چارٹرڈ ٹیکس انسٹیٹیوٹ کے قیام کی ضرورت

پاکستان میں نظام ِ محصولات میں اصلاحات کا بڑا تذکرہ کیا جاتا ہے ، مگر حقیقی معنوں میں یہ محض ایک نمائشی عمل ہے ۔ حکومت ِ پاکستان نے 2001 ء سے لے کر آج تک اس نظام میںکوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے بہتری کا پہلو نکلتا ہو۔ غیر ملکی قرضوں اور امداد سے اصلاحات کا چھ سالہ منصوبہ جس میں ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے حصہ لیا، ناکامی سے دوچار ہوا۔ ملکی محصولات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور نہ ٹیکس گزاروں کے لیے کوئی سہولت پیدا ہوئی ۔ یہ سلسلہ آج بھی ویسے کاویسا ہی ہے ۔ ایف بی آر اصلاحات کی راہ میں خود سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک اس ادارے کو ختم کر کے ایک قومی سطح کی جدید اور پیشہ ور نیشنل ٹیکس ایجنسی قائم نہیں کی جاتی، بہتری کے امکانات محدود، بلکہ معدوم رہیں گے ۔ 
ہر سال نوکرشاہی کے کچھ کرتا دھرتا اوران کے من پسند ''ماہرین‘‘ اصلاحات کے نام پر نظام میں مزید خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ یہ خفیہ طرز کا عمل ہوتا ہے جس میں عوامی رائے اور عوام کے حقیقی نمائندگان کو نظرانداز کردیا جاتاہے۔ اس خفیہ کام کی بدترین مثال ستمبر 2014 ء میں قائم کردہ ٹیکس ریفارمز کمیشن کی رپورٹ کو عوام سے تاحال چھپانا ہے ۔ اگر اس رپورٹ کا مقصد اصلاحات ہے تو پھر اسے خفیہ رکھنے کا کیا جواز ہے ؟ اس کا جواب نہ تو وزیر ِخزانہ نے دیا ہے اور نہ ہی ایف بی آر نے ، اور نہ ہی خود کمیشن کے سربراہ نے ۔ درحقیقت اس موضوع پر سیرحاصل بحث ہونی چاہیے تھی تاکہ نظام ِ محصولات کو درست کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کا آغاز ہوسکے ۔ 
یہ رویہ ناقابل ِ فہم ہی نہیں ، قابل ِ مذمت بھی ہے کہ ایسی رپورٹوں کو خفیہ رکھا جائے ۔ حکمران تیل کی قیمتوں میں غیر مناسب شرح سے سیلز ٹیکس کے نفاذ اور عام ٹیکس گزار سے ناجائزمحصولات کی وصولی اور ریفنڈز کو روک لینے کے عمل کو ہی اپنا طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں۔ معاشی ترقی کی رفتار کو کو آٹھ سے دس فیصد کرنے کی طرف توجہ دی ہوتی تو ٹیکس کی وصولی دوگنا سے بھی زیادہ ہوسکتی تھی۔ اگر ٹیکس کی شرح کم کرکے تمام نادہندگان سے گوشوارے لیے ہوتے تو پھر یہ وصولی کم از کم چارگناہوسکتی تھی ۔ 
کاروباری حلقوں سے ہر سال بجٹ کے موقع پر تجاویز پیش کی جاتی ہیں، مگر ایف بی آر کے دانشور وہی کرتے ہیں جو اُن کی مرضی ہو۔یعنی اعدادوشمار کا گورکھ دھندا پیش کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ان ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ محصولات کی وصولی اصل استعداد سے بہت کم رہی۔ اس کے باوجود محترم وزیر ِ خزانہ داد وستائش کے ڈھول بجاتے رہتے ہیں، اورحسن ِ کارکردگی کا تمغہ تک اپنے نام کرچکے ہیں۔ کاش وہ آئی ایم ایف کی جنوری 2016 ء کی رپورٹ ہی پڑھ لیں جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اصل استعداد آٹھ کھرب روپے سے کم نہیں اور ایف بی آر محض تین کھرب روپے جمع کرتا ہے ۔اس تین کھرب میں بھی پچاس ارب کی وصولی ریفنڈز روک کر اور بڑے اداروں سے ایڈوانس لے کر ظاہر کی جاتی ہے ۔
پاکستان میں اب بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات نمایاں ہو رہے ہیں۔چین پاکستان معاشی راہداری کے منصوبے تو محض آغاز ہیں۔بنیادی ڈھانچہ درست ہونے کے بعد یعنی توانائی اور سڑکوں کے جال کے منصوبوں کی تکمیل ہونے پر پاکستان میں اس قدر ،اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری ہوگی کہ معاشی ترقی کا ایک نیا باب کھلے گا ۔ان حالات کو حقیقی معنوں میں تمام شہریوں کے مفاد اور ملکی ترقی کے لئے سود مند بنانے کے لئے ہمیں نظام محصولات کو سادہ بنانا ہو گا ۔کاروبار کی سہولت کا نیا نظام وضع کرنا ہو گا ۔تمام لوگوں کے لئے ایک مساوی مقابلے کا ماحول قائم کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ اپنے لوگوں کو فنی تعلیم دینی ہوگی۔ کیا حکومت ان سب کاموں کا ارادہ کر چکی ہے ۔ارادہ کرنا ہی کافی نہیں اس کے لئے کوششوں کا آغاز آج سے شروع کرنا ہو گا ۔ٹیکس کے میدان میں یہ حقیقت ہے کہ ایک بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جہاں اس پر تحقیق کی جاتی ہو ۔ٹیکس ہمارے کالج اور سکول کے نصاب میں شامل ہی نہیں۔اس کو چارٹرڈاکائونٹنٹس کی طرح پیشہ بنانے کے لئے ایک ادارہ کے قیام کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔
برطانیہ ،ملائیشیا ،گھانا اور کئی ممالک جیسے کہ نائیجیریا تک میں ایسے ادارے موجود ہیں جن میں خالصتا ًٹیکس کی تعلیم اور تحقیق کا کام کیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں ہزاروں نوجوان ہر سال ٹیکس میں اعلیٰ توتعلیم حاصل کر کے حکومتی اور نجی اداروں میں ملازمت کر سکتے ہیں ۔ہر سال ہمیں بارہ سے پندرہ لاکھ نوکریاں صرف نوجوانوں کے لئے پیدا کرنی ہیں ۔اس کے لیے معاشی ترقی کی رفتار کم از کم دس فیصد سالانہ ہونی چاہیے ۔سرمایہ کاری بھی مجموعی قومی پیدا وار کا 25 فیصد ہونی چاہیے ۔اگر ٹیکس کا نظام پیداواری 
صلاحیتوں میں رکاوٹ کا باعث ہے تو اہداف کیسے پورے ہوں گے۔چینی یا اور بیرونی سرمایہ کار تو اپنا منافع یہاں سے واپس لے جانے میںدلچسپی رکھیں گے۔ہم پاکستانیوں کو اپنی ترقی کے لیے خود کام کرنا ہو گا۔نوجوانوں کی صلاحیتوں کو آج کی دنیا کی ضروریات کے مطابق بڑھانا ہو گا ۔نئی سے نئی جدت طرازی کے بغیر آج کی دنیا میں معاشی ترقی اور خود انحصاری ایک خواب ہے۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ستر سالوں میں ہم ایک ادارہ نہیں بنا سکے جہاں ٹیکس پر تحقیق کر کے جدید اورقابل عمل متبادل پیش کئے جاسکیں اور اس کے علاوہ نوجوانوں کو اس مضمون میں اسناد دے کر پیشہ ور بنایا جائے ۔سرکاری عہدہ دار اس مضمون میں جو انتہائی پیچیدہ ہے کوئی تحقیق نہیں کرتے بلکہ ننانوے فیصد تو اس میں سند یافتہ بھی نہیں ۔یہ کام یونیورسٹیوں میں ڈاکٹر یٹ کی سند کے حامل اساتذہ کا ہے۔ان کو تحقیقی مقالہ جات تیار کر کے پیش کرنے چاہئیں تاکہ پالیسی ساز ان کی مدد سے نظام کی تشکیل نو کر سکیں ۔صنعتوں اور کاروباری حضرات کو ایسی تحقیق سے فائدہ اٹھانا چاہیے اورتربیت یافتہ ٹیکس ماہرین کو ملازمتیں دینی چاہئیں۔جب ٹیکس دینے والے اور ٹیکس لینے والے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت سے عاری ہوں تو نظام چل ہی نہیں سکتا ۔اس شعبہ میں صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے حکومت کو چارٹرڈ ٹیکس انسٹیٹیوٹ کا قانون جلد از جلد پیش کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں