جب تاجر حکمران ہوجائیں!

''جب تاجر، جن کے دلوں پر دولت کی حکمرانی ہو، کسی قوم کے حکمران بن جائیںتو وہ قوم تباہ و برباد ہوجاتی ہے‘‘(افلاطون، رپبلک)۔ آزاد ی سے لے کر اب تک جس طبقے نے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ (وفاقی اور صوبائی دونوں ) کے لیے سب سے زیادہ مشکلات پیدا کی ہیں ، وہ ایسے تاجروں پر مشتمل ہے جو اب حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اگرچہ ان کی طرف سے ادا کردہ ٹیکس کل محصولات میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں(0.5 فیصد انکم ٹیکس اور ایک فیصد سیلزٹیکس)، لیکن وہ سیاست میں اپنی بالا دستی قائم رکھتے ہیں۔ بطور ایک لابی، سیاست دانوں پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے اور ریاستی اہل کاروں کو رشوت دیتے ہوئے وہ اپنے متعلق ہونے والی کسی بھی قانون سازی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ٹیکس وصول کرنے والی ریاستی مشینری کو بے اثر کر کے رکھ دیتے ہیں۔ 
انکم ٹیکس کے بارے میںکی گئی قانون سازی کی تاریخ ایسی شقوںسے بھری ہوئی ہے جن میں تاجروں کی طرف سے شٹر ڈائون کی دھمکیوںاور پر تشدد مظاہروں کے بعد ترامیم کرنا پڑیں۔ قانون سازوں کو طاقتور تاجروں کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ مختلف Statutory regulatory orders پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تاجر طبقہ کتنا طاقتور ہے ۔ یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وہ ناجائز منافع اور بھاری آمدنی کو ٹیکس کی چھوٹ کی مختلف سکیموںکے ذریعے تحفظ دیتے رہتے ہیں۔ چاہے ستر کی دہائی کی خود تشخیصی سکیم، سپیشل نیشنل فنڈ بانڈز ہوں، اسّی کی دہائی کی آسان خود تشخیصی سکیم ہو، نوّے کی دہائی کے فارن کرنسی اکائونٹس یا فار ن ایکس چینج بیئرر سرٹیفکیٹس ہوں یاموجودہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کا بدنام سیکشن 111(4) ہو، ان تمام اقدامات نے اُن تاجروں کو فائدہ پہنچایا جن میں سے زیادہ تر آج مسلم لیگ (ن) کے حامی ہیں۔ 
کم ترین اہداف مقرر کرنے مگران کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہنے والے ایف بی آر کو ایک ایسے ادارے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو ٹیکس چوروں کے مفاد کو تحفظ دینے میں مختلف حکومتوں کا دست و بازو بنتا ہے۔ انکم ٹیکس فائلز جمع کرانے کی شرح ظاہر کرتی ہے کہ کل آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم لوگ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود تیسری مدت کے لیے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے پر نواز شریف نے ٹیکس میں چھوٹ کی سکیم SRO 1065(I)/2013 کا اعلان کردیا۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد کاروباری طبقے کی طاقتور لابیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے نتیجے میں محصولات میں شدید کمی واقع ہوگئی۔ جون 2013ء کو اقتدار سنبھالنے کے بعد وفاقی حکومت کاروباری طبقے سے ٹیکس وصول کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ نوا زشریف نے حلف اٹھانے کے بعد تاجروں کے لیے جن غیر معمولی مراعات کا اعلان کردیا، اُن میں معیشت کو ڈاکو منٹ کرنے میں چھوٹ دینا سب سے نقصان دہ اقدام تھا۔ ایف بی آر کے چیئرمین نے آن ریکارڈ تسلیم کیا کہ ایس او آرز کی مد میں دی گئی مختلف مراعات کی وجہ سے تقریباً دوتہائی درآمدات ڈیوٹی فری ہیں۔ 
اور کچھ نہیں تو ایسے ایس او آرز پر ہی نظرِ ثانی کرلی جائے تو بھی ایف بی آر کی ڈیوٹی کی وصولی کم و بیش دگنی ہوسکتی ہے۔ اگر انڈر انوائسنگ، فلائی انوائسز، جعلی ریفنڈز اور اسی طرح کی بے شمار لیکیج کو بند کردیا جاے تو ایف بی آر کے محصولات میں تین گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس صورت ِحال کے باوجود فنانس منسٹر اعلان کرتے ہیں۔۔۔''معیشت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ قابل ِ ادا ٹیکس کا دوتہائی چوری ہوجاتا ہے اور یہ سب کچھ ڈار صاحب کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔ پتہ نہیں درست سمت سے ان کی کیا مراد ہے؟
چیئرمین ایف بی آر شکایت کرتے رہتے ہیں کہ موجودہ اور سابق حکومتوں کی طرف سے غیر معمولی رعایت اور چھوٹ دینے کی پالیسی کی وجہ سے ان کی ٹیم ہدف کے مطابق ٹیکس وصول کرنے سے قاصر ہے، تاہم محترم فنانس منسٹر حسبِ معمولی خودستائی کی عادت سے مجبور ہو کر مقامی اور غیر ملکی میڈیا کو بتاتے ہیں۔۔۔ ''میں ایف بی آر کی کارکردگی بہت خوش ہوں۔‘‘وہ طاقتو ر تاجر برادری کو حاصل ٹیکس میں چھوٹ، پرکشش مراعات اور ان کی طرف سے ٹیکس قوانین کی پامالی سے جان بوجھ کر اغماض برتتے ہیں۔ وہ کیا جواز پیش کرسکتے ہیں جب اٹھارہ کروڑ کی آبادی کے ملک میں سے پندرہ ہزار سے بھی کم افراد نے ایک ملین سے زائد آمدنی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے انکم ٹیکس فائل جمع کرائی ہو؟ کیا مہنگی گاڑیوں اور عالیشان وسیع وعریض مکانات اور جاگیرداروں کے دیس میں غریب غربا بستے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں 15 لاکھ انتہائی دولت مند افراد موجود ہیں اور ان کی آمدنی دیکھتے ہوئے صرف ان سے ہی پانچ سو بلین روپے تک انکم ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے۔ ہمارے وزیرِاعظم صاحب اس حقیقت پر پردہ ڈالتے ہیںکہ اُنھوں نے تاجروں کو رعایت دینے کی مسلم لیگ(ن) کی روایت کوبرقرار رکھا ہے۔ جب وزیر ِ اعظم کی طرف سے ''ٹیکس ریلیف پیکج‘‘ کا اعلان کیا گیا تواسحاق ڈار نے بہت فخر سے کہا کہ حکومت نے بہت قلیل مدت میں تاجربرادری کے چھبیس میں سے پچیس مطالبات مان لیے ہیں۔ وزیر ِ اعظم کی طرف سے اعلان کردہ ایمنسٹی سکیم کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ ان کے اپنے حامی تاجروں اور صنعت کاروں نے بھی اس سے فائدہ اٹھانے کی زحمت نہ کی۔ ملک بھر میں سے صرف تین ہزار افرا د نے اس سکیم سے استفادہ کرتے ہوئے ایک سو ملین روپوں سے بھی کم رقم ادا کی ۔ تاہم اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے مسٹر ڈار نے ایف بی آر کے افسران کو مورد ِ الزام ٹھہرانا شروع کردیا۔ پندرہ اپریل 2014کو چیف کمشنرز کانفرنس کے موقع پر اُنھوں نے کہا۔۔۔''اگر آپ لوگوں نے اہداف کے حصول میں مجھے مایوس کرنا جاری رکھا تو میں اپنا دفترکیو بلاک سے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز منتقل کرلوں گا۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس ریلیف پیکج کا اس لیے فائدہ نہیں ہوا کیونکہ لوگ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 111(4) کے تحت کہیں زیادہ سہولیات حاصل کرلیتے ہیں۔ وہ منی ایکس چینج ڈیلروں اور بے ایمان ٹیکس مشیران کے ساتھ تھوڑی سی ساز باز کرکے بہت فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ خداجانتا ہے کہ اس بدنام شق کو ختم کرنے میں پارلیمنٹ کے سامنے کون سے رکاوٹ حائل ہے؟یہ سیکشن لوگوں کو غیر اعلان کردہ اثاثوں اور کالے دھن( ایسی رقوم جن پر ٹیکس ادا نہ کیا گیا ہو) کو سفید کرنے میں معاون ہے۔ اس شق کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ قانون ساز منی لانڈرنگ کو جرم نہیں سمجھتے، بلکہ وہ اس کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ بیرونی ممالک سے رقوم بھجوائی جائیں اور ریاست کو زر ِ مبادلہ دے کر پاکستانی کرنسی حاصل کرلی جائے تواس شق کے تحت ٹیکس حکام کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے۔ اس کا طریق ِ کار بہت ہی سادہ ہے۔ کسی بھی ایکس چینج ڈیلر کے پاس جائیں اور اُسے تھوڑا سا کمیشن دیں تو وہ آپ کے لیے بیرونی ممالک سے رقوم کی آمد کا انتظام کردے گا۔ اس کی وجہ سے ہنڈی اور حوالے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ سب کی نظروںکے سامنے اس شق کا انتہائی مضر استعمال ہورہا ہے لیکن ارباب ِ اختیار آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں