"DLK" (space) message & send to 7575

جانچ پڑتال کا کھلواڑ

اس برس ہونے والے انتخابات کے لیے امیدواروں کی جانچ پڑتال کا سارا عمل ایک تماشہ بن کر رہ گیا ہے۔ ضیاء الحق کی جانب سے آئین میں شامل کیے گئے آرٹیکل 62 اور 63 پر عملدرآمد کے لیے الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کی کوششوں پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ مفلوج معیشت، سلگتے سماج اور سیاست میں عمومی زوال کا اظہار موجودہ دور کی اقدار، اخلاقیات، رویّوں اور اطوار میں گراوٹ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ متوقع امیدواروں سے پوچھے گئے سوالات اور جمہوریت کے علمبرداروں کے جوابات کسی بے معنی ناٹک کی مانند لگتے تھے۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت مجلسِ شُوریٰ کا رکن بننے کے لیے درکار ’قابلیتیں‘ ایک متذبذب سوچ کی علامات ہیں جو بیوروکریسی کے خیالات اور جاہلیت کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہیں۔ شق 62 (d-1) کے مطابق امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’’اچھے کردارکا مالک ہو اور لوگوں میں شعائر اسلامی کی خلاف ورزی کرنے کے لیے نہ جانا جاتا ہو‘‘۔ شِق (1-e) کے مطابق وہ ’’اسلامی تعلیمات کا کافی عمل رکھتا ہو، اسلام کے فرائض پر عمل کرے اور بڑے گناہوں سے اجتناب کرے‘‘۔ شِق (f) کے مطابق امیدوار ’’دانا، نیک، پرہیزگار، صادق اور امین ہو اور کسی عدالت نے اسے ان شرائط کی خلاف ورزی کا مرتکب نہ ٹھہرایا ہو‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’اچھے کردار‘ کا تعین کون اور کیا چیز کرے گی اور لوگ کیا جانتے ہیں اور کیا نہیں جانتے؟۔ اسی طرح ’اسلامی تعلیمات کے کافی علم‘ سے کیا مراد ہے اور کون سا نصاب کس درجے تک پڑھ کر ’کافی علم‘ حاصل ہو جائے گا؟ اور وہ کون سے گناہ ہیں جنہیں کرنے پر امیدوار نااہل نہیں ہو گا؟ اور پھر کس قانون کے تحت کسی فرد کی سچائی، دانائی، پرہیزگاری اور ایمان داری کا فیصلہ کیا جائے گا اور یہ فیصلہ کون کرے گا؟ غالباً یہ اختیار امیر طبقات سے تعلق رکھنے والے آقاؤں کو ہی حاصل ہے جو استحصال سے لوٹے ہوئے مال کو خدا کی دین، اپنی عیاشیوں کو نیکیوں کا صلہ اور اپنی طاقت اور مظالم کو کفر اور گناہ کے خلاف جہاد بنا کر پیش کرتے ہیں۔ درحقیقت ایسے اقدامات اس جابرانہ سوچ کا عکس ہیں جو بنیادی حقوق کے حصول کی خاطر بار بار بغاوت کرنے والے عوام کو کچلنا اور محکوم رکھنا چاہتی تھی۔ لوگوں کی نجی زندگیوں میں بے دردی سے مداخلت کی گئی۔ لوگوں اور خصوصاً بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو بدنام کرنے کے لیے ان پر گناہ گاری جیسے الزامات لگائے گئے۔ ریاستی پشت پناہی کے ساتھ انہوں نے بائیں بازو کے کارکنان اور ان کے خاندانوں کے خلاف وحشیانہ اقدامات کیے۔ خواتین بنیاد پرست حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے کئی اور قوانین کا خاص طور پر نشانہ بنیں۔ افسوس کہ ضیاء الحق کے بعد آنے والی سرمایہ دارانہ جمہوری حکومتوں نے بھی ان قوانین کو جاری رکھا۔ یہ لبرل اور سیکولر حکومتیں عوام کی زندگیوں میں بے جا مداخلت، دراندازی اور ان کو مجروح کرنے والے قوانین کو ختم کرنے سے گریزاں رہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ لبرل اور سیکولر حکومتیں اپنے ناکام اقتدار کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں اور طبقاتی جدوجہد کی جڑت کو توڑنے کے لیے مذہب کو استعمال کر رہی تھیں۔ اس کے بعد امریکی سامراج کی مسلط کردہ اور حمایت یافتہ مفاہمت کی پالیسی آئی۔ اس کا مقصد اس نظام کے نافذ کردہ سیاسی افق سے دائیں اور بائیں بازو کی تمیز کا خاتمہ تھا۔ لیکن جب تک طبقاتی سماج موجود ہے طبقاتی جدوجہد جاری رہے گی، گو اس میں نشیب و فراز آتے رہیں گے اور دائیں اور بائیں بازو کی لڑائی اس طبقاتی جنگ کا اظہار ہے۔ ایسے وقت پر جب ملک ایک تباہ کن بحران کی لپیٹ میں ہے، سیاسی اور ریاستی طاقت کو استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کے پاگل پن میں مبتلا حکمران اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے درمیان تضادات واضح ہو کر سامنے آ گئے ہیں۔ سماج میں کسی حد تک جمود اور متحارب حکمران اشرافیہ کے شدید ٹکراؤ کی کیفیت میں ریاست ایک ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور خود کو زیادہ شدت کے ساتھ منوا رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی کو مسترد کرنے کی خاطر ان آرٹیکلز کا استعمال ہو رہا ہے۔ اس سے ریاست کا رجعتی کردار بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر پارلیمان میں ان چیزوں کو ختم بھی کر دیا جائے تو تعصب قائم رہے گا اور سماج کے مجبور حصوں کے خلاف اس رجعتی پالیسی کا استعمال جاری رہے گا۔ نتیجتاً سماجی گھٹن میں عوام کا سانس بند ہو جائے گا اور ان کی زندگیاں مزید المناک ہو جائیں گی۔ یہ واضح ہو چکا کہ متروک سرمایہ دارانہ نظام کو جاری رکھنے کے لیے ریاست اور اشرافیہ مذہب کو اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں۔ اصلاح احوال نہ کی گئی تو یہ بحران مزید گہرا ہو گا اور آنے والے مہینوں میں مزید معاشی بربادی ہو گی۔ شاید ہی کوئی ایک بھی امیدوار ان شرائط پر پورا اتر سکے۔ اس لیے سب کے سب جھوٹ بولیں گے، جھوٹے حلف ا ٹھائیں گے اور ایسی منافقت ہو گی جس کی مثال نہیں ملتی۔ حکمرانوں کی جانب سے مسلط کردہ جھوٹی اخلاقیات اور بھی زیادہ گل سڑ جائیں گی۔ ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ ’’نام نہاد‘سماجی طور پر تسلیم شدہ‘ اخلاقی اقدار بنیادی طور پر مبہم کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ محض اس حقیقت کا اظہار ہوتی ہیں کہ انسان اپنے انفرادی کردار میں کچھ مشترکہ قواعد کا پابند ہوتا ہے جو اس پر سماج کا رکن ہونے کی وجہ سے لاگو ہوتے ہیں‘‘۔ لیکن ان اقدار کا تعین اور نفاذ حکمران پرتیں کرتی ہیں جو خود سفاک، کرپٹ، دھوکہ باز، بے رحم، غدار اور منافق ہیں۔ بنیادی اخلاقی اقدار بھی مجروح ہو چکی ہیں۔ دھوکہ دہی، بہتان تراشی، رشوت خوری، استبداد اور خونریزی انتہاؤں تک جا پہنچی ہیں۔ یہ سرمایہ داری کے گل سڑ جانے کی علامات ہیں جس کا اظہار موجودہ سماج، اس کے قوانین اور اخلاقیات کی گراوٹ کی شکل میں ہو رہا ہے۔ حکمران طبقات کرپشن، لوٹ مار، استحصال اور چوری سے کمائی گئی دولت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ مجبور اور محکوم طبقات کے لوگ اپنی بقا اور روزمرہ کی تگ و دو کی خاطر جھوٹ بولتے ہیں۔ باقاعدگی سے مذہبی رسوم ادا کرنے والے اکثر ذخیرہ اندوزی، دھوکہ دہی، چوری اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں ملوث ہوتے ہیں جس کا مقصد اپنی شرحِ منافع کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ سلگتے ہوئے سماجی اور معاشی مسائل پر بات کرنے کی بجائے میڈیا، سیاست دان اور مذہبی پیشوا ہمیشہ افراد، عادات اور کردار پر بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ سماجی جمود کی اس کیفیت میں بحثیں زیادہ عام ہو جاتی ہیں۔ لایعنی بحث کی جاتی ہے۔ اصل حقائق کا کوئی ادراک نہیں کیا جاتا۔ کیا سماج کو درپیش حقیقی مسائل یہ ہیں؟ سماجی اور اخلاقی بحران سماج اور ریاست کو لاحق شدید مرض کو عیاں کر رہے ہیں۔ اس سے اٹھتا ہوا تعفن اس رجعت کو برداشت کرنے پر مجبور عوام کا دم گھونٹ رہا ہے۔ یہ اس سماج کو جکڑے ہوئے نظام کی تاریخی، سماجی اور معاشی متروکیت کا اظہار بھی ہے۔ آخر کسی نہ کسی کو تو انتخابات کی اس سرکس میں شریک ہونے کا اہل بھی قرار دینا ہے۔ لیکن دولت مند طبقات کے یہ افراد جھوٹ، دھوکہ بازی اور منافقت کے ذریعے امیروں اور طاقتورں کی پارلیمان میں جانے کے بعد وہی پالیسیاں نافذ کریں گے جن کے ہاتھوں محنت کش عوام برباد اور اس دھرتی کے باسی اذیت ناک تکالیف اور مصائب کا شکار ہوئے ہیں۔ تاہم آنے والی سماجی و معاشی تباہی اور انقلابی طوفانوں میں اس نظام کے مقدر میں منہدم ہونا ہی لکھا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں