لاہور کے مرکز بادامی باغ کے علاقے میں واقع عیسائیوں کی بستی جوزف کالونی میں178گھروں کو جلا کر راکھ کر دینے کے جنون پر مبنی واقعہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی سماج میں سرایت شدہ بیماری کو عیاں کر دیا ہے۔ایک غضب ناک ہجوم کے ہاتھوں ہونے وا لے اس وحشیانہ حملے کی وجہ ایک عیسائی نوجوان کی جانب سے مبینہ طور پر شراب کے نشے میں ایک مسلمان دوست کے ساتھ ہو نے والی تکرار کے دوران کہے گئے توہین آمیز کلمات بتائی جا رہی ہے۔ آج کے پاکستان میں عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف حملے معمول بن چکے ہیں۔توہینِ رسالت اور ضیاء آمریت کی جانب سے نافذ کیے گئے دوسرے سخت قوانین نہ صرف ذاتی انتقام کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات ان کی مدد سے جائداد پر قبضہ اور مال بٹورا جاتا ہے۔ میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق لاہور میں ہونے والے حملے کے مقاصد بھی کچھ ایسے ہی تھے‘ جوزف کالونی پر حملے کے پیچھے قبضہ مافیا کا ہاتھ ہے۔ مذہب بہت بڑا اور سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مساجد، مدارس اور درباروں جیسے دوسرے مذہبی اداروں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مسجدوں اور مدرسوں کو الاٹ ہونے والی اراضی پر بہت سے مشکوک کاروباری سودے طے پاتے ہیں۔ پورے ملک میں موجود ان اداروں کی تعمیر اور چلانے کے اخراجات کا اندازہ اربوں روپے لگایا جا تا ہے۔در حقیقت مسجدوں پر کنٹرول کے لیے مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔فرقہ وارانہ تنظیموں کے تیزی سے پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ان مذہبی کاروباروں میں حصے کی لڑائی شدید ہونے کے ساتھ علیحدگیاں ہوتی ہیں اور نئے فرقے وجود میں آتے ہیں۔ ہر نیا فرقہ مذہب کی نئی اور زیادہ خوفناک تشریحات پیش کرتا ہے جس سے نفرتیں اور مخالفتیں اور بڑھتی ہیں۔ عام طریقہ یہ ہے کہ بیش قیمت زمینوں پر راتوں رات مساجد، مدرسے اور دربار کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔اس کے بعد ان کے ساتھ دکانیں تعمیر کر کے انتہائی مہنگے کرایوں پر چڑھا کر بہت پیسہ کمایا جاتا ہے۔ ان اداروں کی تعمیر اور چلانے پر آنے والے اخراجات کے حقیقی ذرائع کو مذہبی تقدس تلے چھپا دیا جاتا ہے۔ان کا کوئی آڈٹ یا احتساب نہیں ہوتا۔منشیات کے سوداگروں اور دیگر مشکوک ذرائع کے علاوہ مذہبی کاروبار میں تیل سے کمائے گئے ڈالر بھی شامل ہوتے ہیں۔ 1960ء اور70ء کی دہائی کے دوران امریکی سامراج نے سی آئی اے کے ذریعے اسلامی بنیاد پرستی کوپالا پوسا اور ان کی مالی معاونت کی جس کامقصد سرمایہ داری اور سامراج کو چیلنج کرنے والی بائیں بازو اور محنت کشوں کی تحریکوں کو کچلنا تھا۔کچھ مذہبی فرقوں کو تو اب بھی مغربی سامراجو ں کی حمایت حاصل ہے۔لیکن موجودہ وقت میں ان فرقوں کی پشت پناہی کرنے میں بڑا ہاتھ دو برادر ملکوں کا ہے۔ نہ صرف ریاستی ایجنسیاں بلکہ ان ممالک کے دولت مند افراد بھی اپنے مفادات کے لیے ان فرقہ وارانہ تنظیموں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔1970ء کی دہائی میں افغانستان میں بائیں بازو کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف افغانستان کی حکومت کے خلاف امریکہ نے انہی بنیاد پرستوں کے ذریعے ڈالر جہاد شروع کروایا تھا۔ سی آئی اے پاکستانی اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے ان دہشت گردوں کو تربیت اور مالی معاونت فراہم کرتی تھی۔ضیاء الحق کی سفاک آمریت کو امریکی سامراج کی حمایت حاصل تھی۔اس آمرانہ حکومت نے نہ صرف افغانستان میں رجعتی مسلح بغاوت کو ابھارا بلکہ اپنے ظالمانہ اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے مذہب کے نام پر وحشیانہ جبر کیے۔ ضیاء الحق کی جانب سے سماج اور ریاست پر مسلط کردہ اسلا مائیزیشن سے پیٹی بورژوازی کی بڑی پرتیں متاثر ہوئیں۔ریاستی بیو رو کریسی اور خصوصاً اسکی درمیانی پرتوں کے ذہنوں کو زہریلی رجعت سے بھر دیا گیا۔یہ سوچ اب بھی عدلیہ، پولیس، انتظامیہ اور فوج کے حصوں میں موجود ہے۔عدلیہ کے فیصلے، پولیس کی کارروائیاں اور انتظامیہ کی جانب سے ان کیسوں سے نمٹنے کا انداز جانب دار ہوتا ہے اور ان میں مذہبی اقلیتوں اور اسلام کے مختلف فرقوں کے خلاف تعصب واضح ہوتا ہے۔ اگرچہ اسلامی جماعتیں سیاسی طور پر کمزور اور ان کی سماجی بنیاد محدود رہی ہے لیکن سماج پر ان کے غلبے میں مختلف ریاستی اداروں کے ساتھ ان کے تعلقات کا اہم کردار ہے۔اس کے بدلے میں ریاستی ایجنسیاں ان جنونیوں کو اپنے مفادات کے حصول کی خاطر بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک تشدد اور خونریزی کروانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔سماجی و معاشی نظام کے بحران میں شدت کے ساتھ سماج میں جاری خون ریز خلفشار اور بربادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مختلف اسلامی فرقوں کے رجعتی مُلا منبروں سے نفرت اگلتے ہیں۔ ان مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کا شور بیماروں اور پڑھائی کرنے والوں کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔ اپنی حمایت میں اضافے کے لیے یہ فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر اس نفرت کو بھڑکاتے ہیں۔عموماً مجبور طبقات سے تعلق رکھنے والی مذہبی اقلیتیں ان جنونیوں کے لیے آسان شکار ہوتی ہیں۔کئی مرتبہ چھوٹے تاجر اور پراپرٹی ڈیلر مال بٹورنے کی غرض سے ان ملاؤں سے فتوے اور الزامات لگواتے ہیں۔سماج کی ہر سطح پر یہ عمل جاری ہے۔معاشی بحران کی شدت اور وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی ہوئی سماجی بدحالی کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور بے چینی ہے۔سماج کی پسماندہ پرتیں ان اسلامی جنونیوں کا شکار بنتی ہیں اور عیسائیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملہ آور ہجوم انہی پر مشتمل ہوتے ہیں۔جبکہ لبرل اور سیکولر دانشور اور سیاست دان گلتے سڑتے اس سماج میں برداشت اور سیکولر ازم کا درس دے رہے ہیں۔ مذہب کے نام پر قائم کیے گئے ملک میں سیکولر ریاست اور سماج کی بات کرنا ہی ایک تضاد ہے۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ بورژوا یا قومی جمہوری انقلاب کے فرائض پورے کرنے میں ناکام ہو گیا ہے جن میں مذہب کی ریاست سے علیحدگی بھی شامل ہے۔ اپنی تاریخی تاخیراور سامراج پر معاشی انحصار کی وجہ سے وہ ایک جدیدصنعتی سماج قائم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔بحران میں آتی شدت اور رجعتی اشرافیہ اور انکی ریاست کو درپیش مسائل میں اضافہ کے ساتھ، یہ بورژوازی جسے سیکولر ہونا چاہیے، مذہبی تعصبات کے ذریعے طبقاتی جدوجہد کو تقسیم کرنے کے لیے مذہب اور اسلامی بنیاد پرستی کو استعمال کر رہی ہے۔اسلامی دہشت گرد اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت جمع کر کے خود اشرافیہ کا حصہ بن رہے ہیں۔ فاشزم کی طرح مذہبی بنیاد پرست دہشت گردی بھی گلتے سڑتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کا کشید شدہ عر ق ہے۔اس شیطانی چکر میں عوام کی زندگیاں ذلتوں اور تکالیف میں گھِر چکی ہیں۔اسلامی بنیاد پرستی اور اقلیتوں پر حملوں میں میں اضافہ بربریت کے خطرے کی علامات ہیں‘ خاص طور پرطبقاتی جدوجہد اور عوامی تحریک میں عارضی جمود اور ٹھہراؤ کے دور میں یہ نہ صرف اقلیتوں کے لیے بلکہ تہذیب و تمدن کے وجود کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ نیا مذہبی فاشزم بسترِ مرگ پر پڑے نظام کے ساتھ اٹوٹ رشتے میں بندھا ہوا ہے۔نام نہاد سیکو لر لبرل اور قومی بورژوازی معاشی، سماجی اور تکنیکی طور پر اس قدرکمزور اور بوسیدہ ہیں کہ ان تاریک رجعت پسندوں کے خلاف لڑائی اور اس کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔سرمایہ داری کا انقلابی طریقے سے خاتمہ کیے بغیر اس سرطان کے شکار سماج کو بچانا نا ممکن ہے۔