"DLK" (space) message & send to 7575

وینزویلا: انقلاب اور انتخابات

گزشتہ اتوار کو وینزویلا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں 1.6 فیصد کے محدود فرق سے نکولس ماڈورو کی فتح کے بعد سے انقلابِ وینزویلا کو لاحق خطرات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ انقلابی عمل اپریل 2002ء میں اس وقت شروع ہوا جب امریکی سامراج کی پشت پناہی سے فوجی اشرافیہ کے ایک دھڑے نے صدر ہوگو شاویز کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اس کُو (Coup) کے ردعمل میں وینزویلا کے محنت کشوں، نوجوانوں، فوج کے سپاہیوں اور نوجوان افسروں نے بغاوت کر دی۔ لاکھوں لوگ اپنے محبوب لیڈر کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے۔ عوامی تحریک کے شدید دبائو اور اس کے قابو سے باہر ہو جانے کے خوف سے امریکی سامراج اور وینزویلا میں اس کے آلہ کاروں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی اور فوجی بغاوت کے 48 گھنٹے بعد ہی ہوگو شاویز بطور صدر بحال ہو گئے۔ مارچ 2013ء میں کینسر سے شاویز کی موت کے بعد ہونے والے ان صدارتی انتخابات میں شاویز کے نامزد جانشین ماڈورو کامیاب ہوئے ہیں لیکن دائیں بازو کی حزب اختلاف کے امیدوار اور وینزویلا کی اشرافیہ کے چہیتے اینریک کاپریلس نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اگرچہ ماڈورو نے اپوزیشن کی جانب سے انتخابی نتائج کا آڈٹ کروانے کے مطالبے کو تسلیم کیا ہے لیکن ایک بار پھر سامراج کی ایما پر حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اپوزیشن ملک بھر میں جلائو گھیرائو کر رہی ہے۔ درحقیقت اشرافیہ کی نمائندہ دائیں بازو کی اپوزیشن نے اپنے لیڈر کاپریلس کی سربراہی میں مقامی اور بین الاقوامی بورژوا میڈیا کی مدد سے الیکشن سے کئی ہفتے پہلے سے ہی نیشنل الیکشن کمیشن کو بدنام کرنے کی منظم مہم چلا رکھی تھی اور وہ نتائج آنے سے گھنٹوں پہلے ہی شور مچانا شروع ہو چکے تھے۔ حکومت اگرچہ شاویز کے حامیوں کے پاس ہے لیکن ملک کا زیادہ تر مال و دولت اور میڈیا مخالفین کی دسترس میں ہیں۔ سرکاری ٹی وی دیکھنے والوں کی شرح کُل ناظرین کا چھ فیصد ہے۔ اپوزیشن والوں کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی برتری حاصل ہے کیونکہ وہ ان میں سے اکثریت کے مالکان ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ماڈورو کہتا رہا کہ وہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج تسلیم کرے گا خواہ اس کو شکست ہی کیوں نہ ہو لیکن ان کا مخالف امیدوار ایسا کہنے سے کتراتا رہا اور اس نے الیکشن کمیشن کی تیارکردہ دستاویز پر دستخط کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ ماڈورو نے جیتنے کے بعد تقریر میں کہا کہ2000ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں بش اپنے مخالف سے کم ووٹ لینے کے باوجود کامیاب ٹھہرے تھے۔ لاطینی امریکہ کے امور کے ماہر پروفیسر میگل ٹِنکر سالاس نے الجزیرہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا: ’’ہر انتخاب میں کسی کی جیت اور کسی کی ہار ہوتی ہے، امریکہ کو2006ء میں میکسیکو میں فیلِپ کالڈیرون کی فتح کو تسلیم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا جو 0.2 فیصد ووٹوں کے فرق سے جیتا تھا، صورتحال کو بے قابو بنانا اپوزیشن کی انتہائی احمقانہ حرکت ہو گی‘‘ حتیٰ کہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے بھی کئی بار تسلیم کیا کہ وینزویلا کا انتخابی نظام ’’دنیا بھر میں شفاف ترین اور فول پروف‘‘ ہے۔ سینٹر فار اکنامک اینڈ پالیسی ریسرچ سے تعلق رکھنے والے انتخابات کے ایک بین الاقوامی مبصر ایلکس مین کے مطابق ’’ووٹ ڈالنے کا عمل بہت غیرمعمولی تھا۔ توثیق کرنے کا ایسا عمل ہے جس میں ہر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کاغذ کی ایک رسید نکالتی ہے جسے ایک مقفل ڈبے میں ڈال دیا جاتا ہے اور بعد ازاں اس کی پڑتال کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سارے عمل کے دوران کئی اور مراحل پر بھی آڈٹ ہوتا ہے‘‘ اس نام نہاد ’’جمہوری‘‘ اپوزیشن کو اس وقت کوئی تکلیف نہیں ہوئی جب کاپریلس انتہائی کم فرق سے میرانڈا کا گورنر منتخب ہوا تھا یا اس وقت جب اپوزیشن 1.4 فیصد کے معمولی فرق سے2007ء کا آئینی ریفرینڈم جیتی تھی۔ اس وقت بولیویرین انقلاب نے جمہوری نتائج کو تسلیم کیا تھا۔ ’’جمہوریت‘‘ کی مالا جپنے والے ان سامراجی پٹھوئوں کا طریقہ واضح ہے، جب اشرافیہ جیت جائے تو نتائج تسلیم کر لو اور ہارنے پر دھاندلی کا شور مچا دو۔ شاویزکی موت کے بعد بالیویرین انقلاب کی اس فتح کی اصل وجہ شاویز کے چودہ سالہ اقتدار کے دوران کی جانے والی بڑے پیمانے کی اصلاحات ہیں۔ گارڈین اخبار میں چھپے ایک مضمون کے مطابق ’’شاویز کے نظریات کو مزید سات برس کے لیے اقتدار ملنے کی وجہ صرف منصوبوں کی تکمیل نہیں۔ شاویز کے دورِ اقتدار میں وینزویلا کے باسیوں کے معیارِ زندگی میں بہت بہتری آئی… غربت نصف رہ گئی اور شدید غربت میں 70 فیصد کمی آئی۔ 2004ء سے 2012ء کے دوران فی کس حقیقی آمدن میں 2.5 فیصد اضافہ ہوا۔ شاویز کے اقتدار میں آنے کے وقت بیروزگاری کی شرح 14.5 فیصد تھی جو 2012ء میں کم ہو کر 8 فیصد رہ گئی۔ معیشت دان اور دیگر ماہرین ان اعدادوشمار سے اختلاف نہیں کرتے اور نہ ہی آئی ایم ایف، عالمی بینک اور اقوامِ متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے ایسا کر سکتے ہیں لیکن بڑے مغربی میڈیا میں ان کے بارے میں نہیں بتایا جاتا کیونکہ وہ وینزویلا کی حکومت کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘‘ شاویز کے دور میں سستے تیل کے عوض کیوبا سے پچیس ہزار ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف کے لوگ منگوائے گئے۔ شاویز کے ان سماجی پروگراموں نے لوگوں کو کافی سہولتیں فراہم کر دیں جن میں صحت کی سہولیات، حکومت کی جانب سے سستی خوراک اور ہر سطح پر مفت تعلیم شامل ہے۔ انتخابات میں شکست کے بعد دائیں بازو کی اپوزیشن نے نہ صرف شاویز کے حامیوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں کیں بلکہ PSUV (یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا) کے خلاف معاشی اور سیاسی سبوتاژ کی منظم مہم بھی جاری رکھی۔ صدارتی محل کی کھڑکی سے خطاب کرتے ہوئے ماڈورو نے کہا: ’’میں جس ریاست میں بھی گیا وہاں بجلی بند کر دی گئی اور میری واپسی کے بعد اسے بحال کر دیا گیا‘‘ بجلی کے گرِڈ کو سبوتاژ کرنے کے الزام میں اب تک تئیس افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح خوراک کی فراہمی کو سبوتاژ کرنے کے لیے ذخیرہ اندوزی اور سٹہ بازی کے ذریعے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کروایا گیا‘ غرضیکہ سرمایہ دار طبقے نے یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا کی حکومت کے راستے میں روڑے اٹکانے اور انقلاب کو سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ شاویز کی موت کے بعد بھی یہ عمل اب تک جاری ہے۔ اس سب کے باوجود محنت کش عوام نے بار بار یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا کو ووٹ دے کر انقلاب کا تحفظ کیا لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اس بار انتخابات میں کامیابی بہت ہی کم فرق سے ملی ہے۔ گزشتہ برس 7 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں شاویز کو بڑی کامیابی ملی تھی اور تب کے مقابلے میں حالیہ انتخابات میںیونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلاکے ووٹوں میں 680,000 کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ سست روی سے آگے بڑھتے ہوئے بالیویرین انقلاب کے لیے ایک سنگین انتباہ ہے‘ جو ابھی تک ادھورا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ماڈورو بنیادی طور پر اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات، اعتراضات اور بحث میں الجھ گیا جو جرائم، افراطِ زر اور قلت کے مسائل کے گرد تھی۔ اس محاذ پر لڑنا اس کے لیے نقصان دہ تھا۔ لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وینزویلا کی بورژوازی کے پاس اب بھی بہت زیادہ معاشی اور مالیاتی طاقت موجود ہے۔ سرمائے کی اسی قوت کو استعمال کرتے ہوئے حکمران طبقہ مسلسل عدم استحکام کی صورتحال پیدا کیے ہوئے ہے اور یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا کی حکومت کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ ’’بولیویرین‘‘ بیوروکریسی بھی انقلاب کے کندھوں پر بوجھ بنی ہوئی ہے اور عوام پارٹی پر براجمان افسر شاہی سے نفرت کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا کے اندر تطہیر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پارٹی کو اپنا ناقدانہ تجزیہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، لیکن سب سے بڑھ کر ذرائع پیداوار، بینکوں، مالیاتی اداروں اور جاگیروں کو قومی تحویل میں لے کر انقلاب کو مکمل کرنا ہو گا۔ وینزویلا کو برباد کرنے والے استحصالی ملٹی نیشنل اداروں کے اثاثوں اور دولت کو ضبط کرنا بھی انقلاب کے فرائض میں شامل ہے۔ صرف اسی راستے پر چلتے ہوئے انقلاب افراطِ زر، ذخیرہ اندوزی اور سٹہ بازی جیسے مسائل کو حل کرنے کے قابل ہو گا جن کی وجہ سے اس کی مقبولیت محنت کشوں میں کم ہو رہی ہے۔ غریب عوام کی وسیع اکثریت کے مفاد میں معیشت کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے۔ فتح کے بعد تقریر میں ماڈورو نے کہا کہ وہ شاویز کی میراث کا امین ہے اور ’ایک سوشلسٹ ملک‘ کی تعمیر کر رہا ہے۔ انقلاب کے ادھورے فرائض کی تکمیل کے لیے یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا کو اب جارحانہ عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بصورتِ دیگر لوئی دی ساں یست کے الفاظ میں ’’ادھورا انقلاب لانے والے صرف اپنی قبریں کھودتے ہیں‘‘۔ وینزویلا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو طبقاتی جنگ کے آخری معرکے تک لڑنا ہو گا، انقلاب کی فتح کا یہی واحد راستہ ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں