آئی ایم ایف اور ٹیکس کے حقائق

گزشتہ برس چار دسمبر کو اپنی ایک رپورٹ (Unlocking Pakistan Tax Potential) میں آئی ایم ایف نے ایک تخمینے، جس پر راقم الحروف نے بھی کئی مرتبہ ان کالموں میں روشنی ڈالی، کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان میں صرف وفاقی سطح پر ہی ٹیکس کا حقیقی پوٹینشل آٹھ ٹریلین روپے سے کم نہیں، چنانچہ ایف بی آر ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ کئی برسوں سے استعداد سے کہیں کم ٹیکس جمع کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف اس جائزے کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے... ''اس پروگرام کے تحت حالیہ ترقی کے باوجود پاکستان کا حاصل کردہ ٹیکس دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ٹیکس کی بنیاد محدود، نقائص سے پُر، کمزور اور یکسوئی اور ترقی سے عاری ہے۔ اس میں انتظامی اور سیاسی سطح پر کمزوریاں پائی جاتی ہیں‘‘۔
آئی ایم ایف نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مطابق ملک میں اکتیس اگست 2015ء تک موبائل فون صارفین کی تعداد 118,943,600 تھی۔ ان صارفین نے 2014-15ء کے مالی سال کے دوران 44.7 بلین روپے ایڈوانس ٹیکس کی مد میں ادا کیے، جبکہ اس مالی سال کے دوران صرف 982,525 افراد نے ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے۔ ایک کثیر تعداد میں شہریوں سے ود ہولڈنگ ٹیکس بھی وصول کیا گیا حالانکہ اُن کی آمدنی قابل ٹیکس نہ تھی۔ بہت سے شہری ٹیکس انتظامیہ کے ظالمانہ سلوک کی وجہ سے بھی فائل جمع کرانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس افسران کی بدعنوانی بھی اُنہیں گوشوارے جمع نہ کرانے کی شہ دیتی ہے۔ 
یہ بات حیران کن نہیں کہ جی ایس ٹیکس کے تحت صرف 178,190 افراد رجسٹرڈ ہیں حالانکہ ملک میں چودہ لاکھ ریٹیلرز اور چونتیس لاکھ کمرشل اور صنعتی بجلی کے صارفین ہیں۔ آئی ایم ایف نے بالکل درست نتیجہ اخذ کیا ہے کہ۔۔۔ ''ٹیکس کے ان ناقص خدوخال کے ساتھ پاکستان کو بالواسطہ ٹیکسز اور درآمدی ڈیوٹی پر انحصار کرنا پڑتا ہے‘‘۔ پاکستان کا حقیقی مسئلہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسز کے درمیان غیر منصفانہ بیلنس ہے۔ اس کی وجہ سے امیر زیادہ سے زیادہ امیر اور غریب، غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دولت مند اور طاقتور افراد کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے بجٹ کے خسارے میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی غلط پالیسیاںعوام کے مسائل بڑھا رہی ہیں۔ پاکستان کی 12.7 فیصد آبادی یومیہ 1.25 ڈالر سے بھی آمدنی پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ آمدنی ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈی کیٹر 2015ء کے مطابق انتہائی غربت کو ظاہر کرتی ہے۔ دولت مند افراد سے ٹیکس وصول نہ کرنا، اُنہیں خوش کرنے کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دینا، کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے سکیمیں شروع کرنا اور پھر قرض لے کر چکاچوند منصوبے بنانا‘ ہمارے معاشی اور سیاسی نظام کا طرہ ّ امتیاز بن چکا ہے، اور ستم یہ ہے کہ اسی کو ہم اپنی معاشی کامیابی گردانتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران جی ڈی پی میں براہ راست ٹیکسز کا حصہ تین فیصد سے کبھی نہیں بڑھا۔ اگر ریاست دولت مند افراد سے ٹیکس وصول کرکے غریب عوام کی نگہداشت نہ کر سکتی تو اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ 
بدقسمتی سے آئی ایم ایف اپنی اس مذکورہ رپورٹ میں اور جورج مرتنز وزکیو (Jorge Martinez-Vazquez) اور مشرف رسول کیان اپنی کتاب ''The Role of Taxation in Pakistan's Revival‘‘ میں ایف بی آر کے اس جھوٹے دعوے کہ کل محصولات میں براہ راست محصولات کا حصہ 37 فیصد ہے، کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہے۔ عقل حیران ہے کہ ان ماہرین نے ایف بی آر کے پیش کردہ اعداد و شمار کو من و عن کس طرح تسلیم کر لیا؟ پاکستان انکم ٹیکس لا میں ایسے لاتعداد بالواسطہ ٹیکسز ہیں جنہیں براہ راست ٹیکس قرار دیا جاتا ہے تاکہ مالیاتی اداروں کو چکما دیا جا سکے۔ ان presumptive اور transactional ٹیکسز کا افراد کی آمدنی سے کوئی تعلق نہیں، اور ان کا بوجھ بڑی آسانی سے حتمی صارف پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ 2014-15ء کے مالی سال کے دوران ایسے ٹیکس کا حجم کل انکم ٹیکس میں 1096 بلین روپے تھا۔ یہ کل محصولات کا تیس فیصد تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ براہ راست ٹیکس کی شرح کل محصولات کے پچیس فیصد سے زیادہ نہ تھی، لیکن آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح 37 فیصد ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کا اصل زور جی ڈی پی کی شرح کے مطابق ٹیکس میں اضافے پر ہے لیکن یہ ادارہ اس بات کا ذکر کرنے سے گریز کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح حاصل کردہ رقم کو بے رحمی سے حکمران اشرافیہ کو سہولیات فراہم کرنے پر اجاڑ دیا جاتا ہے۔ 
مغرب میں ٹیکس کی اونچی شرح کا جواز نکلتا ہے کیونکہ سٹیٹ بینک شہریوں کا خیال رکھتے ہوئے کسی کی حق تلفی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن پاکستان میں مالیاتی امور کے تحفظ اور دیگر شہری سہولیات کا ذکر ہی کیا، حکومت عوام کو جان و مال کا تحفظ دینے کی بھی زحمت نہیں کرتی۔ 25A کے تحت حکومت شہریوں کو فری تعلیم دینے کی پابند ہے‘ لیکن اس کی بے حسی ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ اس نے کس طرح عوام کو نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ سخت ٹیکسز، پیداوار میں کمی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پاکستان کا درمیانہ طبقہ دبائو کا شکار ہے۔ اس کی سکت دم توڑ رہی ہے۔ بہت کم پاکستانی شہری 4,286 ڈالر فی کس آمدنی رکھتے ہیں۔ عالمی بینک کے معیار کے مطابق یہ درمیانی طبقے کی کم از کم آمدنی ہے۔ پاکستان کی 90 فیصد بالغ آبادی کے پاس 10,000 ڈالر مالیت سے کم کی دولت ہے (اس دوران ارکان پارلیمان کے اوسط دولت 900,000 ڈالر فی رکن ہے، لیکن ان میں سے بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں)۔ Credit Suisse کے مطابق پاکستان کی بالغ آبادی، جس کی دولت دس ہزار سے ایک لاکھ ڈالر مالیت کے درمیان ہے، کا حصہ 9.8 فیصد، جبکہ صرف 0.1 فیصد بالغ افراد ایک لاکھ سے ایک ملین ڈالر مالیت کی دولت کے مالک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ انتہائی امیر افراد کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ 
ایک طرف آئی ایم ایف کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے اور جس طرح پاکستان کے بہت سے نام نہاد معاشی ماہرین اور تجزیہ کار یہ بات سمجھنے میں ناکام ہو گئے ہیں کہ ایک طرف ریاست عوام کو تعلیم اور صحت اور دیگرشہری سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہے تو دوسری طرف ہمارا ٹیکس کا نظام آمدنی کے مطابق ٹیکس وصول کرنے سے عاری ہے۔ جمہوری ممالک میں انکم ٹیکس طرز رہائش کے مطابق وصول کیا جاتا ہے اور ریاستیں خاندانوں کے سائز اور ضروریات کے مطابق ٹیکس میں کمی کر دیتی ہیں؛ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ ہمیں ابھی جمہوری ریاست بننے میں کافی وقت لگے گا۔ اس کا دار و مدار انتخابات کی تعداد یا حکومت کے مدت پوری کرنے پر نہیں ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں