اے لیڈرو، برنی سینڈرز سے سیکھو

ڈیمو کریٹک نیشنل کنونشن میں کی جانے والی اپنی تاریخ ساز تقریر میں سینیٹر، برنی سینڈرز نے جمہوریت کے تمام دعویداروں کو واشگاف الفاظ میں ایک پیغام دیا کہ انتخابات اور حکمرانی کا حتمی مقصد دولت مند وں کا تحفظ نہیں بلکہ معاشی انصاف قائم کرنا ہے ، کیونکہ صرف اسی راہ پر چل کر مستقبل کی نسلوں کے لیے محفوظ اور خوش حال زندگی کی ضمانت دی جاسکتی ہے ۔ امید کی جانی چا ہے کہ ہمارے رہنما اور رائے دہندگان بھی اس تقریر کو بار بار پڑھیں گے تاکہ وہ حقیقی نظام قائم کرنے، عوام کو تقویت دینے اوراشرافیہ کے نیٹ ورک کوتوڑنے کی ضرورت محسوس کرسکیں۔ مسٹر سینڈرز کا کہنا ہے ۔۔۔''انتخابات ہوتے رہتے ہیں، لیکن اپنی نمائندہ حکومت،ایسی حکومت میں وہ صرف ایک فیصد نہ ہو، بلکہ وہ ان کی اکثریت کی نمائندہ ہو اور معاشی، سماجی اور نسلی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتی ہو، کی تشکیل کی کوشش جاری رہتی ہے ۔ 
تقریر کے دوران انتہائی اہم پیغام دیتے ہوئے مسٹر سینڈرز نے کہا۔۔۔''اس میں کوئی راز کی بات نہیں کہ ہلیری کلنٹن اور میںکئی ایک امور پر ایک دوسر ے سے اختلاف کرتے ہیں۔ انتخابی مہم کا مقصد ان اختلافات کو واضح کرتے ہوئے عوام کے سامنے رکھنا ہوتا ہے اور یہی جمہوریت ہے ۔ مجھے آپ کو بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ڈیموکریٹک پلیٹ فارم کمیٹی میںہم نے ڈیموکریٹک پارٹی کا انتہائی ترقی پسند پلیٹ فارم قائم کیا ۔ اب کئی حوالوں سے ڈیموکریٹک پارٹی وال سٹریٹ کے اہم مالیاتی اداروں کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کرتی ہے ۔ یہTrans-Pacific Partnership کے تحت ملازمتیں ختم کرنے والے فری ٹریڈ معاہدوں کی بھی سختی سے مخالفت کرتی ہے ۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ ڈیموکریٹک سینٹ، ڈیمو کریٹک ہائوس اور ہلیری کلنٹن کی صدارت ایک پلیٹ فارم قائم کرے ، اورمیں اس میں ہر ممکن تعاون کروں گا۔ ‘‘
پاکستان میں ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر اختلاف رائے کے اظہار کا کلچر موجود نہیں۔ یہاں باس کے سامنے یس سر کہا جاتا ہے ۔ پیش ہونے والی ہر قرارداد کسی بحث کا اختلافی نوٹ کے بغیر ہی اکثریت ، بسا اوقات سو فیصد ، ووٹ سے منظور کرلی جاتی ہے ۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں میںآمریت موجود ہے ۔ فرد ِ واحد تمام جمہوری عمل کو کنٹرول کرتا ہے ۔ جماعتوں کے اندر نہ تو انتخابات ہوتے ہیں اور نہ ہی داخلی احتساب کا عمل دکھائی دیتا ہے۔ جمہوری اقدار کے فقدان کی وجہ سے سیاسی جماعتیں ناکامی کا منہ بولتا شاہکار ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کی رٹ لگانے والی جماعتیں اپنی صفوں میں جمہوریت کی روادار نہیں۔ 
برنی سینڈرز نے امریکیوں کو بتایا ۔۔۔'' آنے والے انتخابات میں گزشتہ چالیس سال سے جاری درمیانے طبقے کی گرواٹ کا عمل روکنا ہوگا۔ اس وقت سینتالیس ملین افراد، مردوخواتین، غربت زدہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ اگر ہم نے اپنی معاشی ترجیحات کو تبدیل نہ کیا تو ہماری نوجوان نسلوں کی زندگیاں اپنے والدین کی نسبت مفلوک الحالی کا شکار ہوتی جائیں گی۔ ان انتخابات کا مقصد دولت اور آمدنی میں ہوشربا فرق کو ختم کرنا ہے ۔ اس وقت ہمارے ہاں دولت کی تفریق خوفناک حدوں کو چھو رہی ہے ، شاید 1928ء کے بعد سے شدید ترین ہے۔ یہ بات نہ صرف اخلاقیات کے منافی ہے بلکہ قابل قبول بھی نہیں ہے کہ ایک فیصد کے دسویں حصے کے پاس نوے فیصد دولت ہو۔ یہ بات ناقابل ِ برداشت ہے، اسے ضرورتبدیل ہونا ہے‘‘۔
ہماری سول اور ملٹری حکومتیں غریب عوام سے بے حسی کی حد تک لاتعلق رہتی ہیں۔ اس وقت ملک میں 60 فیصد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔پاکستان میں آمدنی میں فرق 1980ء کی دہائی کے بعد اس وقت سب سے زیادہ ہے، اورغربت ختم کرنے کے تمام دعووں کے باجوود یہ رجحان جاری ہے ۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا ہو ا فرق بہت سے سماجی اور معاشی مسائل کی جڑ ہے ۔ وہ بنیادی عوامل کو ذاتی آمدنی کو کنٹرول کرتے ہیں، وہ اثاثوں کی تقسیم، آمدن کی تقسیم، دوسرے ہائو س ہولڈ سے ٹرانسفر اور ٹیکس اور حکومت کے اخراجات ہیں۔ سب سے تباہ کن عامل دولت اور آمدنی کی ناہمواری ہے ، اور اس کی وجہ جابرانہ اور غیر منصفانہ ٹیکسز کا نظا م ہے ۔ گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران عوام پر لگائے ٹیکسز میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے ، جبکہ نوے فیصد دولت کے مالک کل محصولات کے ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ امریکہ کی طرح، جیسا کہ برنی سینڈرز نے نشاندہی کی، ہم بھی معاشی عدم توازن کا شکارہورہے ہیں۔ یہ وسیع تفاوت انتہائی خطرناک ماحول پیدا کررہی ہے ، لیکن اس پر ہمارے ہاں کبھی کوئی بحث نہیںہوئی ۔
سیاست دانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذمہ داری سے تمام معاملات پر بات کریں ، چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں۔ اُن کا کردار ریاستی اداروں کو تقویت دینے کے لیے بہت اہم ہے۔ رول ماڈل ہونے کے ناتے اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رویے سے اپنی سنجیدگی ظاہر کریں ، تاکہ عوام اُن پر اعتماد کریں اور ان کی بات سننے کے لیے تیار ہوں۔ سب سے پہلے تو اُنہیںاپنے ذاتی مفاد کو قانون کی حکمرانی کے سامنے سرنگوں کرناہے۔ اگر وہ بدعنوانی یا دیگر معاشی جرائم میں مرتکب پائے جاتے ہیں تو تمام نظام ہی اپنی ساکھ کھو دیتا ہے ۔ اقتدار کا حصول تو ہر جماعت کی خواہش ہوتی ہے ، اور اس میں کوئی حرج نہیں ، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد خود کو تمام سفید و سیاہ کا مالک سمجھنا غلط ہے ۔ آپ عوامی عہدہ رکھتے ہوئے ریاست کے وسائل کی لو ٹ مار نہیں کرسکتے ۔آپ عوامی کی دولت کے نگران ہیں، صارف نہیں، اور نہ ہی حکومت اپ کی تجوریاں بھرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ سیاست کو نہ عبادت بنائیں ، نہ کاروبار، یہ آپ پر عوام کی طرف سے ڈالی گئی ذمہ داری ہے جسے آپ نے ادا کرناہے ۔ 
جہاں تک ہمارے سیاسی رہنمائوں کا تعلق ہے تو اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ سینڈرز کی تقریر سے سبق سیکھیں۔ اُنھوں نے موجودہ انتخابات کو ایک تحریک میں تبدیل کردیا ہے ۔ ہلیری کلنٹن کی حمایت کرتے ہوئے اُنھوں نے اپنے رائے دہندگان کو یقین دلایا ہے کہ ملک کو تقریروں کی بجائے عمل کی ضرورت ہے ۔ ہمارے رہنما ئوں کو بھی چاہیے کہ بیان بازی بہت ہوچکی، اب کچھ کرکے دکھائیں ۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں