منشیات فروشی اورمنی لانڈرنگ

چھبیس جون انٹر نیشنل ڈرگ ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1987ء میں اس دن کو منشیات کے استعمال اور اس کی غیر قانونی تجارت کے خطرے کو اجاگر کرنے اور اس کی روک تھام کے لیے عالمی برداری کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے اس دن کو منانے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے منی لانڈرنگ کی سکیمیں متعارف کرا کے بدعنوانی اور منشیات کے گھنائونے کاروبار سے حاصل ہونے والے کالے دھن کو''اچھے معاشی اقدامات ‘‘ کے ذریعے سفید کرنے کی اجازت دی۔ اس طرح ریاست منشیات کے بڑے بڑے تاجروں کی رقم کو سفید کرکے ان کی سرپرستی کرتی دکھائی دی جو منشیات فروشوں کے زیر ِاستعمال سب سے کارگر سکیم جس کے تحت بیرونی ممالک سے باقاعدہ بینکوں کے ذریعے رقم لانے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی۔ ایسی رقم کو سفید تصور کیا جاتاہے ۔ دنیا کے دیگر حصوں میں حکومتیں کالا دھن لانے والوں کو گرفتار کرکے سزائیں دیتی ہیں ، لیکن ہمارے حکمران ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد ہر سال کچھ ملین روپے ادا کرکے ''پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 ‘‘ کے تحت حاصل چھوٹ کا فائدہ اٹھا کر ہر قسم کی پوچھ گچھ سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ یہ قانون سازی نواز شریف ، اسحاق ڈارفطانت کا شاہکار ہے۔ 
انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کا سیکشن 111(4) منی لانڈرنگ کرنے والوں سے لے کر کالا دھن سفید کرنے والوں سمیت سب کو سہولت فراہم کرتا ہے ۔ اس کے لیے اُنہیں غیر ملکی سرمایہ مرکزی بینک کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح نہ صرف وہ ٹیکسز ادا کرنے بلکہ رقم کی بابت ہر قسم کی تحقیقات سے بچ جاتے ہیں۔ اس سکیم کا مقصد پاکستان میں غیر ملکی زر ِمبادلہ لانا تھا اورمالی سال 2015-16ء کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران یہ انتہائی کامیاب رہی۔ اس دوران اٹھارہ بلین امریکی ڈالر کا زر ِمبادلہ پاکستان آیا۔ ماضی میں ایسی بہت سی سکیمیں ، جیسا کہ ''Bearer National Fund Bonds, Foreign Exchange Bearer Bonds, Special Bearer Bonds, US Dollar Bonds and Certificates‘‘ کے ذریعے بھی کالے دھن کو سفید کیا گیا۔ ان سکیموں سے منشیات کے سمگلروں نے بھی دل کھول کا فائدہ اٹھایا اور ان رقوم کو سفید کرلیا۔ جنرل ضیاالحق کے دور سے لے کر اب تک کالے دھن پر مبنی پاکستانی معیشت نے حیران کن حد تک ترقی کی ہے۔ لیے گئے کئی ایک جائزوںکے مطابق متوازی معیشت کے حجم میں 23 فیصد سالانہ کے اعتبار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک جائزے کے مطابق: ''غیرروایتی معیشت کا حجم کل جی ڈی پی کا تیس فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں ہر سال 850-900 بلین روپے کی متوازی معیشت وجود میں آتی ہے، جو ضروری نہیں کہ جرائم کے ذریعے پروان چڑھے لیکن یہ غیر ٹیکس شدہ دولت ضرور ہے۔ منظم جرائم ، جیسا کہ اغوابرائے تاوان، سمگلنگ اورمنشیات فروشی سے وجود میں آنے والی معیشت کا حجم 1300 بلین روپے ہے، لیکن اس کا سٹیٹ بینک کے جائزے میں ذکر نہیں ہے۔ 
پاکستان دہشت گردی کے بدترین شکار ممالک میں سے ایک 
ہے ۔ اس بات کی ٹھوس شہادت موجود ہے کہ دہشت گرد گروہ منظم جرائم کے علاوہ جرائم پیشہ عناصر میں موجود اپنے ہمدردوں سے بھاری عطیات وصول کرتے ہیں۔ ان کے ایسے ہمدرد پاکستان سے باہربھی موجود ہیں۔ یہ ایک ناقابل ِتردید حقیقت ہے کہ ہمارے بہت سے قوانین غیر قانونی دولت کو تحفظ دیتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے ساتھ ریاستی سطح پر جنگ بھی کر رہے ہیں۔ یہ تضاد انتہائی خطرناک ہے ۔ Anti-Money Laundering Act of 2010 کوبہت سے دیگر قوانین بے اثر کردیتے ہیں۔ دوسری طرف بینک بھی section 7 of Anti-Money Laundering Act, 2010 or section 67 of Control of Narcotics Substance Act of 1997 کے تحت مشکوک رقوم کی ترسیل کی رپورٹ نہیں کرتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں فعال دہشت گرد گروہ منشیات کے عالمی مافیاز کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ نجی شعبے میں چلنے والے کچھ بینک کالے دھن کو سفید کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ ایک معروف بنکار Antonio Geraldi نے امریکی سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کے سامنے انکشاف کیا تھا کہ کچھ امریکی اور مغربی بینک بھی اس کام میں ملوث ہیں۔ سٹی گروپ کے شریک سی ای او، جان ریڈ نے سینیٹ کے سامنے بیان ِحلفی دیتے ہوئے کہا: ''میںجان ریڈ، میں سٹی گروپ کا چیئرمین اور شریک سی ای او ہوں۔ میں آج اپنے بینک کے سربراہ، ٹوڈ تھامسن کے ہمراہ پیش ہورہا ہوں۔ بدقسمتی سے شوکت عزیز کو جو ایک نجی بینک چلاتے ہیں ، جن کی قیادت میں نجی بینکوں نے منی لانڈرنگ کے نت نئے طریقے سیکھے، کسی سماعت کا سامنا نہیں ہے ۔ اس کی بجائے اُنہیں پاکستان بلا کر فنانس منسٹر بنا دیا گیا ‘‘۔
آج تمام امریکی بینکوں نے کئی ایک نمائندے مقرر کر رکھے ہیں جو دنیا بھر میں موجود رہ کر ہونے والی مالیاتی ترسیل پر نگاہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بینک منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بڑے بڑے بینک تین ٹریلین ڈالر یومیہ ترسیل زر کرلیتے ہیں۔ دنیا میں یہ ہیں زمینی حقائق اور پھر ہم سنتے ہیں کہ دنیا میں دہشت گردی اور منشیات فروشی کے خلاف جنگ ہو رہی ہے ۔ یہ سب دکھاوا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستوں کے مالیاتی ڈھانچے منشیات فروشوں کے ہاتھ میں ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں