اشرافیہ اور یوم ِ پاکستان

پاکستانیوں، خاص طور پر غریب اور کم وسائل رکھنے والے طبقات، کے مصائب میں اُس وقت تک کمی نہیںآئے گی جب تک آئینی جمہوریت کے سنہرے اصولوں ، جیسا کہ مساوات، سماجی انصاف اور عدل کو آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت معاشرے میں رائج نہیں کر دیا جاتا۔ آج پاکستان سول بیوروکریسی، صنعت کاروں، دولت مند تاجروں اور جاگیردار اشرافیہ پر مشتمل طبقے، جو مل کر سیاسی اور جمہوری عمل پر اجارہ داری رکھتا ہے، کی گرفت میں ہے۔ پاکستان کی معیشت صرف اسی طبقے کو فائدہ پہنچاتی ہے، اس کا سیاسی عمل انہی کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، اس کی جمہوریت ان کے گھر کی باندی ہے۔ یہ ریاستی اشرافیہ نہ صرف ٹیکس دہندگان کی رقوم سے فائدہ اٹھاتی ہے بلکہ یہ حاصل کردہ سہولیات کے عوض وطن کو کچھ دیتی بھی نہیں۔ بے رحم جاگیردار اور بے حس صنعت کار مزدورو ں کا استیصال کرکے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ بددیانت تاجر مصنوعی قلت پیدا کرکے اشیائے ضروریہ کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت بھی غریب اور متوسط طبقے، جس کی آمدنی کم اور محدود ہے ، پر بالواسطہ ٹیکسز کابوجھ لاد دیتی ہے۔
یہ ہے اس پاکستان کا المیہ جو اس سوموار کوقرارداد ِ پاکستان (23مارچ) کی پچاسویں سالگرہ منانے جارہا ہے۔ اس اشرافیہ کا برتائو افسوس ناک حد تک شرمناک ہے۔ ان کے درمیان موجود ساجھے داری اور ہونے والے رشتے ناطے انہیں ایک کنبہ بناتے ہیں ، چنانچہ یہ بات حیرت ناک نہیں کہ یہ سب مل کر ایک دوسرے کے مفاد کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان سب کا ہاتھ ریاست کوکنٹرول کرتا ہے، جبکہ عوام حیرت سے اس طبقے کے اللے تللے دیکھتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل پر خود کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک سول بیوروکریسی کا تعلق ہے تووہ اچھے عہدوں اور پرکشش مقامات پر تقرری، بیرونی ممالک کے دوروں اور سرکاری خرچے سے پرآسائش زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔زیادہ تر اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسران کا تعلق سیاسی خاندانوں سے ہوتا ہے۔۔۔ یا قائم کر لیا جاتا ہے۔ اسی خاندان میں یہ محاورہ سچ ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔''اپنا اپنا ،غیر غیر‘‘۔ اس طبقے کا بھیانک گٹھ جوڑ عوام کے مفاد کو ایک طرف رکھتا ہے۔ تہہ در تہہ رشتے داری اور خاندان در خاندان روابط نے ہماری بیوروکریسی کے نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ قرار داد منانے والے پاکستان کے ریاستی اداروں کوسیاسی مداخلت، اقربا پروری اور بدعنوانی نے دیمک کی طرح چاٹ کر تباہ کر دیا ہے۔ آپریشن کے باوجود امن و امان کی صورت ِحال انتہائی دگرگوں اور دہشت گردی کا نیٹ ورک تاحال قائم ہے۔ اگرچہ ریاست سکیورٹی کے نام پر بھاری ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن وہ عوام سے کہتی ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی کا انتظام خود کریں۔ ریاستی مشینری صرف حکمرانوں کا تحفظ کرنے میں مصروف ہے،ا س کو عوام کی جان و مال سے کوئی سروکار نہیں۔
بطور ِ وزیر ِ اعظم اپنی تیسری مدت پوری کرنے کی طرف گامزن میاں محمد نواز شریف نے ابھی تک ماضی کی غلطیوںسے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ انہوں نے اپنے گرد ویسے ہی خوشامدی جمع کررکھے ہیں جو سابق ادوار میں ان کی مشکلات کا باعث بنے تھے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے اعلیٰ پائے کے افسران کو ترقی سے محروم رکھا گیا ہے حالانکہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے ان کی سفارش کی تھی۔ دوسری طرف اپنے من پسند افسران کو ترقی سے نوازا جارہا ہے۔دراصل یہ اشرافیہ جمہوریت کی آڑ میں ایسے کھیل کھیلنا روا سمجھتی ہے۔یہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست کبھی نہیں بننے دے گی کیونکہ عوام کی خوشحالی اور آگاہی سے ان کی طاقت اور استبداد میں کمی آتی جائے گی۔ فنانس منسٹر اسحاق ڈار کی طرف سے پیش کیے گئے دونوں سابق بجٹ، 2013ء اور 2014ء میں ایک بات مشترک تھی کہ دولت مند طبقے پر ایک بھی ٹیکس نہ لگایا گیا۔ تقریباً پندرہ سوبلین روپے کے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ دولت مند اور صاحب ِ حیثیت افرادسے بھاری ٹیکسز وصول کیے جاتے لیکن یہ حکومت ایسے افراد کے لیے آسمانی نعمت ثابت ہوتی ہے۔ یہ انہیں ہر ممکن حد تک ٹیکس کی چھوٹ دیتے ہوئے اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ دوسری طرف درمیانے طبقے پرمزید ٹیکس لگادیے گئے۔ اس دوران غیر ملکی قرض فراہم کرنے والے اداروں سے مزید قرضہ جات لے کر قوم کو قرض کی جیل میں بند کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ہمارے ملک میں قرضے لینے کو بھی فنانس منسٹری کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ اس پر اشرافیہ خوش رہتی ہے کیونکہ قوم قرض کی دلدل میں مزید دھنس جاتی ہے لیکن ان کی جیب پر کوئی آنچ نہیں آتی، سارا مالی بوجھ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی مطلق ترجیح نہیں ۔ اس کے باوجود دعویٰ ہے کہ ملک میں آئینی جمہوریت رائج ہے۔
اپنی کتاب"The Economy of an Elitist State" میں ڈاکٹر عشرت حسین کہتے ہیں کہ پاکستان میں مشرقی ایشیائی ریاستوں کی 'Shared Growth' پر مبنی تیز رفتار معاشی ترقی اور غربت میں کمی کے برعکس صورت ِحال پائی جاتی ہے۔ یہاں اشرافیہ معیشت اور سیاست کے گرد اپنا دائرہ تنگ کررہی ہے جبکہ عوام غربت کے دائرے میں بندہیں۔ یہ دونوں دائرے اپنی اپنی جگہ پھیلتے جارہے ہیں۔ اپنی کتاب ''پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج‘‘ میں ڈاکٹر خلیل احمد بھی انہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں عوام نظر انداز ہورہے ہیں جبکہ اشرافیہ ریاست کے تمام وسائل پر قبضہ کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔
درحقیقت یہ اشرافیہ ایک مافیا کی طرح کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایف بی آر بدنام ایس آر اوز کے ذریعے طاقتور طبقوں کو ٹیکس کی چھوٹ دے کر دولت جمع کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 1500 بلین روپوں کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔ یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ فنانس بل2013ء پیش کرنے سے پہلے ایف بی آر نے خاص طور پر شوگر اور سٹیل انڈسٹری کو فائدہ پہنچانے والے نوٹیفیکیشن جاری کیے(یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہی حکمران طبقے کا بزنس ہے) ۔
پاکستان کا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ نااہل اور بدعنوان انتظامیہ ہے۔ یہ انتظامیہ عوام کو سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرنے کی روادار نہیں۔ اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں تنائو بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے واقعات تواتر سے پیش آنا شروع ہوگئے ہیں کہ عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ یہ خطرناک رجحان حکمران طبقے کو خواب ِ غفلت سے جگانے کے لیے کافی ہونا چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں