مالیاتی خسارہ اور محصولات

پاکستان میں خودتشخیصی ٹیکس کا نظام کیو ں ناکام ہوا؟ جمہوری ممالک کے لوگ جانتے ہیں کہ ٹیکس ادا کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ اُنہیں ریاست تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، پنشن، ہائوسنگ وغیرہ کی سہولت فراہم کرتی ہے، لیکن پاکستان میں عوام کو کچھ نہیں ملتا۔ چنانچہ مذکورہ بالا سوال، کہ خودتشخیصی ٹیکس کا نظام کیو ں ناکام ہوا، کا یہی جواب ہے۔ اگر چہ پاکستانیوں کا شمار دنیا میں انسانی بھلائی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی اقوام میں ہوتا ہے لیکن وہ حکومت کو ٹیکس دینا رقم کا رزیاں سمجھتے ہیں۔ 
2014ء میں جن افراد نے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے، اُن کی تعداد دس لاکھ سے ہے۔ دوسری طرف جن افراد پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا گیا، اُن کی تعداد پچاس ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ صورت ِحال ایک ایسے ادارے کے غیر موثر ہونے کی عکاسی کرتی ہے جس کے سٹاف کی تعداد 22ہزارسے زائد ہے۔ ایف بی آر کے پاس آڈٹ کے جدید طریقوں اور موثر ٹیکس انٹیلی جنس سسٹم کے نفاذ کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ دولت مند اور طاقتور ور افراد چالاک ٹیکس مشیروں کی مدد سے ٹیکس قوانین کو آسانی سے چکما دے لیتے ہیں۔ آمدنی ظاہر نہ کرنا، کم آمدنی ظاہر کرنااور سیلز ٹیکس اور وفاقی ایکسائز ڈیوٹی چرانا پاکستان میں معمول کی بات ہے۔ قائم ہونے والی مختلف فوجی اور سول حکومتوں نے ٹیکس نادہندگان کے خلاف کریک ڈائون کرنے کی بجائے اُنہیں ٹیکس میں مزید چھوٹ دینے اور کالے دھن کو سفید کرنے کے مواقع فراہم کیے تاکہ اُن کی سیاسی حمایت حاصل رہے۔ 
ایف بی آر کی ناکامی کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ ایف بی آر بھاری بھرکم آمدنی رکھنے اور شاہانہ زندگی بسر کرنے والے گروہ سے 
ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہاور اس کی وجہ سے کالے دھن پر مبنی متوازی معیشت وجود میں آگئی، اور دوسرا یہ کہ یہ لوگوں کو اپنی مرضی سے ٹیکس ادا کرنے پر راضی نہ کرسکا۔ اس کی وجہ سے اپنے اخراجات چلانے کے لیے ریاست لامتناہی قرضے لینے کے شیطانی چکر میںپھنس گئی تو دوسری طرف عوام بھی ضروری سروسز سے محروم رہے۔ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے مالیاتی خسارہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران یہ خسارہ دوٹریلین روپے تک پہنچ جائے گا۔معاشی مینیجرز کی ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے؟ نااہل ٹیکس مشینری کو فری ہینڈ دینے ، ٹیکس چوروں، قومی دولت لوٹنے اور کالے دھن کی سفید بنانے والوں کو خوش کرنے والی پالیسیاں معاشرے اور معیشت کے ہر پہلو پر منفی اثرات ڈال رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے ایک طرف قوم قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی ہے تو دوسری طرف دولت کے بل بوتے پر وفاداریاں خرید کر توانا ہوتا ہوا سیاسی طبقہ جمہوریت کے پروان چڑھنے کی راہیں مسدود کر رہا ہے۔ عام شہری کے لیے یہ صورت ِحال انتہائی مایوس کن ہے جبکہ معیشت گراوٹ کا شکار اور برآمدات کا حجم سکڑ رہا ہے۔ ان حالات میں بیمار معیشت کی بحالی کے لیے نہ تو سیاسی قیادت اور نہ ہی فنانس منسٹری چلانے والے نام نہاد معاشی ماہرین کے پاس کوئی قابل ِعمل اور جاندار معاشی منصوبہ ہے۔ 
جیسا کہ ان کالموں میں بارہا ذکر کیا جاچکا کہ وفاقی سطح پر ہم 8.5 ٹریلین روپے کا ٹیکس پوٹینشل رکھتے ہیں۔ تاہم گزشتہ سات برسوں کے دوران ایف بی آر کو ٹیکس کی وصولی کے بہت کم اہداف دئیے جارہے ہیں، اور ستم یہ کہ ایف بی آر اُن اہداف کے حصول میں بھی ناکام رہتا ہے۔2014-15 ء میں یہ تین ٹریلین روپے اکٹھے کرنے میں بھی ناکام رہا۔ ریفنڈز کو روکنے اور تمام تر منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بعد یہ بمشکل 2.5 ٹریلن روپے حاصل کرسکا۔ پوٹینشل کے مطابق ٹیکس کی وصولی یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایف بی آر پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کرے، کالے دھن سے بنائی گئی جائیداد سختی سے ضبط کرے اور ڈاکومنٹ سے باہر معیشت پر کریک ڈائون کرے۔ ایک جمہوری حکومت کا اولین فرض ٹیکس وصول کرنے والے ادارے کو سیاسی وابستگیوں سے پاک کرتے ہوئے پیشہ ورانہ بنیادوں پر فعال بنانا ہے تاکہ معاشرے میں تمام سطحوں پر جائزاور منصفانہ ٹیکسز کی وصولی کی جاسکے۔ 
پاکستان میں دولت مند افراد یا تو ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں یا پھر وہ اپنی درست آمدنی اور اثاثوں کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ رقم کی کمی پوری کرنے کے لیے ریاست بالواسطہ ٹیکسز لگاتی ہے ۔ ان کے نتیجے میں غریب طبقے ، جن کی معاشرے میں 
تعدادزیادہ ہوتی ہے، زیر ِ بار آجاتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جن میں سے زیادہ تر کی آمدنی چار لاکھ سے کم ہے لیکن اس پر ودہولڈنگ ٹیکس اور دیگر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ ان حالات میں عوام کی صحت ‘تعلیم اورترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز حاصل کرنے کے لیے حکومت کو اشیائے تعیشات اور تمباکو کی مصنوعات پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرنا چاہیے۔ ''Sin taxes‘‘ کہلانے والے ایسے اقدامات معاشرے میں غیر پیداواری اخراجات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ عوام کو ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم ، ہائوسنگ کی سہولیات بہتر بنانے اور ماحول کی حالت بہتر بنانے کے لیے خصوصی سرچارجز، جیسا کہ کاربن ٹیکس اور زیادہ آبادی کے ٹیکسز عائد کیے جائیں۔ نیشنل ریونیو اتھارٹی کے ذریعے تمام اشیا اور خدمات پر ملک بھر میں یکساں شرح، پانچ فیصد، کے حساب سے سیلز ٹیکس وصول کیا جائے۔ یہ اقدامات جی ڈی پی کی شرح کے مطابق ٹیکس کے حجم کو بہتر بنائیں گے۔ 
اقتدار پر فائز افراد کا کہنا ہے کہ یہ مسائل گزشتہ ساٹھ برس سے چلے آرہے ہیں ، چنانچہ انہیں چند ماہ، بلکہ پانچ سال (جو کہ ایک حکومت کی آئینی مدت ہوتی ہے) میں بھی حل نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اُنہیں کے سامنے اصل مسئلہ طاقت ور سرکاری افسران سے نمٹنا ہے۔ ان افسران میں سے اکثر نااہل اور بدعنوان ہیں لیکن حکومت خود کو ان کے سامنے بے بس پاتی ہے۔ دوسری طرف ان افسران کا موقف ہے کہ جب حکومت خود ٹیکس میں چھوٹ دے کر طاقتور حلقوں کو مزید تقویت دیتے ہوئے سیاسی حمایت کرنے کی کوشش میں لگی رہے تو بیوروکریسی کچھ نہیں کر سکتی۔ بدعنوان سیاست دانوں اور سرکاری افسران کا گٹھ جوڑ ہے ۔ یہ دونوں دھڑے اپنے دوسرے کے مفاد کا خیال رکھتے ہیں۔ اگر منتخب شدہ نمائندے عوام کے ساتھ مخلص ہوں، تو وہ قانون سازی کرتے ہوئے ناجائزدولت سے خریدے گئے اثاثے ضبط کرلیں۔ ایک مرتبہ اگر یہ دلیرانہ قدم اٹھا لیا گیا تو مالیاتی خسارے کا سنگین مسئلہ حل ہوجائے گا۔ 
ایک مرتبہ جب سیاسی اشرافیہ ٹیکس ادا کرنا شروع کردے گی تو سرکاری افسروں اور تاجروں کے پاس قانون کی پابندی کرے کا کوئی بہانہ باقی نہیں رہے گا۔ اگر موجودہ حکومت پندرہ ملین انتہائی دولت مند افراد کو ٹیکس کے دائرے میں لانے اور تمام شعبہ جات پر یکساں سیلز ٹیکس نافذ کرنے میں کامیاب ہوجائے تو ہمارے مالیاتی خسارے کا دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اس منزل کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ٹیکس کی چوری اورٹیکس کے نظام میں منہ زور بدعنوانی کولگام ڈالے۔ ٹیکس کے نظام میں اصلاح کا نقطۂ آغاز افسرشاہی کے کنٹرول کردہ ایف بی آر کی تحلیل سے کیا جائے۔ اس کی جگہ نیشنل ریونیو اتھارٹی قائم کی جائے جس میں ''آل پاکستان ریونیو سروسز‘‘ کے تحت چاروں صوبوں کی نمائندگی ہو۔ اسے ر وایتی افسرشاہی، جوٹیکس کے جدید طریق ِ کار سے لاعلم ہے، کے حوالے نہ کیا جائے۔ اس نئی اتھارٹی کو تمام ٹیکسز جمع کرنے کا اختیار دیا جائے اورا سے انڈیپنڈنٹ بورڈ آف ڈائریکٹرز چلائے۔ اس وقت حکمران جماعت کا پارٹی ہیڈکوارٹر ایف بی آر چلارہا ہے۔ ٹیکس کے نظام میں بامعنی اصلاحات کے لیے سب سے ضروری چیز ٹیکس وصول کرنے والے ادارے کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں