سماجی انصاف اور معاشی ترقی

سماجی انصاف اور معاشی ترقی کے درمیان گہرا تعلق ہے۔کسی بھی معاشرے میںریاست، سیاست، معیشت، حکومت اور قانون کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔معاشرے کے تاریخی ارتقا کو مجموعی تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کے بعد ہی ریاست اور شہریوں کے مابین سماجی معاہدے(social contract) کی ماہیت اور فعالیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات (صحت، تعلیم، رہائش وغیرہ) دینے میں ناکام ہے تو اِس کا ایک لازمی نتیجہ معاشی ترقی کی سست روی ہے۔ غیر منصفانہ معاشی ڈھانچے کا لازمی نتیجہ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز اور غربت کی بہتات ہے۔ بارہا اِن ریاستی کمزوریوں اور زیادتیوں کا تذکرہ لوگ اپنی تحریروں اور تقریروں میں کرتے ہیں مگر صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔عمرانیات،سماجیات، معاشیات اور سیاسیات کے ماہرین کے تجزیے اور بہتری کے لئے کئی حل تو موجودہ ہیں مگر طاقتور طبقات جو استحصالی نظام کا ہمیشہ تحفظ کرتے ہیںبہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
آئین میں درج بنیادی حقوق جیسے کہ سب کے لئے مناسب سہولیات کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق (آرٹیکل 9 اور 14 ) یاپانچ سے سولہ سال تک مفت اور لازمی تعلیم کا حق(آرٹیکل 25A) کی پامالی اور کھلی خلاف ورزی کا ذکر ہماری سب سے اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلوں میں جابجا ملتا ہے۔مگر ضروری سوال وہی ہے: اِن فیصلوں پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوتا؟ سب جانتے ہیں کہ طاقتور استحصالی طبقے ایسا نہیں ہونے دیتے۔ معیشت پر قابض طبقے ہی سیاست اور ریاست پر حکمرانی کرتے ہیں عوام نہیں۔لوگ پوچھتے ہیں کہ قانون ساز اداروں (مقننہ) میں بیٹھے ہوئے منتخب افراد بے حس ہیں یا کوئی اور وجہ ہے کہ وہ سماجی انصاف اور بنیادی حقوق کی طرف اِس قدر غیر ذمہ دارنہ رویہ رکھتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ اگر نوجوان روزگار کے لئے پریشان ہیں اور عوام معاشی طور پر بے حال تو اصل ذمہ دار کون ہے۔ظاہر ہے طبقاتی نظام میں یہ بہت بنیادی سوال ہے اور محض آئین کی شقیں اُس کا حل پیش نہیں کرتیں۔
تمام شہریوں کو حق برابری حاصل نہیں، بنیادی سہولیات کی فراہمی کا فقدان ہے اور معاشی ناہمواریوں کا دکھ ہر درد دل رکھنے والے پاکستانی کو ہے مگرکیا وُہ جمہوریت میں حق رائے دہی رکھنے کے باوجود اس صورت حال کو تبدیل کر سکتے ہیں؟ یہ سوال اُس معاشی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سیاست پر جمہور کا نہیں استحصالی قوتوں کا قبضہ ہے۔ استحصال کو ختم کئے بغیر یعنی آئین کے آرٹیکل 3 پر عمل کئے بغیر عوامی امنگوں اور خواہشات پر مبنی جمہوری معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔ استحصال کے خاتمہ کے لئے معاشی انصاف کا ہونا لازم ،محض قوانین بنانے سے لوگوں کو معاشی انصاف فراہم نہیں ہوسکتا۔ معاشی انصاف ہی سماجی انصاف اور جمہوری معاشرہ کی بنیاد ہے۔ جب تک معاشی انصاف نہیں ملتاحقیقی جمہوریت کا حصول ممکن نہیں چاہے کتنے ہی انتخابات منعقد کئے جائیں۔معاشی انصاف کے لئے عدالت عظمیٰ پاکستان کا فیصلہ بعنوان مس شہلا ضیا بنام سرکارِ پاکستان (PLD 1994 SC 693) کا حوالہ بہت اہم ہے۔ 20 سال گزر جانے کے بعد بھی کسی سیاسی جماعت اور حکومت نے اِس پر توجہ نہیں دی۔ یہ ہے مملکت خداداد میں انصاف کا حال!
معاشی انصاف کے لئے سیاسی جماعتیں کس قدر سنجیدہ ہیں اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی کے پاس بھی شہریوں کے لئے روزگار، کام کے مطابق معاوضہ،محصولات سے سماجی پروگراموں پر عملدرآمد کاٹھوس منشور ہی نہیں۔ الفاظی پر مبنی منشوروں میں حسین خوابوں کا ذکر تو ہے مگر قابل عمل تفصیلی پرگرام کا مکمل فقدان ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے منشور کے بارے میں اس قدر لاتعلق اور غیر سنجیدہ کیسے ہو سکتی ہے؟ مگرلوگ کہتے ہیں، ''پاکستان میں سب چلتا ہے‘‘۔ جی ہاں یہ سچ ہے کہ پاکستان میں سب چلتا ہے مگر دردِدل رکھنے والے سوال کرتے ہیں کہ ظلم کی یہ آندھی کب تک چلے گی ؟کیا حکمرانوں اور قوم نے ماضی میں ہونے والے سانحوں سے کوئی سبق حاصل کیا ہے یا نہیں؟ اگر موجودہ ناانصافی کا نظام چلتا ہے تو اس کا نتیجہ بھی خوشگوار نہیں ہوسکتا جیسا کہ 1971ء کے عظیم سانحہ نے ثابت کیا۔ سماجی انصاف جس میں سب کے لئے ایک جیسے مواقع ہوں‘ صحت عامہ اور تعلیم کا مساوی نظام ہو، پینے کا صاف پانی، اچھی رہائش گاہ ہو اور معقول سفری سہولیات ہوں، کا حصول ممکن ہے اگر ہم اپنے نظام محصولات کو معاشی ترقی کے لئے سودمند بنائیں نہ کہ اس کی تباہی کا باعث۔
محصولات کو معاشی ترقی کے لئے استعمال کرنا کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہا۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ عوام کی محنت سے حاصل رقوم کو اشرافیہ کی عیاشیوں کے لئے استعمال کیا جانا ہے۔ نظام محصولات کو منصفانہ بنانا سماجی انصاف کی شرطِ اول ہے۔ایک جمہوری معاشرے میں منصفانہ نظام محصولات میں ہر ایک سے اُس کی بساط کے مطابق ٹیکس وصول کر کے اُسے تمام شہریوں کی بہتری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ہے ایک فلاحی ریاست کا تصور جس سے ہم دن بہ دن بہت دور ہوتے جا رہے ہیں۔مغربی معاشروں میں جو لوگ زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اُن کو بعد میں پنشن(Pension) اورسماجی تحفظ(Social Security) کے مد میں زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ نظام محصولات تمام حکومتی اخراجات (جائز حدود کے اندر) پورا کرتا ہے۔ ترقی کے منصوبوں کے لئے ذرائع مہیا کرتا ہے اور تمام تر سماجی خدمات کے لئے ضروری رقوم کی بروقت ترسیل بھی۔ اسطرح محصولات قومی امانت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور فلاحی ریاست کے لئے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ہمارا موجودہ نظام یہ نہیں کر رہا بلکہ امیروں کو امیر ترین بنا رہا ہے اور غریبوں کو غریب تر۔ زکوٰۃ و صدقات جو لوگ اپنے طور پر دے رہے ہیں وہ فلاحی ریاست کا قیام نہیں کر سکتے ہاں نیکی کے عمل کے طور پر قابلِ ستائش ہیں۔ جو محصولات اکٹھے ہوتے ہیں وہ ریاستی اشرافیہ کی فلاح و بہبود کے لئے ہیں۔ اُن کے عالی شان محل، گاڑیاں، آسائشیں، کلب، محافظ کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔ اِس کے مقابلے میں کسان اور مزدور محنت کرنے کے باوجود مشکل زندگی گزارتا ہے۔اُن کے لئے تعلیم اور علاج معالجے کی سہولت دور دور تک میّسر نہیں اورنجی سکول اور ہسپتال لوٹ مار پر لگے ہوئے ہیں۔ یہ ہے مملکت پاکستان کا المیہ!
تعلیم، صحت اور روزگار فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ورنہ اُس کو محصولات اکٹھا کرنے کا حق نہیں۔ آئینی جمہوریت کا بنیادی اصول ہے کہ بغیر نمائندگی کے کوئی ٹیکسیشن(Taxation) جائز نہیں۔ لوگوں کو قومی وسائل میں جائز حق نہ ملنا دراصل اُن کے حقِ نمائندگی کی نفی ہے۔کاش منتخب افراد اُسکو محسوس کریں۔
آج پاکستان میں محنت کش عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور اشرافیہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف ہے۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے فلاحی ریاست کا قیام ضروری ہے جو منصفانہ نظام محصولات کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارے آئین کے آرٹیکل 38A میں واضح طور پر درج ہے کہ مملکت عام آدمی کے معیار کو بلند کر کے دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے روکے گی کیونکہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ آرٹیکل اِس بات کا بھی اعادہ کرتا ہے کہ آجروماجور ، زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل قومی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کی جائے گی۔ کہاں یہ وُہ مملکت جس کے لئے آئینِ پاکستان میں یہ سب کرنے کا عندیہ1973ء میں دیا گیا تھا۔ آئندہ چند ہفتوں کی تحریروں میں ایک فلاحی ریاست کے لئے منصفانہ نظامِ محصولات کی مبادیات اور جزوئیات پر تفصیلاً روشنی ڈالیں گے اس اُمید کے ساتھ کہ یہ زبان خلق بن کر نقارئہ خداہو سکے اور حکمران کو مائل بہ بھلائی کر پائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں