ایک حوالہ ہمیں عیسائیوں کی کتاب ''عہدنامہ جدید‘‘ میں بھی ملتا ہے۔۔۔''اہل ایمان اپنے مال کو بانٹ لیتے ہیں:4:32-35‘‘۔ یہ جملہ علی الاعلان کہتا ہے کہ ایک مثالی صورت ِ حا ل یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق معاشرے کی ترقی میں اپنا 
کردار اداکرے اور معاشرہ اس کی ضروریات کے مطابق اُسے وسائل فراہم کرے۔اس مارکسی تصور کو اسلامی سوشلزم کے نظریے میں ڈھالتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی سیاسی دور میں وعدہ کیا تھا(افسوس بعد میں وہ جاگیردار طبقے کے مفاد کے امین بن گئے )کہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کی جائیںگی۔ درحقیقت بھٹوصاحب کے پیش نظر سوویت یونین کا معاشی تجربہ تھا جہاں حکمران جماعت، کمیونسٹ پارٹی نے مارکس کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا تھا اوراُس نظام میںہر کوئی معاشرے کے لیے خدمات سرانجام دیتا تھا۔ روس میں تو کچھ کامیابی ہوئی لیکن ہمارے ہاں اسلامی سوشلزم کا انجام سب کے سامنے ہے۔ 
یقینا کارل مارکس کے ذہن میں کچھ مخصوص حالات تھے کہ ایک ایسا معاشرہ ہو جہاں سماجی تنظیم اور ٹیکنالوجی جسمانی محنت کی ضرورت کا خاتمہ کردے اور جہاں محنت جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے نہیں بلکہ اہم ترین سماجی خدمات کا درجہ اختیار کرجائے۔اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس نے کہا تھا کہ ایسے سماج میں ہر شخص کے دل میں جذبہ ہوگا کہ وہ معاشرے کی بہتری کے کام کرے۔ چاہے کوئی سماجی ڈھانچہ اُسے مجبور نہ بھی کرے‘ اُسے دوسروںکے لیے کام کرنے میں خوشی ہوگی۔ مارکس چاہتا تھا کہ اس نعرے کا ابتدائی حصہ۔۔۔''ہر کسی سے اُس کی صلاحیت 
کے مطابق کام لو‘‘ اس طرح سمجھا جائے کہ کسی شخص سے نہ صرف اُس کی بہترین صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے بلکہ یہ بھی کہ ایک شخص اپنی صلاحیتوںکو معاشرے کی بہتری کے لیے بہترین حد تک ترقی دے۔ اسی سے انفرادی اور اجتماعی ترقی کی راہ نکل سکتی تھی۔ 
ہمارے بہت سے طلبہ پوچھتے ہیں کہ کیا آئین کی بالا دستی کے ذریعے بتدریج ہر قسم کے استیصال کا خاتمہ ہوسکتا ہے؟بہت سوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی جائے کہ وہ سماجی اور معاشی استیصال کے خاتمے کو یقینی بنائے، تاہم ہم جیسے حقیقت پسند سوچتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی ایک دل خوش کن التباس ہے اور یہ کہ عدالت تو قیمتوں میںاضافے کے خلاف اپنے فیصلے کو نافذ کرانے میں بھی ناکام رہی۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے میںکوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان کے اصل حکمران سرکاری افسران ، سرمایہ دار اور جاگیر دار ہیں اور یہ لوگ سیاست میں آکر عوام کا خون نچوڑتے ہیں ، اس لیے ان سے کسی بہتری کی توقع نہیںکی جاسکتی۔ 
استحقاق یافتہ طبقہ موجودہ استیصالی نظام کا تحفظ کرتا ہے اور کچھ ادارے بھی اسی طاقت ور طبقے کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ قزلباش وقف کیس ، جس میں چیف لینڈ کمشنر پنجاب اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا، میں جنرل ضیا کی بنائی گئی شریعت کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا کہ زرعی اصلاحات کا قانون قرآن و سنت کے منافی ہے۔مزدور پارٹی، قومی پارٹی، کسان کمیٹی اور دیگر تنظیموں کی طرف سے دائر شدہ نظر ثانی کی اپیل کی سماعت نو ارکان پر مشتمل بنچ نے کی لیکن اس کا آج تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اُس وقت پی ایم ایل (ن) کی حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے نظر ِ ثانی کی اپیل کی مخالفت کی تھی۔ زمینداروں کی تنظیم کے سربراہ شاہ محمود قریشی نے ایک مہنگے وکیل ، جو 1973ء کے آئین کے خالق ہونے کے دعویدار رہے ہیں، کی خدمات حاصل کیں تاکہ زرعی اصلاحات کے قانون کو ہر صورت میں روکا جاسکے۔اس ملک میں غریب عوام کے ساتھ مذہب اور سیاست کے نام پر جوکچھ ہوتا رہا‘ وہی ایک حقیقت ہے، باقی سب افسانے ہیں۔ 
کچھ ناقدین کے مطابق ترقی پسند قوتوں کا خیال ہے کہ قزلباش کیس کی نظر ثانی کی اپیل پر شریعت کورٹ کے فیصلے کو تبدیل کردیا جائے گا۔ 23 نومبر2013ء کو وہ کیس سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سامنے پیش کیا گیا۔ بہت سے سادہ لوح کسی انقلابی فیصلے کی توقع کررہے تھے کہ بے زمین ہاریوں کی سنی جائے گی‘ لیکن لگتا ہے کہ پاکستان کے ترقی پسند مارکس کا یہ مقولہ بھول گئے تھے۔۔۔'' عدلیہ سمیت تما م ریاستی ڈھانچہ صرف حکمران طبقے کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔ ‘‘درحقیقت عدلیہ نجی ملکیت کا تو تحفظ کرتی ہے لیکن یہ بہرحال کوئی انقلابی ادارہ نہیں، یہ اسی سماجی اور معاشی نظام کی پیداوار ہے۔ بہرحال (PLD 1990 SC 99) فیصلہ مناسب نہ تھا کیونکہ اس نے زرعی اصلاحات کے نظام کو ختم کردیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انقلابی سیاسی جماعت ہی آئین کے آرٹیکل 3 کے نفاذ کی طرف ہی جاسکتی ہے، موجودہ ادارے ایسا کرنے کے قابل نہیں ۔ 
جمود کو ختم کرنے کے ترقی پسند جماعتوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا تاکہ وہ بے بنیاد سیاسی نعروں اور انواع و اقسام کے ''انقلابوں‘‘ کی بجائے معاشی اصلاح لانے کی کوشش کریں۔ اس کام کے لیے عوام کے مینڈیٹ کی ضرورت ہے اور عوام کا مینڈیٹ اس جمہوری نظام میں صرف روایتی جماعتوںکو ہی ملتا ہے۔ موجودہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نعرے لگانے کے باوجود جمہوری نظام کے ساتھ مخلص نہیں۔ یہ صرف اس استیصالی نظام کے محافظ ہیں۔ جس دوران یہ آپس میں کھینچا تانی میں مصروف ہیں، غریب عوام بالواسطہ ٹیکس ادا کرتے کرتے کنگال ہوچکے ہیں۔ جاگیردار، سرمایہ دار اور دیگر اشراف انکم ٹیکس اور دیگر واجبات اداکرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف حکمران اور افسران ٹیکس دہندگان کے رقم پر پر تعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔وسیع وعریض حکومتی نظام ملکی دولت لوٹنے میں مصروف ہے۔ دراصل اس وقت ہمیں ایک اور سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ ایسی جماعت سامنے آسکے جو موجودہ احمقانہ نعروں کی بجائے آئین کے آرٹیکل 3 کے نفاذ کا پکا وعدہ کرے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں