’’جمود مسلسل‘‘ نہیں!

ہم اکثر اوقات اعلیٰ عدلیہ کے ایوانوں سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ ریاست کے معاملات آئین کے مطابق چلائے جانے چاہییں ۔ یقینا اس میں دوآراء ہوہی نہیں سکتیں، لیکن کہنا پڑتا ہے کہ عدلیہ کو بھی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ماتحت عدلیہ میں مقدمات کا فیصلہ ہونے میں انتہائی تاخیر کی روایت کوختم کرتے ہوئے سائلین کو فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ 2009ء میں عدلیہ کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے موقع پر یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ اب عدلیہ میں اصلاحات دیکھنے کو ملیں گی لیکن بدقسمتی سے معاملات میں پہلے سے بھی زیادہ بگاڑ آگیا۔ اب بھی ملک بھر کے عدالتی نظام میں لاکھوں مقدمات زیر ِ التوا ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ تمام نظام جمود کا شکار ہے۔
آئین ِ پاکستان بلا امتیازتمام شہریوں کوانصاف تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ اس حق کو غیر جانبدار عدالتوں اور ٹربیونلز میں مقدمات کے فوری حل کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ انصاف صرف اُسی صورت میں کیا جاسکتا ہے جب سائلین کے مقدمات کا ایک محدود ٹائم فریم میں فیصلہ سامنے آسکے۔ انصاف میں تاخیر بذات ِخود انصاف کے خون کے مترادف ہے۔ اس عمل کے لیے عدلیہ کو نہ صرف آزاد بلکہ موثر اور اہل بھی ہونا چاہیے تاکہ عوام کو انصاف ہوتابھی دکھائی دے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ نے عوامی مفاد میں ایک دائر کردہ ایک مقدمے کی سماعت سے انکار کردیا تھا۔ اس مقدمے میں درخواست کی گئی تھی کہ چونکہ پاکستان کئی ٹریلین روپوں کا مقروض ہے اور اس کی وجہ سے لاکھوں افراد کو زندگی کی بنیادی سہولیات، جیسا کہ صحت اور تعلیم ، میسر نہیں ، اس لیے ایوان ِ صدر، وزیر ِ اعظم ہائوس، گورنرہائوسز پر ہونے والے بھاری اخراجات اور سرکاری افسران اور عوامی نمائندوںکے شاہانہ طرز ِزندگی اور اُنہیں حاصل ہونے والی مراعات پر پابندی لگائی جائے کیونکہ یہ نہ صرف رسول ِ اکرمﷺ کی سادگی کی تلقین سے روگردانی کے مترادف ہے بلکہ آئین کے آرٹیکلز 2A, 3,4,9,14,25,37,38کی روح کے بھی خلاف ہے۔ اخباری خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے چھ صفحات پر مشتمل جواب میں تسلیم کیا ہے کہ اگرچہ عوامی وسائل عوامی عہدیداروں کے پاس امانت کے طور پر ہوتے ہیں لیکن یہ معاملہ چونکہ حکومت کی پالیسی اور سیاسی امور کا ہے، اس لیے یہ اس (سپریم کورٹ) کے دائرہ ِ اختیار سے باہر ہے۔
سپریم کورٹ کے حالیہ آرڈر سے قطع نظر، عمومی تاثرہے کہ ہمارا قانونی نظام دولت مند اور طاقتور افراد کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ بات بھی معاشرے میں سنائی دیتی ہے کہ یہاں ''انصاف بکتا ہے‘‘۔ اس لیے ''عدلیہ کی آزادی‘‘ اور ''انصاف سب کے لیے‘‘ جیسے نعرے صحرا میں ریت چھاننے کے مترادف ثابت ہوئے۔ قومی جوڈیشل پالیسی 2009ء، جس کابہت زیادہ چرچا ہوا، بھی معاملات کو سدھارنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ بلکہ کہناپڑتا ہے کہ اس پالیسی کے اعلان کے بعد ماتحت عدلیہ میں التوا کے کیسز میں مزید اضافہ ہوتا دکھائی دیا۔ یہ ناقابل ِ ترید حقیقت ہے کہ معاشرے کے کمزور اور نادار افراد کو انصاف میسر نہیں ۔ یہ وہ افراد ہیں جنہیں انصاف کی فوری ضرورت ہے کیونکہ یہ سرکاری افسران کے جبر اور نجی پارٹیوں کی چکمہ بازی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اکثر اوقات سرکاری ادارے اور نجی کمپنیاں مل کر عوام کو لوٹتے ہیں اور ان کی کہیں بھی داد رسی نہیںہوتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں وکلا کی فیس بہت زیادہ ہے۔ عام آدمی،خاص طور پر تنخواہ دار طبقے کو انصاف کے حصول کی خاطر وکیل کرنے کے لیے اپنے سب اثاثے فروخت کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود اُسے مقدمے کے فیصلے کے لیے برس ہا برس انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سے یہ معاملات پوشیدہ نہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ نہیں، صرف بیان بازی سے ہی کام چلایا جارہا ہے۔ اس استحصالی نظام میں فائدہ اٹھانے والے حضرات کبھی بھی عام آدمی کو فائدہ نہیں پہنچنے دیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ صورت ِحال جوں کی توں رہے۔ دراصل تمام خرابیوں کا باعث طاقت کا موجودہ ڈھانچہ ہے جو بنیادی طور پر عوام کے خلاف ہے۔ اس ڈھانچے میں عدلیہ بھی آتی ہے اور مقننہ بھی۔ بدقسمتی سے کوئی سیاسی جماعت اس ڈھانچے کو تبدیل کرتے ہوئے عوام کو فائدہ پہنچانے کا ایجنڈا نہیں رکھتی۔ دوسری طرف سول و خاکی بیوروکریسی، سیاست دانوں ، کاروباری افراد اورجاگیرداروں پر مشتمل اشرافیہ اپنے باہمی مفاد کے پرچم کے سائے تلے ایک ہے۔ انھوں نے مختلف ناموں اور بہانوںسے عوام سے پہلے ووٹ اور پھر جبری ٹیکس لینا ہے اور اس سے اپنی عیش و عشرت کا سامان کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے ریاستی ڈھانچے کو جمہوری اقدار( جو انصاف کی بنیادپر کھڑی ہوتی ہیں) میں ڈھالنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ چونکہ حکمران اشرافیہ عوام کی محنت سے کمائی ہوئی دولت پر عیش کرنے کی عادی ہوچکی ہے، اس لیے وہ پولیس فورس، عدلیہ اور قانون سازی کے ذریعے اس اجارہ داری کو ختم کرنے کی اجازت نہیںدے گی۔ عوام کو طاقت اور اختیارات کی منتقلی اوران کے معاشی مفاد کا تحفظ ہی حقیقی جمہوریت ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس کا مطلب حکمران طبقے کی موت ہوگا۔ اس لیے یہاں مروجہ شخصیت پرست سیاسی نظام میں عوامی مفاد کی گنجائش نہیں نکلتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب عوامی مفاد کی بات ہو تو تمام اشرافیہ یک سو ہوکر اس کی مخالفت اور اپنے مفاد کا تحفظ کرتی ہے۔
جمہوریت کے لیے احتساب انتہائی ناگزیر ہے اور اس کے بغیر جمہوریت کاکوئی تصور نہیں۔ یہ احتسابی عمل جج حضرات سے شروع ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ بے داغ کردار کے مالک ہوں گے تو ہی دیگر اداروں کا احتساب ممکن ہوگا۔ کردار کا سچا شخص ہی اندرونی اور بیرونی دبائو برداشت کرسکتاہے۔احتساب ایسا ہو کہ انصاف نہ صرف کیا جائے بلکہ ہوتا بھی دکھائی دے، لیکن ایسا صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں ہوگا۔ ریاست کی تقویت کے ضروری ہے کہ تمام اداروں کا احتساب ہو۔ اس مقصد کے لیے دبائو کی ضرورت ہے۔ دبائو سے مراد گن پوائنٹ پرپڑنے والا دبائو نہیںبلکہ سماجی پریشر گروپس ، جیسا کہ سول سوسائٹی اور میڈیا(جسے بذات خود احتساب کے عمل سے گزارنے کی ضرورت ہے)کو سامنے آکر پاکستان میںآئین کے آرٹیکل 19A کے تحت عوام کومعلومات کے حق تک رسائی دینے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
عوام کو معلومات تک رسائی بھی احتسابی عمل کا ایک حصہ ہے۔ یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ سرکاری اور عوامی عہدے رکھنے والے افراد کے اثاثوں کے بارے میں جان سکے۔ آئین کے دیے گئے اس حق کے راستے میں عدالت بھی رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ اگر ایسا ہوجائے تو عوام اپنے حکمرانوں اور ان کے معاونین کے بارے میںبہت کچھ جان سکتے ہیں۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ بظاہر اور سرسری تبدیلیوںکی بجائے پورے ڈھانچے کو بدلا جائے۔ جمہوریت میں سب سے زیادہ طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے تاکہ حکمران خود کو سفید و سیاہ کے مالک نہیں بلکہ دیے گئے اختیار کے امانت دار سمجھیں۔ چونکہ انصاف کی فراہمی احتساب کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے ریاست اور شہریوں کے درمیان غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کرنے والے قوانین کاخاتمہ ہونا چاہیے۔ اس وقت نہایت شرمناک بات یہ ہے کہ ریاست خود عوام کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے شہریوں کو عدالتوں میں گھسیٹ لیتی ہے لیکن خود کو عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرنے کے لیے تیار نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں