تعلیم ، جہالت اور غلامی

فلاحی ریاست کے خدوخال کا تذکرہ اجمالاً پچھلے کالم میں ہوا تو بہت سے حلقوں اور احباب کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ تعلیم کے معاملے پر مزید اظہارِ خیال کی ضرورت ہے ۔ مروجہ تعلیم کا مقصد تو اب محض نوکری کے حصول تک ہی محدود ہے۔ آج تعلیم فرد کو غلامی سے نجات دلانا تو بہت دور کی بات ہے ، یہ اُسے آقائوں کے سامنے سرجھکانے کے نت نئے انداز سے آشنا کررہی ہے۔ برِ صغیر میںعہد ِ غلامی میںکئی مفکرین نے کھل کر لکھا کہ انگریز کی تعلیم جو خوئے غلامی سکھاتی ہے، اُس سے تو ان پڑھ رہنا ہی بہتر ہے۔ انگریزی زبان سیکھنے پر تو کفر تک کے فتوے صادر ہوتے تھے ۔ اُ س وقت کچھ عقلمند اور صاحب ِ دانش نے کہا کہ عصر ِ حاضر کی جدید تعلیم سے بہرہ ور ہونا ضرور ی ہے ، مگر حریت اور آزادی کی جنگ اور جستجو کو ہرحال میں زندہ رکھنا ہوگا۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ مسئلہ انگریزی زبان کا نہیں تھا، کیونکہ اس زبان سے نابلد طبقہ اشرافیہ خوئے غلامی اورآداب ِ غلامی میں سب سے بازی لے جانا چاہتا تھا۔ اصل مسئلہ معاشی مفاد کا تھا۔ تعلیم کا تعلق ذہنی غلامی سے بہت گہرا ہے ، اور فکری آزادی سے بھی۔ مگر تعلیم کو محض اس لیے حاصل کیا جائے کہ معاشرے میںہونے والے ظلم و ستم اور استحصال کو درست قرار دے کر طاقتور طبقوں کی غلامی کی جائے تو اس کا مطمح نظر معاشی فوائد اور سیا سی قد کاٹھ بڑھانا ہو گا۔ہمارا نظام تعلیم طالب علموں کو فرسودہ نظام کے بارے میں سوالات کرنے سے منع کرتا ہے۔یہ نظام جبر اور غربت کی بلا وجہ توجیہ سے آگے نہیں جانے دیتا ۔کتابی علم اور امتحان میں اچھے نمبر لے کر روزگار کا مسئلہ ،بس یہی ہے تمام تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ۔یہ بات درست ہے کہ لاکھوں بلکہ کروڑوں بچے تعلیم حاصل ہی نہیں کر پا رہے باوجود اس کے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25A مطابق کے مطابق یہ ان کا بنیادی حق ہے۔مگر اس بات کا کوئی خاص تذکرہ نہیں ہوتا کہ خود نظام تعلیم محض غلام ہی پیدا کر رہا ہے۔ نظام کے ایسے غلام جو محض اشرافیہ کی حقارت کے محافظ ہو کر رہ جائیں ‘ان کے لئے اچھی نوکری ،گھر ،کار وغیرہ سے آگے سوچنے اور عمل کرنے کی کوئی خواہش ہی نہ ہو۔ملک کو درپیش معاشی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کے لئے اندرونی و بیرونی آقائوں کی طرف دیکھتے ہیں ۔دیکھنے میں کوئی حرج نہیں مگر تنقیدی نگاہ کے ساتھ اور اپنے مسائل کے لئے اپنے حل دریافت کرنا ضروری ہے مگر یہ تعلیم نہیں سکھاتی۔یہ نظام تعلیم روشن خیال اور حریت پسند لوگ پیدا کرنے کی بجائے استحصالی نظام کے بہترین سپاہی فراہم کرتا ہے۔روشن خیال لوگ پیدا ہو رہے ہوتے تو کبھی جہالت اور غربت باقی نہ رہتے ۔یہ تعلیم جہالت بھی دور نہیں کررہی اور غربت تو بہرکیف بڑھا رہی ہے۔
سیاسی ڈھانچہ جس معاشی استحصالی نظام پر کھڑا ہے اس میں اچھے حکمران کہاں سے آئیں گے۔استحصالی طبقوں کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ اس نظام کو مضبوط بنائیںاور ہر صورت میں اس کا مکمل دفاع کریں۔اس نظام کا بہترین دفاع تعلیم کے اس سبق سے ہو سکتا ہے جوخرد کو غلامی کا سبق دے ۔غلامی کے سبق کا سب سے اہم جزو یہ ہے کہ فرد تعلیم کومعاشی طور پر زیر نگر ہونے کا بہترین وسیلہ سمجھے۔کامیاب انسان وہ سمجھا جائے جو زیادہ رقم حاصل کر سکتا ہواور پھر معاشی وسا ئل کے زور پر معاشرے میںاعلیٰ مقام مالک بن جائے ۔معاشرے میں موجود ناانصافیوں
اور ناہمواریوں کے خلاف بات کر نا بھی ایک فیشن ہے اور یہ ایک مخصوص تعلیم یافتہ طبقے کا مشغلہ ہے ۔یہ طبقہ دانشوروں میں بھی کامیاب ہے ۔اس طبقے کے لئے تعلیمی نظام معیشت کے خلاف عملی جدوجہد نہیں سکھاتا۔ان کے لیے محض لفاظی دانشوری رعب اور دبدبہ قائم کرنا ہی کافی ہے۔یہ نام نہاد دانشور طبقہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہر وقت پورے معاشرے کو نصیحت کرتا رہتا ہے مگر خود عام لوگوں سے ہونے والے ناروا سلوک کا تذکرہ تک نہیں کرتا ۔ ان کے حقوق کے لئے عملی جدو جہد تو بہت دور کی بات ان کے لئے کبھی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ وہ ملک کے حکمرانوں کو نا اہلیت اور بد عنوانی کا مرتکب تو قرار دیتا ہے مگر اپنے اداروںکے معاشی مفادات کا تذکرہ کبھی زبان پر نہیں لاتا ۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنے کے بعد وہ بھاری بھر کم معاوضہ اور مر اعات سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔یہ خوف مروجہ تعلیم کا تحفہ ہے ۔یہ سرکاری ملازمین کو غلط کام کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مال پانی بنانے کا درس بھی دیتا ہے۔ سیاسی آقائوں کا بھی غلام بننا کوئی اخلاقی مسئلہ نہیں۔یہ ریاست کے ملازم ہیں مگر ذاتی مفادات کو لوگوں کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔
سیاست دان ‘مالدار کاروباری حضرات ،جا گیر داروں وغیرہ کے لیے تو اس سے بہتر کوئی ذریعہ ہو نہیں سکتا جس سے وہ مر اعات یافتہ ہوسکیں۔ذہنی طور پر غلام بننے والوں(عوام الناس ) کو جمہوری عمل اور نظام میں ریڑھ کی ہڈی قرار دینے والے یہ مراعات یافتہ طبقات صدقات اور خیرات پر غریبوں کو ہمیشہ کے لیے غریب رکھنے کا فن جانتے ہیں ۔اس لیے غربت کو تعلیم اور وسائل سے ختم کرنے کی بات ہی نہیں کرتے۔
یہ جانتے ہیں کہ مروجہ نظام تعلیم ہی ہے جو لوگوں کو غلام رکھنے کا اصل ذریعہ ہے۔تعلیم ہر ایک کے لئے ہونے چاہیے ۔مگر ایسی تعلیم جو ایک ایسا انسان پیدا کرے جو اعلیٰ اقدار کا محض حامی ہی نہ ہوبلکہ اس پہ عمل بھی کرتا ہو۔ ایک ایسا انسان جو پڑھا لکھا ڈگری یافتہ جاہل اور ظالم نہ ہو۔تعلیم کے نظام پر دوبارہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔اس کے بغیر فلاحی ریاست کا خواب کبھی شرمندہ تعمیر نہیں ہو سکتا ۔ایسا نظام جس میں تحقیق، تجسس، برابری اور مساوات کا درس ہو۔ جس میںمعاشی ترقی سب کے لئے ہو اور محض پیسہ ہی لوگوں کے لئے باعث عزت نہ ہو ۔اقدار کا حامل تعلیم نو کا نظام ہی تو ہماری اصل میراث ہے ۔مگر ہم نے اس کو فراموش کر رکھا ہے ۔آنے والے انتخابات میں ہر پارٹی کو اس کو منشور کا حصہ بنانا چاہیے۔اگر وہ ایسا نہیں کر تے تو پھر اس جمہوریت کا کیا فائدہ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں